استعمال شدہ لیپ ٹاپ اور پرانے موبائل فون میں چھپا سونا نکال کر زیورات کیسے بنائے جا رہے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 07, 2023

مجھے سکیورٹی چیک کے بعد حفاظتی عینک اور سفید لیب کوٹ پہنا کر ساؤتھ ویلز میں ’رائل منٹ‘ یعنی سکے بنانے کی ٹکسال میں لے جايا گیا۔ ’رائل منٹ‘ ایک ایسی جگہ ہے جہاں 30 سے زیادہ ممالک کے لیے اربوں سکے (کرنسی) بنائے جاتے ہیں۔

برطانیہ کا سرکاری سکے بنانے والا ادارہ ’رائل منٹ‘ دو سال سے الیکٹرانک فضلے (ای ویسٹ) سے دھاتوں کو نکالنے کے ایک پراسرار نئے طریقے پر کام کر رہا ہے۔

جیسے ہی میں ہیلی میسنجر کی چھوٹی سی لیبارٹری میں پہنچا تو انھوں نے کہا کہ یہاں کسی بھی چیز پر لیبل اس لیے نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ یہاں ’ہر چیز ایک راز ہے!‘

ہیلی میسنجر پائیدار قیمتی دھاتوں کیماہر کیمیا دان ہیں اور انھوں نے یہ بات ٹوٹے ہوئے سرکٹ بورڈز کے ایک لیٹر کی گنجائش والے گلاس فلاسک میں ’جادوئی سبز محلول‘ ڈالتے ہوئے کہی۔

کیمیائی تجزیہ کاروں کی ایک ٹیم نے کینیڈا کے سٹارٹ اپ ’ایکسر‘ کے ساتھ مل کر ایک صاف اور کم توانائی لینے والا موثر طریقہ ایجاد کیا ہے اور اس کے جملہ حقوق (پیٹنٹ) بھی حاصل کر لیے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ناقابل استعمال یا خراب لیپ ٹاپس اور پرانے موبائل فونز کے اندر پائے جانے والے پرنٹ شدہ سرکٹ بورڈز سے 99 فیصد سونا نکال سکتے ہیں۔

رواں سال کے آخر میں ’رائل منٹ‘ ایک نئی ملٹی ملین پاؤنڈ فیکٹری کھول رہا ہے جو مکمل طور پر کام کرنے کے بعد ہر ہفتے 90 ٹن سرکٹ بورڈز کو پروسیس کرنے کے قابل ہو جائے گا اور اس طرح ہر سال ناقابل استعمال الیکٹرک آلات سے سینکڑوں کلو گرام سونے کی بازیافت ہو سکے گی۔

جب چمکدار مرکب سے آواز آتی ہے تو میسنجر ڈھکن کو کسنے لگتی ہیں اور پھر وہ مواد کو ہلانے کے لیے فلاسک کو ٹمبلنگ مشین پر رکھتی ہیں۔ صرف چار منٹ میں اس میں کوئی بھی سونا گھل جاتا ہے اور مائع کی شکل میں نکل کر باہر آ جاتا ہے۔

وہ کہتی ہین ’یہ سب کمرے کے درجہ حرارت میں ہوتا ہے اور وہ بھی بہت جلد۔‘

وہ مزید بتاتی ہیں کہ اس کیمیائی محلول کو 20 بار تک دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے اور ہر بار تحلیل شدہ سونے کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔

جب ایک اور پراسرار مرکب یا محلول اس میں ڈالا جاتا ہے تو سونا دوبارہ ٹھوس دھات بن جاتا ہے۔ اس پاؤڈر کو فلٹر کیا جاتا ہے اور اسے پگھلا کر انگوٹھے کے ناخن کے سائز کے نگٹس بنائی جاتی ہیں۔

ان نگٹس کو پھر لاکٹ ہار، بالیوں اور کف لنکس میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان ری سائیکل شدہ قیمتی دھاتوں کی اصل خوبصورتی اس انتہائی ہموار کیمیائی عمل کے چھیلنے میں مضمر ہے۔

ایک کیمیائی حل

ای ویسٹ (جسے دنیا بھر میں الیکٹریکل آلات کا فضلہ یا ڈبلیو ای ای ای بھی کہا جاتا ہے) دنیا کا سب سے تیزی سے جمع والا فضلہ ہے۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کا کہنا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ہر سال عالمی سطح پر 50 ملین ٹن ای ویسٹ پیدا ہوتا ہے، جس کا وزن اب تک بنائے گئے تمام کمرشل ہوائی جہازوں سے زیادہ ہے۔

لیکن اس میں سے صرف 20 فیصد کو باقاعدہ طور پر ری سائیکل کیا جاتا ہے، اور زیادہ تر کو پھینک دیا جاتا ہے۔ ان کو یا تو زمین میں دبا دیا جاتا ہے یا پھر جلا دیا جاتا ہے۔

پچھلے سال قیمتوں کا موازنہ کرنے والی سروس ’یو سوئچ‘ کے ایک مطالعے سے معلوم ہوا کہ برطانیہ نے فی شخص الیکٹرک فضلہ کی دوسری سب سے بڑی مقدار پیدا کی۔ اس فہرست میں ناروے سب سے اوپر اور امریکہ آٹھویں نمبر پر ہے۔

جیسے جیسے زیادہ پورٹیبل ڈیوائسز اور تیز الیکٹرانکس کی مانگ بڑھتی جائے گی اسی طرح ای ویسٹ کا انبار بھی بڑھتا جائے گا۔

سنہ 2019 میں ورلڈ اکنامک فورم نے اندازہ لگایا تھا کہ سنہ 2050 تک سالانہ ای ویسٹ کی پیداوار بڑھ کر 120 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی۔

تمام اہم خام مال کی طرح سونا بھی ایک محدود خزانہ ہے، پھر بھی دنیا کا 7 فیصد سونا اس وقت غیر مستعمل الیکٹرانکس آلات میں پڑا ہوا ہے۔ سونا نکالنے کے لیے عام طور پر آلات کو یورپی یونین یا ایشیا بھیجا جاتا ہے جہاں ای فضلہ انتہائی اعلی درجہ حرارت پر انتہائی خام اور کاربن سے بھرپور عمل میں پگھلایا جاتا ہے۔

میسنجر کا کہنا ہے کہ ’ہم اس وقت ضائع ہونے والی چیزوں سے زیادہ سے زیادہ قیمتی دھاتوں کو بازیافت کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری توجہ برطانیہ کے اندر پائیدار طریقے سے نکالنے پر مرکوز ہے اور یہ ایک طریقہ سے کیا جا رہا ہے جو کمرے کے درجہ حرارت پر کارآمد ہو جبکہ اسے گلانے میں بہت کم گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج ہو۔‘

Getty Imagesدنیا کا 7 فیصد سونا اس وقت غیر مستعمل الیکٹرانکس میں پڑا ہوا ہے

رائل منٹ کے کمرشل ڈائریکٹر مارک لوریج کہتے ہیں کہ ’اگر ہم فضلہ پیدا کر رہے ہیں، تو اسے چھانٹنا بھی ہماری ہی ذمہ داری ہے، ہمیں اسے چھانٹنے کے لیے کسی دوسرے ملک میں نہیں بھیجنا چاہیے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مقامی ری سائیکلنگ پلانٹس کے ارد گرد ای ویسٹ سپلائی چینز تیار کرنے سے ضائع شدہ الیکٹرانکس کو سمندری، ہوائی اور سڑک کے راستے منتقل کرنے کے عمل کو ڈرامائی طور پر کم کیا جائے گا، اور رائل منٹ پہلے سے ہی دنیا بھر کے شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ اس ٹیکنالوجی کو عالمی سطح پر عام کیا جا سکے۔

اب میں اپنے لیب کوٹ کی جگہ نارنجی رنگ کی ہارڈ ہیٹ، ہائی ویز جیکٹ اور سیاہ سٹیل ٹو والے جوتے پہن لیتا ہوں اور نئے پروسیسنگ پلانٹ کی طرف جاتا ہوں۔

اس 3,000 مربع میٹر فیکٹری کے ایک کونے میں درجنوں بڑے بڑے بیگ پڑے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رنگ برنگے سرکٹ بورڈز سے بھرا ہوا ہے۔ یہ لیپ ٹاپ اور موبائل فونز سے نکالا جانے والا سامان ہے جو ملک بھر میں 50 ای ویسٹ سپلائرز کے نیٹ ورک کے ذریعے فیکٹری میں پہنچائے گئے ہیں۔

ان کی آمد پر سرکٹ بورڈز کا معائنہ کیا جاتا ہے اور اسے چاندی کے ایک بڑے ہوپر میں ڈالا جاتا ہے جو اس خام مال کو ایک بڑی رنگ برنگی مشین میں بھیج دیتا ہے۔

اس پلانٹ کی تنصیب کی نگرانی کرنے والے مینوفیکچرنگ انوویشن کے ڈائریکٹر ٹونی بیکر بتاتے ہیں کہ جیسے جیسے سرکٹ بورڈ میکانکی طور پر الگ الگ ہو جاتے ہیں، کسی بھی غیر سونے والے اجزا کو ایک طرف رکھا جاتا ہے، جب کہ سونے والے پرزے جیسے یو ایس بی پورٹس کو ڈیجیٹل طور پر پتہ چلا کر اسے 500 لیٹر والے ری ایکٹر میں بھیج دیا جاتا ہے۔

یہاں اس میں ’جادوئی سبز محلول‘ کو بہت بڑے پیمانے پر شامل کیا جاتا ہے اور سونے کی ریت نکالی جاتی ہے اور دوبارہ اس کے نگٹس تیار کیے جاتے ہیں۔

بیکر بتاتے ہیں کہ بہت زیادہ غیر سونے والے اجزا کو شروع میں ہٹا دیا جاتا ہے اس لیے کیمیائی پروسیسنگ صرف سونے پر مشتمل ٹکڑوں پر کی جاتی ہے۔

رائل منٹ کے ذریعے استعمال ہونے والا خام مال پورے لیپ ٹاپ یا پورے موبائل فونز کے بجائے سرکٹ بورڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔

ایک بار جب سونا نکال لیا جاتا ہے، تو باقی رہ جانے والے غیر سونے کے اجزا کو سپلائی چین کے مختلف حصوں میں دوبارہ استعمال کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ اس طرح کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا۔

لوریج کے مطابق فیڈ سٹاک کے لحاظ سے سونے کا مواد 60 حصے فی ملین سے 900 حصے فی ملین کے درمیان مختلف سطح پر ہوتا ہے۔

بہر حال، فی الحال رائل منٹ کا فضلہ ری پروسیسنگ پلانٹ نسبتاً چھوٹے پیمانے پر صرف سونے کی ری سائیکلنگ میں مہارت رکھتا ہے، اس کا مقصد بالآخر اسی سرکٹ بورڈ کے خام مال سے دیگر قیمتی دھاتوں کو بھی برآمد کرنا ہے۔ اور جب باقی ماندہ پلاسٹک یا فائبر گلاس کو پراسیس کیا جاتا ہے تو اس سے پیدا ہونے والی کچھ توانائی مصنوعی گیس میں تبدیل ہو جاتی ہے جو کہ ٹکسال کے اپنے مقامی انرجی پلانٹ میں استعمال کی جاتی ہے۔

اس طرح اسے براہ راست بجلی اور توانائی کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ یہ کمپنی کے منصوبے کا حصہ ہے جس میں پوری مینوفیکچرنگ سائٹ کو چلانے کے لیے درکار 70 فیصد بجلی شمسی، ہوا، مشترکہ حرارت اور بجلی کے علاوہ بیٹری سٹوریج جیسے قابل تجدید ذرائع سے حاصل کی جائے گی۔

اگر ایکسر کیمسٹری قیمتی دھاتوں کی وسیع اقسام کی بازیافت کرنے کے قابل ہو جاتی ہے اور اس کا پورا نظام مقامی طور پر تیار کردہ قابل تجدید ذرائع پر چل سکتا ہے تو ملک بھر کی دیگر ریفائنریوں میں اسے متعارف کرایا جا سکتا ہے اور ای فضلہ کو کہیں اور بھیجنے سے قبل اسے کم سے کم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

لوریج کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ای ویسٹ سپلائی کرنے والوں اور پروسیسرز کا یہ نیٹ ورک اس طریقے سے بڑھے جو گھر کے قریب دوبارہ استعمال کو ترجیح اور ترغیب دے۔

بیکر کہتے ہیں کہ ’شروع میں آپ جتنا زیادہ چیزوں کو الگ لگ کر سکتے ہیں، آپ کو اتنی ہی کم محنت کرنی پڑے گی، اتنی ہی خالص چیزیں نکلیں گی اور ہمیں اس کے لیے اتنی ہی بہتر قیمت ملے گی۔‘

’ہمیں قیمتی دھاتوں کی ضرورت ہے جو کہ ہمارے لیے دھاتوں کے طور پر بہت اہم ہے، لیکن یہ صرف دھات کو نکالنے اور باقی کو ضائع کرنے کے بارے میں نہیں ہے۔ ہم ان سرکٹ بورڈز کے ہر ایک حصے کے لیے ایک جگہ تلاش کرنا چاہتے تھے۔‘

ایک بار جب سونا نکال لیا جاتا ہے پھر جو باقی رہ جاتا ہے وہ غیر سونے کے ای ویسٹ کے باریک ذرات کے روپ میں بچ جاتا ہے۔ پھر اسے مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

تانبے کے کنسنٹریٹ، سٹیل اور ٹن کے ٹبوں کو فروخت کیا جاتا ہے اور دوبارہ استعمال کے لیے ماہر ری سائیکلرز کو بھیج دیا جاتا ہے۔ جبکہ باقی ماندہ فائبر گلاس کو پروسیس کرنے سے جو چار بچتا ہے اسے سیمنٹ بنانے والی مقامی فیکٹریوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔

کیمیائی عمل میں استعمال ہونے والے عرق یا محلول کو 20 بار دوبارہ استعمال کرنے کے بعد اسے ری سائیکلنگ کے لیے بھیجا جاتا ہے۔ لوریج کا کہنا ہے کہ ایک بار جب یہ مکمل طور پر کام کرنے لگے کا تو اس کا مقصد صفر فضلہ ہو گا۔

Getty Images2020 ٹوکیو اولمپکس کے تمام تمغے الیکٹرانک فضلے سے تیار ہوئے تھے

سرکٹ بورڈ جیسے الیکٹرانک فضلے سے قیمتی دھاتوں کو حاصل کرنے کا رواج اب پنپ رہا ہے کیوں کہ ای ویسٹ کافی مقدار میں دستیاب ہے۔

کیٹ ہنٹن میٹریئل فوکس نامی کمپنی میں کام کرتی ہیں جن کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں گھروں میں 527 ملین پرانی الیکٹرانکس پڑی ہوئی ہیں جن میں 31 ملین پرانے لیپ ٹاپ بھی شامل ہیں اور اس سب کا مجموعی وزن ایک لاکھ 90 ہزار ٹن ہے۔

امریکہ میں تقریبا 60 ملین ڈالر مالیت کا سونا اور چاندی چھپائے ہوئے پرانے موبائل فونز ہر سال پھینک دیے جاتے ہیں۔

2022 میں لارنس برکلے نیشنل لیبارٹری نے تخمینہ لگایا تھا کہ ایک دہائی کے بعد امریکہ میں سالانہ ایک ارب الیکٹرانک ڈیوائس ضائع کیے جائیں گے جو امریکہ میں موجودہ دور میں نکالے جانے والے سونے کی مقدار سے تقریبا نصف سونا فراہم کر سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دھاتیں دوبارہ استعمال کی جا سکتی ہیں خصوصی طور پر اس لیے کہ سونے کی نہایت کم مقدار زمین سے نکالنے پر بہت زیادہ خرچہ ہوتا ہے۔

امریکی جیولر رنگ بیئر پہلے ہی اس طرح سے نکالے جانے والے سونے پر کام کر رہا ہے۔ پینڈورا کا بھی ارادہ ہے کہ 2025 تک صرف دوبارہ استعمال ہونے والا سونا اور چاندی ہی کام میں لایا جائے۔

2020 کے ٹوکیو اولمپکس کے تمغوں کے لیے 60 لاکھ موبائل فون سے نکلی دھات اور 72 ہزار ٹن الیکٹرانک فضلے کی مدد سے پانچ ہزار سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے تیار کیے گئے۔

کیٹ ہنٹن کا کہنا ہے کہ ہر سال ایک لاکھ 55 ہزار ٹن چھوٹا الیکٹرانک فضلہ پھینک دیا جاتا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ری سائیکلنگ عام ہو جائے۔

وہ تسلیم کرتی ہیں کہ یہ ہر مسئلے کا حل نہیں لیکن ان کے مطابق بنیادی دھاتوں کو ضائع کرنا ’پاگل پن‘ ہے اور ایسا کرنا مستقبل کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔

’ہمیں سمارٹ ڈیوائس بنانے کے لیے بھی وسائل درکار ہیں۔ اس وقت ہم بہت سے وسائل ضائع کر رہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم ٹیکنالوجی کو حیران کن چمکتی ہوئی شے کے طور پر دیکھتے ہیں اور اس کے اندر کیا موجود ہے، اس کے بارے میں نہیں سوچتے۔ ہمیں چاہیے کہ ٹیکنالوجی کو ممکن بنانے والے مواد کی قدر کریں۔‘

کیٹ کا کہنا ہے کہ ای ویسٹ کی ری سائیکلنگ کو عام کرنے کے لیے جدت کی ضرورت ہے۔ ’خصوصاً چھوٹی الیکٹرانکس جیسا کہ چارجر، پلگ اور تاریں جو تانبے سے بنتی ہیں۔ رائل منٹ جو کام کر رہا ہے وہ بہت اچھا ہے لیکن سونا تو اس مواد کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔‘

تاہم ایسا کرنے کے لیے تحقیق پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہو گی۔ جیسے جیسے روایتی کان کنی کے منفی اثرات کے بارے میں آگہی میں اضافہ ہو رہا ہے، قیمتی دھاتوں سے جڑی معیشت کی ترقی کے لیے نئی ٹیکنالوجی استعمال ہو سکے گی۔

اس کام میں تیزی لانے کے لیے ابھی زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ امریکی کمپنی نیو گولڈ ریکوری ایک ایسے طریقے پر کام کر رہی ہے جس کے ذریعے وہ سونا بھی حاصل کیا جا سکے گا جو عام طور پر ضائع ہو جاتا ہے۔

برطانوی کمپنی این ٹو ایس آئی ٹی کے سامان سے دھاتیں نکلانے پر کام کر رہی ہے اور 2021 میں انھوں نے 129 ٹن تانبا بازیافت کیا تھا۔

نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں گرین کیمسٹری کمپنی منٹ ای ویسٹ سے سونے اور تانبے جیسی دھاتیں نکالنے کے لیے نیٹ ورک وسیع کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ سڈنی میں اسی کمپنی کا آپریشن ملک کے 25 فیصد سرکٹ بورڈ فضلے کو استعمال کر سکے گا۔ اس کمپنی کا ارادہ ہے کہ 2024 تک اپنا کام برطانیہ تک پھیلائے۔

میٹیریئل فوکس کا تخمینہ ہے کہ برطانیہ میں سالانہ 13 ملین پاؤنڈ مالیت کی قیمتی دھاتیں اور خام مال الیکٹرک فضلے سے نکالا جا سکتا ہے اگر بہتر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ انھوں نے ایسے سرکٹ بورڈ کی نشاندہی بھی کی ہے جن کی مدد سے ضائع ہونے والے مواد کو کم سے کم کرتے ہوئے سونا، چاندی اور پیلیڈیئم جیسی قیمتی دھاتیں نکالی جا سکیں۔

رائل منٹ کا خفیہ فارمولا مستقبل میں شاید دیگر قیمتی دھاتیں نکالنے میں بھی کامیاب ہو جائے اور پھر زیورات کے علاوہ بھی مصنوعات کی تیاری میں ان کو استعمال کیا جا سکے۔

لوریج کافی پرجوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اس وقت ہمارے لیے سوبا بہت اہم ہے اور کوشش ہے کہ ہمارا انحصار کان کنی پر کم سے کم ہو۔‘

فیکٹری کا دورہ اختتام پذیر ہو رہا تھا تو ایسے میں بیکر نے کہا کہ ’ہم اس تصور کو پروان چڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک شخص کا فضلہ کسی دوسرے کے لیے خام مال بن سکتا ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More