’14 دن ہو گئے ہیں میری اپنے بیٹے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ انڈیا والوں کی بھی مائیں ہوں گی۔۔۔ میرے دکھ، درد کو سمجھیں۔‘
یہ کہنا ہے انڈیا کی ریاست حیدر آباد میں مبینہ طور پر غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کے الزام میں گرفتار ہونے والے محمد فیض کی والدہ حد بیگم کا جو اس وقت غم سے نڈھال ہیں۔
انڈیا کی جنوبی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سے ہماری تیلگو سروس کے نمائندے امریندر یارلاگڈا نے بتایا کہ ریاستی پولیس نے پاکستانی شہری محمد فیض کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
حیدرآباد جنوبی زون کے ڈی سی پی سائی چیتنیہ کے بیان کے مطابق 24 سالہ پاکستانی شہری فیض محمد پاسپورٹ اور ویزا جیسی کسی مستند دستاویز کے بغیر نیپال کی سرحد سے انڈیا میں داخل ہوئے تھے۔ انھیں حیدرآباد پولیس نے 31 اگست کو گرفتار کیا تھا کیونکہ وہ کشن باغ علاقے میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے۔
محمد فیض کی والدہ حد بیگم نے شانگلہ سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’فیض کو انڈیا نہیں جانا چاہیے تھا لیکن اب اگر چلا گیا ہے تو اس کو معاف کر دو۔ میرے بیٹے اور میری بہو اور پوتے پاکستان بھیج دو۔‘
حد بیگم کہتی ہیں کہ ’مجھے دو روز پہلے میرےبیٹیوں نے بتایا کہ محمد فیض کسی دوسرے ملک نہیں بلکہ انڈیا چلا گیا ہے اور یہ کہ اس کا وہاں پر بیٹا اور بیوی بھی ہے۔‘
فیض کی والدہ کا مزید کہنا تھا کہ ’فیض کو مجھ سے پوچھے بغیر شادی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ مجھ سے پوچھتا تو میں اس کو اجازت دیتی اور کہتی کہ بہو کو عرب ملک سے پاکستان لاؤ۔ مگر اب شادی کی ہے تو میری عزت ہے۔‘
’مجھے بہت خوشی ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو دھوکا نہیں دیا ہے۔ میرا بیٹا بہت بہادر ہے۔ انڈیا والوں کو بھی اس کی بہادری اور وفاداری کی قدر کرنی چاہیے۔‘
فیض انڈیا کیسے پہنچے؟
انڈین پولیس کی جانب سے جاری کی گئی معلومات کے مطابق محمد فیض اپنی 29 سالہ اہلیہ نیہا فاطمہ اور تین سالہ بیٹےسے ملنے حیدرآباد آئے تھے جبکہ ان کے سسرال والوں نے انھیں حیدرآباد میں رہنے کے لیے جعلی شناختی دستاویزات دلانے کا وعدہ کیا تھا۔
ڈی سی پی کے بیان کے مطابق ’فیض کراچی میں کپڑے کی ڈیزائننگ کمپنی میں کام کر چکے ہیں۔ سنہ 2018 میں اسی گارمنٹس کمپنی میں کام کرنے کے لیے متحدہ عرب امارات میں ان کی تقرری ہوئی تھی۔‘
’ایک سال بعد یعنی 2019 میں ان کی ملاقات انڈین ریاست حیدرآباد کی فاطمہ سے ہوئی جنھوں نے انھیں وہاں ملازمت دلانے میں مدد کی۔ کچھ عرصہ بعد انھوں نے شادی کر لی اور ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔‘
پولیس کے مطابق ’فاطمہ اگست 2022 میں یو اے ای سے حیدرآباد چلی آئيں اور اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد میں رہنے لگیں۔‘
’گذشتہ سال نومبر میں فیض سیاحتی ویزا پر نیپال گئے اور اس کے بعد غیرقانونی طریقے سے حیدرآباد آ گئے۔ اس وقت سے وہ حیدرآباد میں مقیم تھے۔ مارچ میں وہ محمد غوث کے جعلی شناخت کے ساتھ اندراج کروانے کے لیے آدھار انرولمنٹ سینٹر بھی گئے۔‘
تاہم بعدازاں پولیس نے فیض کو گرفتار کیا اور ان سے کچھ دستاویزات قبضے میں لیے ہیں۔
’محمد فیض کینیڈا جانے کا کہہ کر گھر سے گیا تھا‘
محمد فیض کے بڑے بھائی اقبال حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’محمد فیض 2018میں متحدہ عرب امارات گیا تھا جہاں پر اس کی رہائش غالباً شارجہ میں تھی جبکہ کام کسی اور جگہ کرتا تھا۔‘
’وہ 2018 سے لے کر 2022 تک ادھر ہی رہا تھا اور وہ کسی گارمنٹس فیکٹری میں کام کرتا تھا، اس نے ہمیں وہاں پر شادی کرنے کا کبھی نہیں بتایا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ 2022 میں واپس آیا اور شانگلہ میں دو ماہ رہا تھا۔ اس دوران وہ ہمیں اکثر کہتا تھا کہ اس کا ایک دوست بنا ہے جو اس کو ملائیشیا یا کینیڈا لے کر جانے کا کہہ رہا ہے۔ 2022 کے آخر میں کوئی دس، گیارہ مہینے پہلے ہمیں وہ یہ کہہ کر گیا کہ وہ کینیڈا جا رہا ہے۔‘
اقبال حسین کا کہنا تھا کہ ’وہ جب چلا گیا تو وہاں سے بھی یہ کہتا تھا کہ میں کینیڈا پہنچ گیا ہوں۔ ہمیں تو اس کی گرفتاری کا سوشل میڈیا کے ذریعے سے پتا چلا ہے۔ ‘
’ہمارے علاقےکا ایک بندہ میرے پاس آیا ہے اور اس نے ہمیں انڈین میڈیا کی کچھ تصاویر اور ویڈیو دکھائی ہیں جس سے ہمیں پتا چلا کہ اس کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
اقبال حسین کا کہنا تھا کہ ’ہم کوئی تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ میں ایک اڈے پر کام کرتا ہوں۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے کہ میں اپنے بھائی کےلیے کیا کروں اور کیا نہ کروں۔ ‘
’ہم لوگ اب اس کے سکول سے اس کا ریکارڈ حاصل کر رہے ہیں جس کے بعد اسلام آباد والوں (حکومت) کو درخواست دیں گے کہ وہ محمد فیض کی رہائی میں مدد کریں۔‘
’محمد فیض کی ماں نے اچھے دن کم ہی دیکھے ہیں‘
اظہر اقبال کو انڈیا میں گرفتار محمد فیض کا خاندان اپنا ماموں کہتا ہیں۔ اظہر اقبال بھی کہتے ہیں کہ ’محمد فیض کی والدہ حد بیگم ہماری بہن ہے اور ہمیں بہنوں سے زیادہ عزیز ہے مگر اس کی زندگی میں اچھے دن وہ ہی تھے جب محمد فیض متحدہ عرب امارات میں کام کر رہا تھا۔‘
اظہر اقبال بتاتے ہیں کہ ’حد بیگم چند دن کی تھیں جب ان کے والدین فوت ہو گئے تو ہمارے والدین نے ان کو اپنی بیٹی بنا لیا تھا۔ یہ شادی کی عمر تک ہمارے گھر میں رہیں تھیں جس کے بعد ہمارے والدین ہی نے ان کی شادی کی تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’محمد فیض چھ بہن بھائی ہیں جن میں محمد فیض سب سے کم عمر ہیں۔ یہ سب کم عمر ہی تھے کہ ان کے والد فوت ہو گئے تھے۔ جس کے بعد ان کی زندگی میں بے انتہا مشکلات آئی تھیں۔‘
اظہر اقبال کے مطابق محمد فیض نے تو میٹرک تک تعلیم حاصل کر رکھی تھی مگر اس کے دیگر بہن بھائیوں نے تو میٹرک تک بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔
’بس یہ ادھر ادھر محنت مزدوری کرتے ہیں۔ کبھی کام ملتا ہے اور کبھی نہیں ملتا تھا۔ ان کا اصل سرمایہ اور کماؤ پوت صرف محمد فیض ہی ہے۔وہ سب سے چھوٹا ہونے کی بنا پر اپنی ماں کا بھی بہت لاڈلا ہے۔‘
حد بیگم کہتی ہیں کہ ’مجھے میرے بیٹوں نے بتایا کہ وہ انڈیا گیا تھا جب کہ میں تو یہ سمھجتی تھی کہ وہ کسی اور ملک گیا تھا۔‘
’وہ مجھے روز فون کرتا تھا اور کہتا تھا کہ بس میرے کاغذ تیار ہو رہے ہیں۔ ایک دفعہ کاغذ تیار ہو جائیں تو پھر میں دوبارہ پیسے بھیجنا شروع کر دوں گا۔‘
واضح رہے کہ انڈین اور نیپالی شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک جانے کے لیے ویزا کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ سرحد عبور کرنے کے لیے اُن کے پاس کوئی ایک سرکاری شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ، ووٹنگ کارڈ یا آدھار کارڈ ہونا چاہیے۔
جبکہ انڈیا نیپال بارڈر چک پوائنٹ پر پیدل آنے جانے والوں کی چیکنگ بھی نہیں ہوتی۔ اسی لیے اکثر لوگوں کا اس چک پوائنٹ سے گزر کر انڈیا جانا آسان ہوتا۔
نیپال کی سرحد سے دلی کے لیے براہ راست بسیں چلتی ہیں جن میں بڑی تعداد میں نیپالی اور انڈین شہری سفر کرتے ہیں۔