’کھالوں کی قیمت 30 لاکھ روپے لیکن جرمانہ صرف چار لاکھ۔۔۔‘ برفانی تیندوؤں کی بڑھتی سمگلنگ کی وجوہات کیا ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Sep 06, 2023

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ایبٹ آباد کے وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ انتہائی نایاب برفانی تیندوے کی چار کھالیں گلگت بلتستان سے اسلام آباد سمگل کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی ہے جبکہ ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا۔

دوران تفتیش گرفتار ملزماں نے بتایا کہ وہ چاروں کھالیں گلگت بلتستان کے ضلع غذر سے لے کر اسلام آباد جا رہے تھے، جہاں پر ان کو مہنگے داموں فروخت کرنا تھا۔

محکہ وائلڈ لائف ایبٹ آباد کے ایس ڈی ایف او سردار نواز نے بتایا کہ ملزمان نے دوران تفتیش بتایا کہ انھوں نے یہ چاروں کھالیں 30 لاکھ روپے میں حاصل کی تھیں جبکہ ان کا پروگرام تھا کہ وہ ان کو اسلام آباد میں مزید مہنگے داموں فروخت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ محکمہ وائلڈ لائف خیبر پختونخوا نے وائلڈ لائف ایکٹ سنہ 2015 کے تحت کارروائی کرتے ہوئے چاروں افراد پر زیادہ سے زیادہ جرمانہ فی کھال تقریباً ایک لاکھ روپے کر دیا ہے۔ جرمانے کی ادائیگی کے بعد ملزمان کو رہا کر دیا گیا جبکہ کھالیں ضبط کر لی گئی ہیں۔

گلگت بلتستان محکمہ وائلڈ لائف کے کنزویٹر اجلال احمد کے مطابق خیبر پختونخوا کے محکمہ وائلڈ لائف سے مکمل معلومات حاصل کر لی گئی ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں بھی تفتیش شروع کر دی گئی ہے، جس کی تفصیلات ابھی نہیں بتائی جا سکتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کو روکنے اور بالخصوص برفانی تیندوے کے حوالے سے خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان وائلڈ لائف کو مل کر کام کرنا چاہیے۔ جس کے لیےگلگت بلتستان وائلڈ لائف اور خیبر پختونخوا وائلڈ لائف مختلف اقدامات کر رہا ہے۔‘

اجلال احمد کا کہنا تھا کہ محکمہ وائلڈ لائف گلگت بلتستان تمام جنگلی حیات بالخصوص برفانی تیندوے کے حوالے سے بہت حساس ہے۔

’ہمارے پاس کوئی تین سال قبل ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا، جس میں ایک شخص کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اس شخص کو نہ صرف قید کی سزا ہوئی بلکہ اس پر وائلڈ لائف کی مقامی کمیونٹی کی قائم کردہ کمیٹی نے پچاس لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔‘

کیا پاکستان میں تیندوے کا غیر قانونی شکار بڑھ رہا ہے؟

ماحولیات اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم شعور کے صدر مہدی زمان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ دنیا میں غیر قانونی کاروبار میں جنگلی حیات کا کاروبار دوسرے نمبر پر انتہائی منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے۔

’اس کی روک تھام اس ہی صورت میں ممکن ہے جب سزائیں اور جرمانے اتنے سخت ہوں گے کہ اس کاروبار میں ملوث لوگوں کو نقصان کا ڈر ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اب تیس لاکھ روپے کھالوں کی قیمت اور چار لاکھ روپے جرمانہ۔ یہ سزا تو گرفتار ہونے والے ملزماں کی ایک طرح سے حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ چار لاکھ میں چھوٹ کر ممکنہ طور پر یہ سوچیں گے کہ اب دوبارہ اس طرح کا کوئی چھکا مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

مہدی زمان ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوا انتہائی نایاب ہے۔ ’برفانی تیندوے کی ایک کھال کی برآمدگی بھی تشویشناک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے برفانی تیندوے کے حوالے سے انتہائی حساس ہونے کے باوجود اس کا غیر قانونی کاروبار ہو رہا ہے، جو اس کو معدومیت سے بچانے کی کوششوں کو ناکام بنا سکتاہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ چار تیندووں کی کھالوں کے بر آمد ہونے سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ جنگلی حیات کے کاروبار میں ملوث گروہ اس میں بھی فعال ہے اور وہ برفانی تیندوے کو بھی جہاں اس کو موقع ملتا ہے، نشانہ بنا لیتا ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر شفقت حسین غیر سرکاری ادارے بلتستان وائلڈ لائف کنزرویشن اینڈ ڈویلپمنٹ آرگنائزیشنکے سربراہہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم برفانی تیندوے اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے مقامی لوگوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے برفانی تیندوے کی آماجگاہوں کے قریب قریب اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوے کے غیر قانونی کاروبار میں کوئی منظم گروہ ملوث ہے تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتے مگر کچھ اور حالات اور واقعات برفانی تیندوے کے غیر قانونی کاروبار کا سبب ہو سکتے ہیں۔

’بڑے لوگوں کے بڑے شوق‘

پروفیسر ڈاکٹر شفقت حسین کہتے ہیں کہ عموماً برفانی تیندوے کی آماجگاہیں ایسے مقامات پر ہیں جہاں پر انسانی رسائی بہت ہی مشکل ہوتی ہے۔

’ان مقامات پر مقامی لوگوں کا پہنچنا بھی دشوار ہوتا ہے اور باہر سے کسی کا ان مقامات پر پہنچا تو انتہائی مشکل ہو سکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ برفانی تیندوے کا کاروبار بہت ہی خفیہ طریقے سے ہی ہو سکتا ہے۔

پروفسیر ڈاکٹر شفقت حسین کے مطابق پاکستان میں بڑے لوگوں کے بڑے شوق ہوتے ہیں۔

’کوئی بڑا آدمی کسی مقامی بااثر شخص سے اس بات کی خواہش کرے کہ اس کو اپنے ڈرائنگ روم وغیرہ میں سجانے کے لیے یعنی ٹرافی کے لیے برفانی تیندوے کی کھال چاہیے تو اس کے لیے شاید وہ کوئی منصوبہ بندی کر کے کچھ کر لے تو یہ ممکن ہے مگر اس طرح سے بھی کرنا کوئی آسان نہیں ہوتا کہ برفانی تیندوا، ٹائیگر یا شیر نہیں جو دریا یا پانی کے قریب پایا جائے گا اور اس کو پھندہ لگا کر قابو کر لیں گے۔ برفانی تیندوے کو اس کی آماجگاہ میںقابو کرنا بہت ہی مشکل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ سال کے کچھ عرصے کے لیے برفانی تیندوے اوپر کے علاقوں سے نیچے کے علاقوں میں آتے ہیں۔

’اس دوران وہ مقامی آبادیوں کے مال و مویشیوں پر حملہ کرتا ہے۔ جس وجہ سے مقامی آبادی اپنا غصہ اتارنے کے لیے اس کو مارتے ہیں۔‘

پروفسیر ڈاکٹر شفقت حسین کے مطابق ہمارے کیمرہ ٹریپ نے ایسی ویڈیوز بھی ریکارڈ کی ہیں، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مقامی لوگ برفانی تیندوے کو مار کر اس کا نام ونشان مٹانے اور قانون کے حرکت میں آنے کے ڈر سے اس کو دریا میں پھینک رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جب مقامی آبادی برفانی تیندوے کو اس تنازعے کے سبب مارتے ہیں تو اس وقت ممکنہ طور پر کچھ لوگ اس سے پیسے کمانے کے لیے اس کا کاہگ تلاش کرنا بھی شروع کر دیتے ہوں گے۔

پروفسیر ڈاکٹر شفقت حسین کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوے کے حوالے سے ایک بین الاقوامی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ اس کے غیر قانونی کاروبار میں پچاس فیصد مقامی لوگ ملوث ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر اس غیر قانونی کاروبار کے ایک پہلو اور مقامی لوگوں میں غم وغصہ کم کرنے کے لیے ہم نے مقامی متاثرین میں معاوضوں کو متعارف کروایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سال جنوری میں 75 مال مویشی کا ساڑھے پانچ لاکھ اور اس سے پچھلے سال 55 مال مویشیوں کا ساڑھے چار لاکھروپے معاوضہ دیا گیا۔

اجلال احمد کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان وائلڈ لائف نے مختلف کمیٹیاں قائم کر کے معاوضوں کا سلسلہ شروع کیا اور اس سال ایک بڑا وقف فنڈ قائم کردیا جائے گا۔

برفانی تیندوے کی تعداد

برفانی تیندووں کی تعداد کے حوالے سے کبھی ماہرین ایک نکتے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔عالمی سطح پر اس کی کل تعداد کے حوالے سے ہمیشہ ہی اختلاف رہا ہے اور اسی طرح پاکستان میں بھی اس کی تعداد کے حوالے سے ماہرین اور ادارے متفق نہیں۔

اس طرح ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ برفانی تیندوے کی 70 فیصد آماجگاہوں کے بارے میں اب بھی ہم نہیں جانتے ہیں۔

اجلال احمد کہتے ہیں کہ برفانی تیندوے کی گنتی کوئی آسان کام نہیں۔ ’یہ بہت تیزی سے حرکت کرتا ہے۔ اگر کیمرہ ٹریپ نصب کیے جائیں تو بھی یہ کوئی نہیں جانتا کہ دوسرے کیمرے میں نظر آنے والا برفانی تیندوا وہ ہی نہ ہو جو پہلے کیمرے میں نظر آیا تھا۔ یہ سوکلو میٹر سکوائر تک کا فاصلہ بہت جلدی اور آسانی سے طے کر لیتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان نے برفانی تیندوے کی اصل تعداد یا قابل اعتماد تعداد معلوم کرنے کی مہم کا آغاز کیا۔

’اس پر ایک سے دو سال لگ سکتے ہیں۔ اس میں مختلف ماہرین شامل ہیں جبکہ اس کے کوئی 12 نمونے اکھٹے کر کے ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کروایا جا رہا ہے۔ جس کے بعد ہی پورے یقین سے کہا جا سکے گا کہ گلگت بلتستان میں ان کی تعداد کیا ہے۔‘

اجلال احمد کہتے ہیں کہ چھ ماہ پہلے ہمارے ماہرین نے ایک محتاط اندازہ لگایا کہ گگلت بلتستان میں برفانی تیندوے کی تعداد 97 ہو سکتی ہے۔ ’ہمارا خیال ہے کہ برفانی تیندوے کی تعداد گلگت بلتستان میں بڑھی ہے۔ اس کا اندازہ ہم زمینی حقائق کی بنیاد پر لگاتے ہیں کہ برفانی تیندوے کا شکار مارخور اور دیگر جنگلی حیات بڑھے ہیں جب شکار کی تعداد بڑھتی ہے تو سائنسدان اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شکاری کی تعداد بھی بڑھی ہے۔‘

پروفسیر ڈاکٹر شفقت حسین کے اندازے کے مطابق یہ تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پولر رینج کے بعد دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر گلگت بلتستان اور چترال میں ہیں۔ یہ ہی گلیشیئر اور بلند و بالا پہاڑ برفانی تیندوےکی آماجگاہیں ہیں۔ہمارا خیال ہے کہ دنیا میں برفانی تیندوے کی سب سے زیادہ آماجگاہیں گلگت بلتستان اور چترال میں کوئی 80 ہزار سکوائر کلومیٹر ہیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More