BBCمدٹی یا مٹی کیلے
انڈیا کی جنوبی ریاست میں چھوٹی انگلی کے سائز کے کیلے اپنے منفرد ذائقے اور خوشبو کے لیے بہت مقبول ہیں۔ ان کیلوں کو مقامی تمل زبان میں ’مدٹی‘ یا ’مٹی‘ کیلے کہا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ اس کی خوشبو سے سارا شہر مہکتا رہتا ہے۔
جنوبی ریاست کے کنیا کماری ضلع کے اس منفرد پھل کو حال ہی میں جغرافیائی انڈیکیشن ٹیگ (جی آئی ٹیگ) سے نوازا گیا ہے۔
آخر کیلے کی اس خاص قسم مدٹی کو جی آئی ٹیگ کیوں ملا اور کنیا کماری ضلع میں اگایا جانے والا یہ کیلا اتنا لذیذ کیوں ہے؟
کنیا کماری: مدٹی کیلے کا گھر
مدٹی کیلے کنیا کماری ضلع کے مغربی گھاٹ میں اگائے جاتے ہیں۔ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے 70 سالہ کاشتکار سینا پگا سیکرن پلئی کا کہنا ہے کہ مدٹی کیلے کی کاشت پہلے پہل قبائلی لوگوں نے شروع کی تھی لیکن وقت کے ساتھ میدانی علاقوں میں بھی اس کی کاشت پھیل چکی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ 'میں نے اپنے بچپن میں پہاڑی علاقوں سے مدٹی نسل کے کیلے فروخت کے لیے لاتے ہوئے دیکھے ہیں، جوں جوں دکانوں میں لٹکے ہوئے مدٹی کیلے کے گچھے پکتے جاتے پورا قصبہ اس کی خوشبو سے مہکنے لگتا تھا۔‘
پہاڑی علاقوں میں کیمیائی کھادوں کے استعمال کے بغیر اُگائے جانے والے مدٹی کیلے کا ذائقہ اور اس کی خوشبو منفرد ہے۔ مدٹی کیلے کی ایک ڈال میں کیلوں کے چار یا پانچ گچھے ہوتے ہیں اور ہر گچھے میں درجن کے لگ بھگ کیلے ہوتے ہیں۔
کنیا کماری ضلع میں یہ رواج ہے کہ چھ ماہ کے بچے کو ماں کے دودھ کے ساتھ جو پہلی ٹھوس خوراک دی جاتی ہے وہ یہی مدٹی کیلے ہیں۔
سینا پگا سیکرن پلئی کہتے ہیں کہ 'یہ کیلا زود ہضم ہے، اس سے نزلہ زکام جیسے مسائل نہیں ہوتے اور یہ پیٹ سے متعلق کسی قسم کی پریشانی کا باعث نہیں بنتا، اس لیے اس علاقے میں مدٹی کیلے بچوں کو ماں کے دودھ کے نعم البدل کے طور پر دیے جاتے ہیں۔‘
پہلے کنیا کماری ضلع میں مغربی گھاٹ کے قریب کالکولم، ولاوانکوڈ اور ڈوولائی تعلقہ میں بنیادی طور پر مدٹی کیلے کی کاشت کی جاتی تھی۔ لیکن اس وقت ضلع کے تمام حصوں میں اس منفرد کیلے کی کاشت بڑے پیمانے پر جاری ہے۔
سنہ 1965 میں کیرالہ کے محقق جیکب کورین نے تراونکور کے خطے میں پیدا ہونے والی کیلے کی 165 اقسام کی درجہ بندی کی تھی اور اس حوالے سے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’مدراس بناناز: اے مونوگراف‘۔
اس کتاب میں بتایا گیا کہ نایاب قسم کے مدٹی کیلے صرف ناگرکوئل کے قریب ’جنوبی تراونکور‘ کی پہاڑیوں میں اُگتے ہیں۔ (کیرالہ کے ساتھ کنیا کماری ضلع کے حصوں کو لسانی خطوط پر ریاستوں کی تقسیم سے پہلے جنوبی تراونکور کہا جاتا تھا۔)
ناگرکوئل کے کرسچیئن کالج میں شبعہ نباتات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر لوکیتاس کا کہنا ہے کہ ’اس کے ساتھ ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مدٹی کیلے کی قسم کی اصل کنیا کماری ضلع ہے۔‘
پروفیسر لوکیتاس نے کنیا کماری ضلع میں دستیاب کیلے کی تیس سے زیادہ اقسام پر تحقیق کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔
انھوں نے مدٹی کیلے کے بارے میں مزید کہا کہ ’مغربی گھاٹ کے پہاڑی علاقوں میں زیادہ بارشوں اور زرخیز مٹی کی وجہ سے کنیا کماری ضلع میں اُگائے جانے والے مدٹی پھل کا ذائقہ اور خوشبو منفرد ہے، لیکن اگر اسی مدٹی کیلے کو دوسرے علاقوں میں اگایا جائے تو ذائقہ اور خوشبو نہیں ویسی نہیں ہوتی۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مدٹی کیلے کی بھی چھ اقسام ہوتی ہیں۔ ان کے مقامی نام اس طرح ہیں: نال مدٹی (بڑے سائز کا)، کل مدٹی، نے مدٹی (مکھن یا گھی جیسے)،تین مدٹی (شہد جیسے)، سندری مٹی (خوبصورت) اور سمیدٹی یعنی سرخ کیلے۔
BBCکیا ذیابیطس یعنی شوگر کے مریض بھی یہ کیلے کھا سکتے ہیں؟
مدٹی کیلا ایسوربک ایسڈ سے مالامال ہوتا ہے۔ یہ بچوں کی نشوونما میں مدد کرتا ہے اور جسم کو فرحت بخشنے والے اجزا سے بھرپور ہوتا ہے۔
نندرن کیلے میں 180 ملی گرام شکر ہوتی ہے جو کہ دوسرے تمام کیلوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ لیکن سیمدٹی کیلے کے پھل میں صرف 18 ملی گرام شکر ہوتی ہے۔ اس لیے شوگر کے مریض بھی سمیدٹی کیلے کھا سکتے ہیں جس میں شوگر کی مقدار بہت کم ہے۔
پروفیسر لوکیٹاس کہتے ہیں کہ ’اپنے چھوٹے سائز کی وجہ سے مدٹی کیلے کا وزن ہلکا ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کیلے کی فروخت سے کسانوں کی آمدنی بھی کم ہو تی ہے۔ لہٰذا کسان اس کیلے کی کاشت میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔‘
یاد رہے کہ انڈیا میں کیلے درجن کے بجائے کلو کے حساب سے ملتے ہیں۔
کم کاشت
ضلع باغبانی کی ڈپٹی ڈائریکٹر شیلا جان کہتی ہیں کہ کیلے کی کاشت کنیا کماری ضلع میں تقریباً 5000 ہیکٹر کے علاقے میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، دھان کیلے کی کاشت کا رقبہ بہت کم ہے۔
انھوں نے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کنیا کماری ضلع میں، کسان بنیادی طور پر نیندرن اور شیو کیلوں کی اقسام کاشت کر رہے ہیں۔ مدٹی کیلے کو علیحدہ فصل کے طور پر نہیں اگایا جاتا ہے، یعنی مدٹی کیلے کو پورے باغ میں نہیں اگایا جاتا ہے۔‘
ان کے مطابق جہاں کیلے کے ایک باغ میں ایک ہزار نیندرن کیلے لگائے جاتے ہیں تو وہیں ان میں درمیان میں 100 یا 150 کلم یا مدٹی کیلے کے پودے اور رساکتھلی کیلے کے پودے لگائے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 'کاشتکار دھان کیلے زیادہ نہیں اگاتے کیونکہ قیمتوں میں اچانک کمی کی صورت میں اس سے بھاری نقصان ہو سکتا ہے اور یہ پکنے کے بعد جلدی خراب بھی ہو جاتے ہیں۔‘
BBCکسان کرشن کماراپنے کیلے کی فصل کے ساتھکیا کیمیائی کھاد بو اور ذائقے کی کمی کا باعث ہے؟
شیلا جان کا کہنا ہے کہ موجودہ مدٹی کیلے میں خوشبو اور ذائقہ کی کمی کی بڑی وجہ کیمیائی کھادوں کا زیادہ استعمال ہے۔
کنیا کماری ضلع میں چھوٹے کسانوں کا غلبہ ہے جو لیز پر زمین کاشت کرتے ہیں۔
'وہ زمین پر ضرورت سے زیادہ کیمیاوی کھاد کا استعمال کرتے ہیں تاکہ مختصر مدت میں زیادہ منافع حاصل کیا جا سکے جس کی وجہ سے زمین کی زرخیزی خراب ہو گئی ہے اور مدٹی کیلے کے پھل میں قدرتی خوشبو اور ذائقہ کم ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ 'لیکن ضلع میں چند نامیاتی کسانوں کی طرف سے اگائے جانے والے کیلے کی خوشبو اور ذائقہ اب بھی پہلے جیسا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا: جہاں کیلا جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج ہے
کیا ساتواں کیلا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے؟
دنیا میں کیلے کی 20 ہزار اقسام ہیں لیکن ہم صرف ایک ہی کیوں کھاتے ہیں؟
اس فصل میں ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے
ٹککلا کے الورکوئل علاقے میں کیلے اگانے والے کسان کرشن کمار کا کہنا ہے کہ نیندرن کیلے کے مقابلے مڈٹی کیلے میں بیماری کے واقعات قدرے زیادہ ہیں۔
مدٹی کیلے کی کاشت کے حوالے سے انھوں نے مزید کہا کہ مدٹی کیلے کے گھور کا اوسط وزن 12 کلو اور زیادہ سے زیادہ وزن 16 سے 17 کلو ہے۔ ایک کیلے کے ٹار یا گھور میں 8 سے 16 گچھے ہوتے ہیں۔ مدٹی کیلے کی قلم لگانے اور فصل تیار ہونے میں 11 سے 12 مہینے لگ سکتے ہیں۔
جہاں تک مدٹی کیلے کا تعلق ہے وہ سال بھر مارکیٹ میں ہوتا ہے نہ کہ موسمی طور پر۔ تاجر نیندرن اور مارشمیلو کہتے ہیں کہ ’میں کیلے نامیاتی طور پر اگاتا ہوں، کچھ لوگ آتے ہیں اور انھیں خریدتے ہیں۔ کچھ لوگ یہاں سے مدٹی اور کیلے کے گھور خرید کر چینئی اور بنگلورو کے علاقوں میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھیجتے ہیں۔‘
کنیا کماری ضلع میں، ترووتتار، تھاکلائی اور راجک منگلم کے علاقوں میں کیلے کی سب سے زیادہ کاشت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان علاقوں میں اگائے جانے والے کیلے کا ذائقہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔
’میرے باغ میں تقریباً 240 عام مدٹی اور کچھ سیمدٹی کیلے کی قلمیں ہیں۔ کسان بڑی تعداد میں چھلکے والے کیلے کی اقسام کاشت نہیں کرتے ہیں جن میں سیمدٹی بھی شامل ہے۔ گھریلو استعمال کے لیے صرف ایک یا دو جگہ ہی اسے لگاتے ہیں۔‘
کرشن کمار نے کہا: ’اب جبکہ کنیا کماری کے مدٹی کیلے کو جیو کوڈ دیا گیا ہے اس سے عوام میں اس کیلے کے بارے میں بیداری بڑھے گی۔ اگر اس کے ذریعے فروخت میں اضافہ ہوتا ہے، تو کسان بھی زیادہ کاشت کرنا شروع کر دیں گے۔‘