Getty Images
’بچی ایک مہینے کی تھی تو یہ مسئلہ شروع ہوا۔ بظاہر وہ درد کی وجہ سے روتی چلاتی تھی لیکن ظاہر ہے کہ اتنی چھوٹی بچی کچھ بتا تو نہیں سکتی۔‘
’والدین بچی کو مختلف ڈاکٹرز کے پاس لے کر گئے کہ بچی روتی ہے لیکن کسی ڈاکٹر کا ذہن اس طرف نہیں گیا کیونکہ یہ کافی نایاب کیس ہے۔ کچھ عرصہ بعد والدین کو لگا کہ بچی کا پیٹ پھول رہا ہے لیکن پھر بھی کسی ڈاکٹر کا ذہن اس طرف نہیں گیا۔‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر صادق آباد میں ایک نو ماہ کی بچی کے پیٹ سے دوران آپریشن بچہ نکالنے والے سرجن کا مزید کہنا ہے کہ بچی کے والدین کئی ماہ سے مختلف ڈاکٹرز کے پاس جاتے رہے تاہم مرض نایاب ہونے اور طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے تشخیص نہیں ہو سکی۔
واضح رہے کہ صادق آباد پنجاب کے جنوب میں سندھ کی سرحد کے ساتھ واقع شہر ہے جہاں کے مضافاتی علاقے ریتی کے رہائشی آصف کی بیٹی ایک ماہ کی تھیں جب ان کا پیٹ پھولنا شروع ہوا۔
بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے آصف نے بتایا کہ اُن کی بیٹی ایک ماہ کی تھی جب یہ مسئلہ پیدا ہوا۔ ’ہمیں پتہ نہیں تھا کہ کیا مسئلہ ہے لیکن پیٹ پھول رہا تھا اور ہاتھ لگانے پر سخت معلوم ہوتا تھا۔‘
آصف کاشکاری کرتے ہیں اور مال مویشی پال کر گزر بسر کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہم تین چار ڈاکٹرز کے پاس گئے لیکن مرض کا علم نہیں ہو سکا۔
ایسے میں وہ اپنی بیٹی کو لے کر اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد کے پاس پہنچے جو رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں پیڈیاٹرک سرجن ہیں۔
’یہ بہت منفرد کیس تھا‘
ڈاکٹر مشتاق احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب انھوں نے بچی کا معائنہ کیا تو ’مجھے پیٹ میں رسولی اور پانی کی تھیلی محسوس ہوئی۔ میں نے الٹرا ساوئنڈ کروایا تو اس کی تصدیق ہوئی۔‘
ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ بہت منفرد کیس ہے‘ اس لیے ان کا ذہن بھی اس طرف نہیں گیا کہ یہ ایسا کوئی کیس ہو سکتا ہے۔
’ہمیں تشخیص کے لیے ایم آر آئی کروانا ہوتا ہے لیکن والدین کے پاس وسائل کم تھے اور صادق آباد میں یہ سہولت موجود بھی نہیں۔‘
ڈاکٹر مشتاق احمد نے سرجری سے رسولی نکالنے کا مشورہ دیا۔ اس وقت ان کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس بچی کے پیٹ میں ایک بچہ موجود ہے۔
’ہم نے سرجری کا منصوبہ بنایا لیکن پھر والدین گھر چلے گئے۔ پھر ان کی بچی کو زیادہ شدید درد ہوا تو وہ واپس آ گئے کہ ہم آپریشن کروا لیتے ہیں۔‘
’آپریشن کے دوران ہم نے پیٹ کھولا تو اس میں پانی کی تھیلی بھی تھی اور بچہ بھی تھا۔‘
جب میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ کیسے علم ہوا کہ بچی کے پیٹ میں بچہ تھا تو انھوں نے جواب دیا کہ ’جس طرح چھ سات ماہ کے بچے کی خصوصیات تھیں، یہ بلکل ویسا ہی تھا اور چہرے کے علاوہ پورا جسم انسانی تھا کیوں کہ چہرہ بعد میں ڈیویلیپ ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ بچہ نما بچی کی چھوٹی آنت سے جڑا ہوا بھی تھا اور آنتوں کے درمیان سے خون لے رہا تھا۔ ہمیں خطرہ تھا کہ بچی کو نقصان نہ ہو جائے۔ ہم نے تسلی کہ کہ بچی کو کسی طرح کا نقصان نہ ہو۔‘
ڈاکٹر مشتاق احمد نے بتایا کہ بچی کا اپنا وزن ساڑے آٹھ کلو جبکہ پیٹ سے نکالے جانے والے بچے کا وزن دو کلو تھا۔
آصف نے بی بی سی کو بتایا کہ آپریشن کے بعد سے ان کی بیٹی کی طبعیت ٹھیک ہے۔
لیکن یہ مرض کیا ہے؟
پاکستان میں اس نوعیت کا یہ پہلا کیس نہیں ہے۔ اس سے قبل ڈاکٹر مشتاق احمد کے بقول وہ ایسا ہی ایک اور کیس کر چکے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ’رحیم یار خان میں ایسا ایک کیس ہوا تھا جس میں پیٹ میں موجود بچے کے جسم کے تمام حصے ابھی پوری طرح مکمل نہیں تھے۔‘
طب کی دنیا میں اس کو ’فیٹس ان فیٹو‘ کا نام دیا گیا ہے لیکن اس اصطلاح اور نظریے پر سائنس کی دنیا متفق نہیں۔
پروفیسر ندیم اختر پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یا پمز ہسپتال میں پیڈیاٹرک سرجری کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہیں جنھوں نے ایسے کیسز پر کافی تحقیق کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فیٹس ان فیٹو کی اصطلاح سے عام طور پر یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ اس مرض کا حمل سے تعلق ہے جو ضروری نہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ایک بچہ نما چیز پیٹ میں پلتی ہے لیکن اکثر یہ ایک ٹیومر سرطان یا رسولی ہوتی ہے جو ضروری نہیں کہ جسم میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔‘
’یہ جس مقام پر ہوتا ہے اسی جگہ پر رہتا ہے، زیادہ تر پیٹ کے نچلے حصے میں۔‘
پروفیسر ندیم اختر کے مطابق اس کیفیت کا نام ’فیٹس ان فیٹو‘ اس لیے رکھا گیا کیوں کہ ’فیٹس میں تین تہیں ہوتی ہیں جو اس ٹیومر میں بھی ہوتی ہیں۔‘
’اکثر بہت سے اخبارات میں لوگ اس کو اور رنگ دیتے ہیں کیوں کہ وہ اسے سمجھتے نہیں اور خاندان والے پریشان ہو جاتے ہیں۔‘
’دوسرا اس کو ٹوئن کا نام دیا جاتا ہے کہ دوسرا جڑواں بچہ تھا اور یہ ایک نظریہ ہے لیکن یہ سائنسی اعتبار سے سو فیصد ثابت نہیں ہو سکا۔‘
اس طبی نظریے کے مطابق عام طور پر یہ ایسے کیسز میں ہوتا ہے جب کسی خاتون میں جڑواں بچے ہوں لیکن حمل کے آغاز میں ہی ایک بچہ کسی وجہ سے دوسرے جڑواں بچے سے جڑ کر کسی نہ کسی حالت میں باقی رہتا ہے لیکن زندہ نہیں رہتا۔
سنہ 2006 میں ایک ایسا ہی منفرد کیس اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں سامنے آیا تھا جب ایک دو ماہ کی بچی کے پیٹ سے دو فیٹس یا مردہ بچے نکالے گئے تھے۔
اس وقت آپریشن کرنے والے ڈاکٹر ظہیر عباسی نے اسے پاکستان کا ایسا پہلا کیس قرار دیا تھا اور بتایا تھا کہ بچی کے پیٹ سے دو جڑواں بچے نکالے گئے جو مر چکے تھے۔
منفرد بات یہ ہے کہ ایسے کیسز صنف پر منحصر نہیں ہوتے اور بچوں یا بچیوں دونوں میں ہی ہو سکتے ہیں۔
Getty Images
پروفیسر ندیم اختر کے مطابق ’ایسے کیس لڑکوں میں بھی ہو سکتے ہیں جس کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ ایسے بچوں میں ٹیسٹیکل (خصیے) اپنی جگہ پر نہیں بلکہ پیٹ میں چلے جاتے ہیں۔‘
’والدین کو پتہ نہیں چلتا اور پیٹ کے اندر ایک ٹیومر پلتا ہے جس کے بارے میں اسی وقت شک ہوتا ہے جب بچے کا پیٹ پھول جاتا ہے۔‘
ڈاکٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ یہ دو مختلف قسم کے کیسز ہوتے ہیں۔ ’ایک وہ جن میں بچہ نکلتا ہے جس کے انسانی خدوخال نمایاں ہوتے ہیں اور دوسرا وہ جس میں ٹیومر یا سرطان نکلتا ہے اور ایسے کیسز میں کسی مریض کے پیٹ سے دانت یا ہڈیاں ملتی ہیں لیکن انسانی خدوخال رکھنے والا بچہ نہیں ہوتا اور اسے ٹیراٹوما کہتے ہیں۔‘
طب کی دنیا میں اب تک اس مرض کی وجوہات مکمل طور پر طے نہیں کی جا سکیں تاہم اتنا واضح ہے کہ یہ پیدائشی مرض ہے جس کی بروقت تشخیص مشکل تو ہے لیکن اتنی ہی ضروری بھی۔
اس مرض کی تشخیص مشکل کیوں ہے؟
ڈاکٹر مشتاق احمد کے مطابق ’لاکھوں میں ایک کیس ہوتا ہے، دس سے پندرہ لاکھ بچوں میں سے ایک میں ایسا ہوتا ہے اور اسی لیے اس کی تشخیص مشکل ہے اور بہت دیر سے ہوتی ہے۔‘
امریکی پیڈیاٹرک جنرل کے مطابق پانچ لاکھ میں سے ایک بچے میں ایسا کیس سامنے آتا ہے۔
پروفیسر ندیم اختر کے مطابق ’ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسے کیسز میں الٹرا ساوئنڈ، سی ٹی سکین اور ایم آر آئی کروا کر دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ پیٹ میں کیا مسئلہ ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ چند دیگر ٹیسٹ بھی کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس بیماری کا حتمی حل آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
پروفیسر ندیم اختر کا کہنا ہے کہ ’آپریشن میں اگر مکمل طور پر اسے نکال لیا جائے اور اس کا کوئی حصہ جسم میں باقی نہ رہنا دیا جائے تو پھر اس رسولی کا دوبارہ سے بن جانے کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔‘
’اگر اسے بڑھنے دیا جائے اور غیر ضروری طور پر تشخیص میں وقت لگے تو اس کے اثرات ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم پروفیسر ندیم اختر کے مطابق ایسے مریضوں اور ان کے خاندان کی پرائیویسی کا خیال رکھنا ضروری ہے۔