Getty Images
انڈیا میں جی 20 سربراہی اجلاس کے موقع پر صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی جانب سے عشائیے کے لیے بھیجے گئے دعوت نامے پر تحریر الفاظ کے باعث ایک نیا سیاسی تنازع چھڑ گیا ہے۔
سرکاری دعوت نامے میں روایتی طور پر ’پریزیڈنٹ آف انڈیا‘ کی جگہ ’پرزیڈنٹ آف بھارت‘ لکھا گیا جس کے بعد انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی کی حکومت ملک کا نام کے طور پر لفظ 'انڈیا' کا استعمال بند کرنے جا رہی ہے اور اب وہ اس ملک کو صرف ’بھارت‘ کہنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں کے ان الزامات پر مرکزی حکومت یا صدر کے دفتر کی طرف سے کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
در اصل ’انڈیا‘ اور ’بھارت‘ کی بحث ان ہی دنوں شروع ہو گئی تھی جب بی جی پی اتحاد کے خلاف انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے دو درجن سے زیادہ سیاسی جماعتوں کا ایک بڑا اتحاد بنایا تھا اور اسے 'انڈیا' کا نام دیا تھا۔
9 ستمبر کو صدر کی طرف سے منعقد کیے جانے والا عشائیہ نئی تعمیر ہونے والی عمارت 'بھارت منڈپم' میں دیا جا رہا ہے۔
انڈیا بمقابلہ بھارت مباحثہ
سوشل میڈیا پر اس دعوت نامے کے وائرل ہونے کے بعد ایک طرف اگر اپوزیشن پارٹیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ بی جے پی 'انڈیا' اتحاد سے خوفزدہ ہو گئی تو وہیں دوسری طرف حکمراں جماعت کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’بھارت‘ نام کا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ بھی آئین کا ایک حصہ ہے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے خبر رساں ادارے ’اے این آئی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا: ’انڈیا دیٹ از بھارت‘ ہے۔۔۔ یہ ہمارے آئین میں ہے۔ میں سب سے کہنا چاہوں گا کہ اسے پڑھیں۔ جب آپ بھارت کہتے ہیں تو اس کے ساتھ ایک مطلب ایک مفہوم ابھرتا ہے اور میرے خیال سے وہ ہمارے آئین میں بھی جھلکتا ہے۔‘
یاد رہے کہ انڈیا کے آئین کی کتاب کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے ’انڈیا دیٹ از بھارت‘ ہوتی ہے۔
https://twitter.com/ANI/status/1699262660381200657
اپوزیشن کانگریس کے سینیئر رہنما جے رام رمیش نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کہا: ’مودی تاریخ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رکھ سکتے ہیں اور انڈیا کو تقسیم کرنا جاری رکھ سکتے ہیں۔۔۔ لیکن ہم نہیں رکیں گے۔ اخر کار ’انڈیا‘ اتحاد کی پارٹیوں کا مقصد کیا ہے؟ یہ بھارت ہے، ہم آہنگی، دوستی، مفاہمت اور اعتماد پیدا کریں۔ جڑے گا بھارت، جیتے گا انڈیا۔‘
'بھارت بمقابلہ انڈیا' تنازعے پر بی جے پی لیڈروں نے کانگریس کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
مرکزی وزیر راجیو چندر شیکھر نے کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’انھیں ہر چیز سے مسئلہ ہے، میں انھیں کچھ نہیں کہنا چاہتا۔ میں ایک بھارت کا رہنے والا ہوں، میرے ملک کا نام بھارت ہے اور ہمیشہ بھارت رہے گا۔ اگر کانگریس کو اس سے کوئی مسئلہ ہے تو انھیں انھیں علاج کرانا چاہیے۔‘
دوسری جانب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سوشیل مودی نے کہا کہ ’آئین میں بھارت اور انڈیا دونوں ہیں، اگر 75 سالوں تک 'پریزیڈنٹ آف انڈیا' لکھا جاتا رہا ہے تو پھر 'پریزیڈنٹ آف بھارت' لکھنے میں کیا اعتراض ہے؟ ہم بھارت ماتا کی جئے کہتے ہیں نہ کہ انڈیا ماتا کی جئے کہتے ہیں۔‘
بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ہرناتھ سنگھ یادو نے کہا ہے کہ ’میں یہ مہم نہیں چلا رہا ہوں۔ پورا ملک یہ چاہتا ہے۔ یہ مطالبہ ملک کے ہر کونے سے آ رہا ہے۔ ہمارے آر ایس ایس کے سرسنگھ چالک نے بھی بھارت کا لفظ استعمال کرنے کی اپیل کی ہے۔‘
ملک کے نام کے طور پر انڈیا استعمال کیا جائے یا بھارت سوشل میڈیا اس معاملے پر دو حصوں میں بٹا نظر آتا ہے۔ دہلی کے وزیر اعلی اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ ملک 140 کروڑ لوگوں کا ہے، یہ ملک کسی ایک پارٹی کا نہیں ہے، فرض کریں کہ کل 'انڈیا' اتحاد اپنا نام بدل کر بھارت رکھ لیا تو کیا وہ (بی جے پی) بھارت کا نام بھی بدل دیں گے۔ پھر کیا بھارت کا نام بی جے پی رکھیں گے؟‘
انھوں نے مزید کہا: ’یہ کیا مذاق ہے؟ ہمارا ملک ہزاروں سال پرانا ہے، اس کا نام صرف اس لیے بدلا جا رہا ہے کہ 'انڈیا' نام کا اپوزیشن الائنس بنا۔ بی جے پی کو لگتا ہے کہ ایسا کرنے سے 'انڈیا' الائنس کے کچھ ووٹ کم ہو جائيں گے۔ یہ تو ملک کے ساتھ غداری ہے۔‘
تیسرا پہلو پاکستانBBC
سوشل میڈیا پر جاری اس بحث میں ایک تیسرا پہلو اس وقت آیا جب انڈین شہریوں نے یہ غیرمصدقہ رپورٹ شیئر کرنا شروع کی جس میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارت ’انڈیا‘ لفظ کے استعمال کو اپنے لیے ختم کر دیتا ہے تو پاکستان اس نام کو اپنا لے گا کیونکہ پاکستان کے قوم پرستوں کا ایک عرصے سے یہ دعوی رہا ہے کہ دریا سندھ یعنی انڈس ریور ان کے یہاں بہتا ہے تو اس پر ان کا حق ہے۔
اور اس پہلو پر بہت سی میمز بھی بنائی جا رہی ہیں۔
پن سٹار نامی صارف نے لکھا کہ: ’اگر انڈیا کا نام بھارت ہو جاتا ہے اور پاکستان کا نام انڈیا تو پھر آپ 'انڈیا زندہ باد' کہنے کے لیے جیل جا سکتے ہیں۔‘
https://twitter.com/Pun_Starr/status/1699056618938433819
یہ مباحثہ صرف سوشل میڈیا اور میڈیا تک محدود ہے اور انڈیا یا پاکستان کی جانب سے اس پر کوئی باضابطہ ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
’انڈیا‘، ’بھارت‘ یا ’ہندوستان‘؟ مودی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے نئے نام پر پرانی بحث چھڑ گئی
’انڈیا یا بھارت‘ سپریم کورٹ نے حکومت سے جواب مانگ لیا
مودی حکومت انڈیا کے آخری گاؤں سے چین کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟
اگر نام بدلا گیا تو کیا ہو گا؟Getty Images
اسی معاملے کے دوران چند سوشل میڈیا صارفین اعداد و شمار کے الجھن میں مبتلا نظر آئے۔
ترنمول کانگریس کی رکن پارلیمان مہوا موئترا فینز نامی ٹوئٹر ہینڈل سے انڈیا کو بھارت کرنے کے متعلق ایک دوسرا ہی نظریہ پیش کیا ہے۔
اس ہینڈل سے ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا کہ الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج رکھنے میں 300 کروڑ روپے کا خرچ آیا۔ اسی طرح اورنگ آباد کا نام بدل کر چھترپتی سامبھاجی نگر رکھنے میں 500 کروڑ روپے کا خرچ آیا۔ اس حساب سے اگر مودی حکومت انڈیا کا نام بدل کر بھارت رکھنا چاہتی ہے جیسا کہ اس کا منصوبہ ہے تو اس کے لیے 15000 کروڑ روپے سے زیادہ کا خرچ آئے گا۔
ان کے مطابق تمام قانون دستاویزات کا نام بدلنا پڑ سکتا ہے (جس میں زمین کے کاغذات، سٹیمپ پیپرز جہاں گورنمنٹ آف انڈیا لکھا ہوا ہے۔)
تمام شناختی کارڈز بھی بدلنے پڑ سکتے ہیں (پاسپورٹ، ووٹر کارڈ، پین، آدھار، ڈرائونگ لائسنس، راشن کارڈز وغیرہ۔)
کرنسی جس پر ریزرو بینک آف انڈیا لکھا ہے۔
https://twitter.com/MahuaMoitraFans/status/1699098856296964164
بھارت نام کی کہانی
قدیم زمانے سے ہی ہندوستان کے مختلف نام رہے ہیں جیسے جمبودیپ، بھرت کھنڈ، ہِم ورش، اجنابھ ورش، بھارت ورش، آریہ ورت، ہند، ہندوستان اور انڈیا۔
بی بی سی ہندی کی فرمائش پر ماہر لسانیات اجیت وڈنیٹکر نے اس بارے میں تفصیل سے لکھا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
اگرچہ ان ناموں میں بھارت سب سے زیادہ مقبول اور مروجہ رہا ہے لیکن اس نام کے حوالے سے زیادہ تر مفروضے اور اختلافات بھی ہیں۔ بھارت نام کے متعلق جہاں اس کی متنوع ثقافت ابھر کر سامنے آتی ہے وہیں مختلف ادوار میں مختلف نام بھی پائے جاتے ہیں۔
ان ناموں سے کبھی جغرافیہ ابھر کر سامنے آتا ہے تو کبھی ذات پات اور کبھی ثقافت۔
ہند، ہندوستان، انڈیا جیسے ناموں سے جغرافیہ ابھر رہا ہے۔ ان ناموں کے پس منظر میں دریائے سندھ نمایاں طور پر نظر آتا ہے، لیکن سندھ صرف کسی خاص علاقے کا دریا محض نہیں ہے۔
سندھو کا مطلب دریا کے ساتھ ساتھ سمندر بھی ہے۔ اس طرح ملک کے شمال مغربی علاقے کو کبھی سپت سندھو یا پنجاب کہا جاتا تھا، لہذا یہ ایک بہت بڑے زرخیز علاقے کی نشاندہی کرنے کا معاملہ ہے جس میں سات یا پانچ مرکزی ندیاں بہتی ہیں۔
اسی طرح بھارت کے نام کے پس پشت اگنی ہوتر ثقافت (آگ کو نذرانہ دینا) کی شناخت ہے جو سپت سندھو خطے میں پروان چڑھی تھی۔
Getty Imagesبھارت کے کئی دعویدار ’بھرت‘
زمانہ قدیم یا افسانوی دور میں بھرت نام کے بہت سے لوگ رہے ہیں۔ دشینت سُت کے علاوہ دشرتھ کے بیٹے یا (بھگوان) رام کے بھائی بھرت بھی مشہور ہیں جنھوں نے رام کی کھڑاؤن کے تحت حکومت کی۔
اسی طرح ڈرامہ ’ناٹیہ شاستر‘ کے مصنف بھرت منی بھی ہیں۔ ایک راجرشی بھرت کا بھی ذکر ہے جن کے نام پر جڑ بھرت محاورہ مشہور ہوا۔
مگدھ کے بادشاہ اندر دیومن کے دربار میں ایک بھرت رشی تھے۔ ایک یوگی بھرت بھی رہے ہیں۔ پدم پوران (مذہبی کتاب) میں ایک برے برہمن بھرت کا ذکر ہے۔
ایتریا برہمن کتاب میں بھی دشینت کے بیٹے بھرت ہی بھارت نا کے پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس کے متن کے مطابق بھرت ایک چکرورتی راجہ تھے، یعنی چاروں سمتوں کی زمینیں حاصل کرنے اور ایک بہت بڑی سلطنت بنانے کے بعد انھوں نے اشو میدھ یگیہ یعنی ایک بڑی مذہبی تقریب کی جس کی وجہ سے ان کی سلطنت کا نام بھارت ورش پڑا۔
اسی طرح متسیہ پران (کتاب) میں مذکور ہے کہ منو (ہندو عقیدے کے مطابق پہلا آدمی) کو لوگوں کو جنم دینے اور ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بھرت نام دیا گيا۔ جس علاقے پر اس نے حکومت کی وہ بھارت ورش کہلاتا تھا۔
نام رکھنے کے کہانیاں جین روایت میں بھی ملتی ہیں۔ اس ملک کا نام بھگوان رشبھ دیو کے بڑے بیٹے مہایوگی بھرت کے نام پر بھارت ورش رکھا گیا۔ سنسکرت میں ورش کا مطلب علاقہ، تقسیم، حصہ وغیرہ بھی ہوتا ہے۔
عام طور پر مہابھارت کے پہلے آئی کہانی میں بھارت نام کے پیچھے کی ایک کہانی ہے۔ مہارشی وشوامتر اور اپسرا میناکا کی بیٹی شکنتلا اور پوروونشی بادشاہ دشینت کے درمیان گندرو شادی یعنی محبت کی شادی ہوتی ہے (اسے مذہبی اور سماجی قبولیت نہیں ہوتی ہے)۔ ان کے ہاں جو بیٹا ہوتا ہے اس کا نام بھرت رکھا جاتا ہے۔
رشی کنو نے انھیں آشیرباد (دعا) دیا کہ بھرت بعد میں چکرورتی راجہ بنے گا اور زمین کا یہ خطہ اس کے نام سے بھارت مشہور ہوگا۔
بھارت نام کی اصل یہ محبت کی کہانی ہے جو زیادہ تر لوگوں کے ذہنوں میں مقبول ہے۔
Getty Imagesدشینت اور شکنتلا کے بیٹے بھرت کے تعلق سے بھارت نام کو زیادہ مقبولیت ہےمہا بھارت سے ڈھائی ہزار سال پہلے ’بھارت‘
مؤرخین کے مطابق تقریباً ڈھائی ہزار سال قبل مسیح کورووں اور پانڈووں کے درمیان ایک عظیم جنگ ہوئی تھی جسے مہابھارت کہا گيا۔
ایک خاندانی جھگڑا عظیم جنگ میں بدل جائے یہ تو ٹھیک ہے لیکن دو خاندانوں کے درمیان کے تنازع اور فیصلہ کن جنگ میں اس ملک ’بھارت‘ کا نام کیوں آیا؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جنگ میں بھارت کی جغرافیائی حدود میں آنے والی تقریباً تمام سلطنتوں نے حصہ لیا، اس لیے اسے مہابھارت کہا جاتا ہے۔
دشارگیہ یعن دس راجاؤن کی جنگ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ڈھائی ہزار سال پہلے ہوئی تھی، یعنی آج سے ساڑھے سات ہزار سال پہلے۔
اس میں تریتسو ذات کے لوگوں نے دس ریاستوں کی کنفیڈریسی پر بے مثال فتح حاصل کی تھی۔ تریتسو لوگوں کو بھرتوں کی کنفیڈریشن کہا جاتا تھا۔ اس جنگ سے پہلے یہ علاقہ کئی ناموں سے مشہور تھا۔
اس فتح کے بعد اس وقت کے آریہ ورت میں بھرتوں کی بالادستی بڑھ گئی اور اس وقت کے اضلاع کی کنفیڈریشن کا نام بھارت یعنی بھرتوں کی ریاست ہوا۔
Getty Imagesہند ایرانی ثقافت
واضح رہے کہ شکنتلا کے بیٹے بھرت کا ذکر مہابھارت میں ایک دلچسپ حوالہ ہے۔
اب بات کرتے ہیں ہند، ہندوستان کی۔ ایرانی ہندوستانی پرانے زمانے سے ایک دوسرے کے رشتہ دار تھے۔ ایران پہلے فارس تھا۔ اس سے پہلے آرینم، آریہ یا آرین تھا اور یہ نام آوستا میں مذکور ہیں۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ہندوکش کے مغرب میں رہنے والے آریوں کی کنفیڈریشن کو ایران کہا جاتا تھا اور جو مشرق میں تھے ان کی کنفیڈریشن کو آریہ ورت کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں گروپ بہت اہم اور متاثر کن تھے۔
درحقیقت بھارت کا نام ایرانیوں نے خود بعید مغرب تک پہنچایا۔ کرد سرحد پر بہشتون کے نوشتہ پر کندہ لفظ ہندوش اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
فارسیوں نے عربی سیکھی لیکن اپنے انداز میں۔
کسی زمانے میں آتش پرست زرتشتوں کا ایسا جلوہ تھا کہ وہاں اسلام کا ظہور بھی نہ ہوسکا تھا۔ یہ چیزیں اسلام سے صدیوں پہلے اور مسیح سے چار صدیاں پہلے کی ہیں۔
سنسکرت-اویستا میں شکم اور نال کا رشتہ ہے۔ ہندوکش بامیان کے اس طرف اگر یگیہ ہوتا اور دوسری طرف یشن اور آریہ من، اتھرون، ہوم، سوم، ہون جیسے الفاظ یہاں بھی تھے اور وہاں بھی۔
اسلام کے بعد بھی دونوں خطوں کے درمیان کا یہ رشتہ مضبوط نظر آتا ہے۔
Getty Imagesہند، ہندش، ہندوان، انڈس اور انڈیا
ہندش لفظ اکادی تہذیب میں مسیح سے دو ہزار سال پہلے تھا۔ اکاد، سمیر، مصر کے ساتھ بھارت کے تعلقات تھے اور یہ ہڑپہ دور کی بات ہے۔
سندھ صرف ایک دریا نہیں تھا، یہ سمندر، دریا اور پانی کا مترادف تھا۔ سندھ کا مشہور 'سپت سندھ'، 'سپت سندھو' سات دریاؤں والا خطہ قدیم فارسی میں 'ہفت ہندو' کہلاتا تھا۔
ظاہر ہے کہ بہت سے نام جیسے ہند، ہندو، ہندوان، ہندوش قدیم زمانے سے مستعمل تھے۔
یونانی لفظ انڈس در اصل انڈیا کے مترادف کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ یہ مسیحیت اور اسلام سے صدیوں پہلے کی بات ہے۔
یونانی میں ہندوستان کے لیے انڈیا یا سندھو کے لیے انڈس کے الفاظ کا استعمال دراصل اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہند ایک بہت قدیم لفظ ہے اور ہندوستان کی پہچان ہے۔ سنسکرت میں 'ستھان' فارسی میں 'ستان' بن جاتا ہے۔
اس طرح ہند کے ساتھ مل کر ہندوستان بنا۔ مطلب جہاں ہندی لوگ رہتے ہیں۔ ہندو آباد ہیں۔
ہند-یورپی زبانوں میں 'ہ' کی آواز 'الف' کی آواز میں بدل جاتی ہے اور 'س' کی الف میں نہیں بدلتی۔
میسوپوٹیمیا کی ثقافتوں سے ہندوؤں کا ہی رابطہ تھا۔ ہندو دراصل یونانی انڈس، عرب اکاد، فارسی تعلقات کا نتیجہ ہے۔
'انڈیکا' کا سیاح میگستھنیز نے استعمال کیا۔ وہ پاٹلی پتر (موجوہ پٹنہ) میں بھی کافی عرصہ ٹھہرے لیکن وہاں پہنچنے سے پہلے وہ بختر، بختری (بیکٹریا)، گندھار، تاکشیا (ٹیکسلا) علاقوں سے گزرا۔
ہند، ہندوان، ہندو جیسے الفاظ یہاں رائج تھے۔
انھوں نے یونانی صوتی نظام کے مطابق انڈس اور انڈیا کا استعمال اختیار کیا۔ یہ حضرت مسیح سے تین صدیاں پہلے اور پغیمبر اسلام محمد سے 10 صدیاں پہلے تھا۔
جہاں تک جمبودیپ کا تعلق ہے، یہ سب سے پرانا نام ہے۔ آج کے بھارت، آریہ ورت، بھارت ورش سے کہیں بڑا۔
لیکن یہ تمام تفصیلات بہت تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں اور ابھی گہری تحقیق جاری ہے۔