رانی پور میں گدی نشین کی حویلی پر کام کرنے والی نوعمر بچیاں: ’بی بی کہتیں کہ مجھے ہنساؤ، ڈانس کرو، آپس میں لڑو‘

بی بی سی اردو  |  Sep 04, 2023

Getty Images

میں نے اپنی بیٹی فاطمہ پیر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے بھیجی تھی۔ پھر میری بیٹی کی یہ حالت کیوں کی گئی کہ اس کی لاش واپس آئی۔ میں پیر اور بی بی (پیر کی اہلیہ) کو ہرگز معاف نہیں کروں گی۔‘

شبانہ پھرڑو ہر آنے والے صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور تفتیشی پولیس اہلکاروں کو یہ دہائی دیتی ہیں۔

گذشتہ ماہ 13اگست کو 10 سالہ فاطمہ صوبہ سندھ کے علاقے رانی پور کے ایک پیر کی حویلی میں ہلاک ہو گئی تھیں۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے ملزم پیر اسد شاہ کو گرفتار کیا جبکہ اُن کی اہلیہ حنا شاہ اپنے والد پیر فیاض شاہ کے ساتھ بدستور مفرور ہیں اور پولیس انھیں گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔

واضح رہے کہ فاطمہ کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں قبل از مرگ تشدد اور ریپ کی علامات کی تصدیق ہوئی تھی۔

فاطمہ کی والدہ شبانہ پھرڑو نو ماہ قبل اپنی بیٹی کو بطور ملازمہ حویلی پر چھوڑ کر آئی تھیں اور اس کے بعد انھیں اپنی بیٹی کو گھر لے جانے کی کبھی اجازت نہیں ملی۔

شبانہ پھرڑو بتاتی ہیں کہ ملزم پیر اسد شاہ کے بچے اور فاطمہ تقریباً ہم عمر تھے۔

’پیر فیاض نے کہا کہ فاطمہ کو حویلی چھوڑ جاؤ، وہ اُن کے (بچوں) ساتھ کھیلے گی۔ میں نے یہ کہہ کر منع کیا کہ آپ کی بیٹی سخت طبیعت کی مالک ہیں، جس پر پیر فیاض کہنے لگے کہ نہیں وہ بچی کو خوش رکھے گی۔‘

شبانہ پھر اپنی بیٹی کو حویلی چھوڑ آئیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس نو ماہ کے دوران انھیں دو سے تین بار ہی فاطمہ سے ملنے دیا گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’حویلی کے گیٹ کے باہر پانچ سات منٹ ملاقات ہوتی تھی۔ فاطمہ کے ساتھ ایک ملازمہ ہوتی تھی تاکہ اس پر نظر رکھ سکے جبکہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگے ہوئے تھے۔ اس لیے فاطمہ کوئی بات نہیں بتاتی تھی نہ کسی تکلیف کا ذکر کرتی تھی۔‘

بقول ان کے فاطمہ کی ملازمت کے عوض انھیں تین ہزار روپے ملتے تھے۔

شبانہ آخری بار 28 جولائی کو اپنی بیٹی سے ملنے گئی تھیں اور ان کے مطابق انھوں نے فیاض شاہ کی منت سماجت کی کہ خاندان میں شادی ہے اس لیے فاطمہ کو ساتھ لے جانے دیں مگر فیاض شاہ نہیں مانے اور پھر وہ واپس لوٹ آئیں۔

شبانہ کے شوہر بھی اپنی بیٹی کو لینے حویلی گئے لیکن انھیں بھی ناکام لوٹنا پڑا۔ اور پھر بلآخر اس کی لاش واپس آئی۔

شبانہ بتاتی ہیں کہ ’جب ہم نے فاطمہ کو دفن کیا تو اس کے بازوؤں، گلے پر تشدد کے نشانات تھے۔ بال نوچے ہوئے تھے جبکہ ایک بازو بھی ٹوٹا ہوا تھا۔ ہم نے فاطمہ کے زخم تو دیکھے لیکن اس پر ہونے والا ظلم نہیں دیکھا تھا۔‘

BBCشبانہ اپنی بیٹی کو حویلی چھوڑ آئیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ اس نو ماہ کے دوران انھیں دو سے تین بار ہی فاطمہ سے ملنے دیا گیاسوشل میڈیا پر وائرل ویڈیوز

فاطمہ پھرڑو کی والدہ شبانہ نے ابتدائی طور پر مقدمہ درج کرانے سے انکار کیا تھا لیکن اسی عرصے میں سوشل میڈیا پر دو ویڈیوز وائرل ہوئیں۔ ان ویڈیوزمیں سے ایک میں لاش پر تشدد کے مبینہ نشانات تھے جبکہ دوسری ایک سی سی ٹی وی فوٹیج تھی جو حویلی سے فاطمہ کی لاش گاؤں لانے والے نوجوانوں کے اصرار پر انھیں حویلی سے دی گئی تھی۔

فاطمہ کی لاش گاؤں لانے والے نوجوانوں میں سے ایک محمد حسن پھرڑو بتاتے ہیں کہ دوپہر دو ڈھائی بجے کا وقت تھا جب رانی پور سے ان کے رشتہ دار نے فون کر کے گاؤں میں بتایا کہ فاطمہ فوت ہو گئی ہے۔

محمد حسن پھرڑو کے مطابق فاطمہ کے والدین غریب ہیں اس لیے وہ تین دوست لاش لینے کے لیے بائیک پر روانہ ہو گئے۔

’حویلی پہنچے تو خاموشی تھی۔ پھر ڈیرے پر گئے۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد فیاض شاہ نکل کر آئے۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ فاطمہ کیسے فوت ہو گئی؟ انھوں نے ڈاکٹر اور لیبارٹری کی رپورٹس دکھائیں۔ ہم نے کہا کہ وہ تو ٹھیک تھی جس پر انھوں نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج دیتا ہوں۔ اس کے والدین کو دکھانا لیکن کسی اور کو نہ دکھانا۔ ایک گھنٹے انتظار کے بعد فون سے سکرین ریکارڈ کر کے ہمیں دے دی۔‘

اس ویڈیو میں ایک ہی کمرے میں اسد شاہ اور فاطمہ کی موجودگی کے بارے میں پیر اسد شاہ کی والدہ نے میڈیا کے سامنے آ کر دعویٰ کیا تھا کہ چھوٹے بچوں کی وجہ سے ان ملازمہ کو کمرے میں رکھا جاتا تھا۔

محمد حسن نے بتایا کہ انھوں نے یہ ویڈیو والدین اور رشتے داروں کو دکھائی لیکن کوئی اعتبار نہیں کر رہا تھا اور جب صبح فاطمہ کی تدفین سے قبل اس کو غسل کرایا گیا تو اس کے جسم پر تشدد کے نشان موجود تھے۔

غسل سے قبل بھی بچی کی ایک ویڈیو بنائی گئی جو محمد حسن کے مطابق ان کی ایک کزن نے بنائی تھی، جس کے بعد یہ دونوں ویڈیوز ساتھ شیئر ہونے لگیں۔

ایس ایس پی خیرپور روحل کھوسو کہتے ہیں کہ ’ایس ایچ او رانی پور فاطمہ کی والدہ کے پاس کارروائی کے لیے گئے تھے لیکن انھوں نے کہا کہ ان کی بچی بیمار تھی اور دوایاں بھی دکھائیں لیکن بعد میں سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ پولیس دوبارہ والدہ کے پاس پہنچی، جس کے بعد وہ مقدمہ درج کرانے کے لیے راضی ہوئیں۔‘

دوسری جانب اس بارے میں فاطمہ پھرڑو کی والدہ کہتی ہیں کہ ان کی تین اور رشتے دار لڑکیاں بھی پیر کے گھر موجود تھیں جب وہ واپس آ گئیں تو انھوں نے مقدمہ درج کرایا۔

BBCفاطمہ کی والدہ کے مطابق انھوں نے اپنی بیٹی کو حویلی پر پیروں کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے چھوڑا تھا’بی بی ہمیں کہتی کہ مجھے ہنساؤ، ڈانس کرو، آپس میں لڑو‘

بی بی سی نے رانی پور میں ایسے کئی خاندانوں سے ملاقات کی ہے، جن کی لڑکیاں ماضی قریب میں حویلی میں کام کر چکی ہیں۔ ان لڑکیوں نے حویلی کی زندگی کے بارے دل دہلا دینے والے انکشافات کیے ہیں۔

حویلی میں کام کرنے والی لڑکیوں کے تحفظ کے پیش نظر ان کے فرضی نام استعمال کیے گئے ہیں۔

گاؤں علی احمد پھرڑو کی رہائشی نسرین بھی اسی حویلی میں کام کرتی تھیں جہاں فاطمہ پر مبینہ طور پر تشدد ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ فاطمہ پر تشدد کی چشم دید گواہ ہیں اور ان کے دعوے کے مطابق انھیں بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

نسرین دعویٰ کرتی ہیں کہ ’فاطمہ گھریلو کام کاج میں تھوڑی سی بھی غلطی کرتی تو بی بی اس کو کہتی تھیں کہ میں تمہارا خون پی جاؤں گی، تمہیں مار ڈالوں گی۔ بی بی ہمیں کہتی کہ گرم پانی پیو، جو کھانا بچ جاتا وہ ہمیں کھانے کے لیے دیتیں، رات کو چار پانچ بجے جب بچے سو جاتے تب ہمیں سونے کی اجازت تھی۔ ہم صبح دس بجے اٹھ جاتے تھے۔ تشدد کرنے کے علاوہ بی بی ہمیں کہتی تھیں کہ مجھے ہنساؤ، ڈانس کرو، آپس میں لڑو۔‘

نسرین فاطمہ کی خراب طبیعت کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’ڈاکٹر آ رہے تھے اور فاطمہ کو ڈرپس بھی لگ رہی تھیں۔ فاطمہ کچھ نہیں بتاتی تھی، ڈاکٹر نے بازو پر چوٹ کا پوچھا لیکن تو وہ تب بھی خاموش رہی۔‘

نسرین بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے فاطمہ کو تڑپتے ہوئے دیکھا تو وہ ڈر گئیں اور حویلی سے بھاگ نکلیں۔

ان کے مطابق حویلی سے فرار کے بعد انھوں نے درگاہ پر جا کر پناہ لی جبکہ پیر نے ان کے تعاقب میں لوگ بھی بھیجے لیکن پھر نسرین کا اپنے رشتے داروں سے رابطہ ہوا جو انھیں ان کے گاؤں لے آئے۔

’ایک مرتبہ بی بی نے اتنا مارا کہ میرا منہ خون سے بھر گیا‘

نسرین کے والد اور ایک بھائی قتل کے الزام میں جیل میں ہیں اور ان سمیت چار ایسے خاندان ہیں، جن کے مرد مقامی تنازعات میں ہونے والے قتل کے الزامات میں گرفتار ہیں۔

ان ہی خاندانوں کی نو عمر لڑکیاں مختلف حویلیوں میں کام کر رہی ہیں۔

نسرین جن کی عمر اٹھارہ سال کے لگ بھگ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ اُن کے والد جیل میں ہیں، گھر میں آٹا تک نہیں تھا تو والدہ اور چھوٹی بہن وہاں حویلی میں کام کرتے جبکہ چھوٹا بھائی چچا کے گھر رہتا تھا۔‘

ایک اور لڑکی نورین کے والد اور بھائی بھی جیل میں ہیں اور ان پر بھی قتل کا الزام ہے۔

انھوں نے پیر خاندان سے انصاف کے حصول کے لیے مدد مانگی تھی اور اس آسرے میں وہ وہاں ملازمت کرتی رہیں کہ پیر قانونی معاملات میں ان کی مدد کریں گے، لیکن اب ان کا الزام ہے کہ انھوں نے اُن کی مجبوری کا فائدہ اٹھایا۔

’ہم نے کہا کہ ہمارا کوئی سمجھوتہ کروا دیں تاکہ ابو اور بھائی چھوٹ جائیں۔ اسی مجبوری میں وہاں کام کر رہے تھے۔ ایک غربت اور دوسری مجبوری نے ہمیں اسد شاہ کے گھر بٹھا دیا۔‘

نورین بتاتی ہیں کہ وہاں مار پٹائی بہت زیادہ تھی۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’ایک مرتبہ بی بی نے اتنا مارا کہ میرا منہ خون سے بھر گیا۔ پھر بی بی نے کہا کہ یہ خون پی جاؤ۔ میں نے پیروں کو بھی تشدد کی شکایت کی لیکن انھوں نے نہیں سنی۔‘

فاطمہ کی ہلاکت سے تقریبا ڈیڑھ سال قبل نورین تشدد کی شکایت کے ساتھ گاؤں واپس پہنچی تھیں لیکن ان کی بات نہ تو سنی گئی اور نہ ہی کوئی ایکشن ہوا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ایک روز وہ حویلی سے بھاگ نکلیں۔ ’میرا دماغ اتنا خراب ہو گیا تھا کہ سوچا کسی پل سے چھلانگ لگاؤں گی یا گاڑی کے نیچے آ جاؤں گی۔ جب وہاں سے نکلی تو رشتے دار راستے میں مل گئے، انھیں شکایت کی تو انھوں نے پیروں کو اور گاؤں والوں کو بھی بتایا لیکن کسی نے اعتبار نہیں کیا اور کہا کہ ہمارے مرشد ایسے نہیں۔‘

BBCخیرپور ضلع میں واقع رانی پور کی درگاہ 17ویں صدی میں قائم ہوئی تھی اور یہاں زیادہ تر سندھ اور بلوچستان سے عقیدت مند آتے ہیں’میری دس سال کی بیٹی کو بی بی نے آنکھ پر مکا مارا‘

علی احمد گاؤں تقریباً دو سو گھروں پر مشتمل ہے، جو نوشہرو فیروز ضلع کے قصبے خانواہن میں واقع ہے۔ یہاں زیادہ تر مکانات مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ ایک پرائمری سکول ہے جبکہ ایک بڑی اور پکی امام بارگاہ بھی ہے۔

اس گاؤں کے لوگ زیادہ تر کسان ہیں۔ کچھ کے پاس اپنی زمینوں کے چھوٹے ٹکڑے ہیں، تقریباً تمام ہی قریبی رشتے دار ہیں اور رانی پور کے پیروں کے مرید ہیں۔

نسرین ہو یا فاطمہ کا خاندان، ان کے پاس کوئی چھت نہیں صرف دیواریں ہیں۔ ان کے گھر گر چکے ہیں اور یہ لوگ دوپہر کا وقت آس پڑوس میں گزارتے ہیں۔ ان گھرانوں کے پاس روزگار کا کوئی مستقل وسیلہ بھی دستیاب نہیں۔

یہاں کی ایک رہائشی زیب النسا نے بھی اپنی بیٹی کو بھی حویلی میں ملازمہ رکھوایا تھا لیکن پھر وہ اسے واپس لے آئیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان کے چار مرد گرفتار ہیں۔

’جج ضمانت نہیں دیتا، پھر اسی مجبوری میں کہ پیر سمجھوتہ کرا دیں گے، بچیاں حویلی میں کام کرتی رہیں لیکن انھوں نے سمجھوتہ نہیں کروایا۔‘

’میری دس سال کی بیٹی کو بی بی نے آنکھ پر مکا مارا، جس کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں پا رہی تھی۔ اس نے کہا کہ امی میرا سر گھوم رہا ہے۔‘

زیب النسا نے الزام عائد کیا کہ بی بی حنا نے ان کی بیٹی کے چہرے پر میک اپ کیا اور کہاکہ والد کو جا کر بتانا کہ آنکھ پر ری ایکشن ہوا ہے اور اگر ایسا نہ کہا تو دوبارہ ماروں گی۔

بقول زیب النسا وہ اپنی بیٹی کو لے کر واپس گاؤں آ گئیں، جہاں پیر بچی کو لینے آیا تو وہ ڈر کر کھیتوں میں بھاگ گئی۔

پیر خاندان کی خاموشی

سابق رکن قومی اسمبلی پیر فضل شاہ رانی پور کے پیر خاندان کے سیاسی بڑے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں ان سے ان کے ڈیرے پر ملاقات ہوئی تھی لیکن اس بار بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی تو ان کا ڈیرہ ویران تھا اور کسی نے ہم سے بات نہیں کی۔

اس معاملے پر پیر اسد کے سسر فیاض شاہ اور ان کے وکیل سے بھی بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے انکار کیا، جس کے بعد ہم گدی نشین پیر سورج دستگیر کے گھر گئے۔

گھر کے باہر دو بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں جبکہ کونے میں ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا اور ساتھ میں دو بڑے رکھوالی کے کتے موجود تھے۔

ہمیں یہ کہہ کر انتظار کرایا گیا کہ ’سائیں‘ آرام کر رہے ہیں۔ پھر ایک گھنٹے کے بعد بتایا گیا کہ کنیز کو بھیج کر اطلاع دی گئی ہے۔ دوپہر کے تین بجے بتایا گیا کہ وہ ناشتہ کر رہے ہیں، اس کے بعد نماز کا بتایا گیا اور پھر آگاہ کیا گیا کہ وہ نکل گئے ہیں اس لیے ملاقات نہیں ہو سکتی۔

اس ڈیرے سے باہر نکلے تو آس پاس کئی حویلیاں اور اونچی دیواریں تھیں، بعض میں سے کچھ نو عمر لڑکیاں کھانے لے کر آ جا رہی تھیں۔ ایک حویلی کے باہر پیر نانا شاہ موجود تھے لیکن انھوں نے بھی ہم سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

یاد رہے کہ ملزم پیر اسد شاہ تشدد کے الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔ بقول ان کے فاطمہ کو گیسٹرو کی بیماری تھی، جس کا مقامی ڈاکٹر سے علاج کرایا گیا۔ اس کے علاوہ پیر اسد کی والدہ نے بھی ایک پریس کانفرنس میں بیٹے کو بے گناہ قرار دیا اور کسی بھی طرح کے تشدد سے لاعلمی ظاہر کی۔

میڈیا اور سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد درگاہ پر مرید اور عقیدت مند جمع ہوئے اور الزامات کو پروپیگنڈا قرار دیا لیکن پولیس نے دھمکی آمیز تقاریر کرنے کے الزام میں چالیس کے قریب افراد پر مقدمہ درج کر کے بعض مریدین کو گرفتار بھی کیا۔

BBCعلی احمد گاؤں تقریباً دو سو گھروں پر مشتمل ہے اور یہاں زیادہ تر مکان مٹی کے بنے ہوئے ہیںدرگاہ پر عقیدت مندوں کی آمد میں کمی

خیرپور ضلع میں واقع رانی پور کی درگاہ 17ویں صدی میں قائم ہوئی تھی اور یہاں زیادہ تر سندھ اور بلوچستان سے عقیدت مند آتے ہیں لیکن فاطمہ کی ہلاکت کے بعد درگاہ کا پیر خاندان زیر بحث اور زیر تنقید ہے اور یہاں لوگوں کی آمد میں بھی کمی آئی ہے۔

درگاہ کے بازار میں عام دنوں میں ہجوم ہوتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں جمعرات اور جمعہ کے روز بھی ویرانی تھی اور صرف اِکا دُکا مرید اورعقیدت مند ہی نظر آئے۔

مزار پر ایک خلیفہ فیاض حسین واٹھیو سے ملاقات ہوئی جن کو پولیس نے گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں چھوڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں کچھ لوگ ہیں جو اس گھرانے کو بدنام کر کے اپنے سیاسی مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر یہ پیر ایسے ہی ہوتے تو ہم سات پشتوں سے کیوں یہاں آتے اور کیوں اپنے بال بچے چھوڑ کر جاتے ہیں۔ باقی جو فاطمہ کا معاملہ ہے اس میں پیر اسد گرفتار ہیں۔ سائیں بڑے نے کہا کہ اگر پورا الزام اس پر آ جائے تو اس کو پھانسی پر لٹکاؤ رانی پور کا کوئی پیر درمیان میں نہیں آئے گا۔‘

’پولیس کو الہام تو نہیں ہو گا‘

خیرپور پولیس فاطمہ کی ہلاکت کے مقدمے میں ابھی تک صرف ایک ملزم پیر اسد شاہ کو گرفتار کر سکی ہے جبکہ ان کی بیگم اور والد فیاض شاہ مفرور ہیں۔

ڈی این اے رپورٹ، پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ اور حویلی سے لیے گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کے ریکارڈ کی فرانزک رپورٹ بھی ابھی نہیں آئی۔

ایس ایس پی روحل کھوسو کا کہنا ہے کہ تفتیش جیسے جیسے آگے بڑھے گی اور اس میں جو نام بھی آئیں گے، انھیں حراست میں لیا جائے گا۔

فاطمہ کے قتل کی ایف آئی آر میں بچوں سے جبری مشقت اور انسداد دہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں، جس کے بعد یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کیا گیا۔

دوسری طرف فاطمہ کیس میں سندھ پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، جس میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ اگر سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے نہ آتی تو کیا یہ حقائق کبھی سامنے آتے؟

BBCدرگاہ کے بازار میں عام دنوں میں ہجوم ہوتا ہے لیکن حالیہ دنوں میں جمعرات اور جمعے کے روز بھی ویرانی تھی اور صرف اکا دکا مرید اورعقیدت مند ہی نظر آئے

ایس ایس پی روحل کھوسو اس بارے میں کہتے ہیں ’پولیس کو جب تک انفارمیشن نہیں ملتی، الہام تو نہیں ہوتا۔ معلومات کے لیے پولیس کے اپنے ذرائع ہوتے ہیں۔‘

’یہ کیس سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ورنہ پورا سال پورے سندھ میں جب بھی اس قسم کا کوئی کیس ہوتا ہے تو کارروائی کی جاتی ہے۔ اگر غیرت کے نام پر قتل ہوتے ہیں تو ریاست اپنی مدعیت میں ایف آئی آر درج کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں سندھ پولیس بشمول خیرپور پولیس تمام کیسز میں بڑھ چڑھ کر کام کرتی ہے۔‘

سندھ حکومت کے وزرا نے علی محمد پھرڑو گاؤں پہنچ کر فاطمہ کے خاندان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کی بھی پیشکش کی جس کو ابھی تک اس خاندان نے قبول نہیں کیا۔

صوبائی وزیر داخلہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کہتے ہیں کہ ملزمان سے کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا رہا، ہماری واضح ہدایات ہیں کہ تمام ملزمان گرفتار ہوں۔

ادھر فاطمہ پھرڑو کی والدہ کا کہنا ہے کہ انھیں سمجھوتے کے لیے پیغام آ رہے ہیں لیکن وہ فاطمہ کے خون کا سودا نہیں کریں گی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں اتنا غصہ ہے کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ پیروں کی گردن دبوچ لیں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More