Getty Images
یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں جب یہ ایک سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ گلوبل کمپیوٹر نیٹ ورک کیسا ہو گا یعنی دنیا کمپیوٹر کے ذریعے کیسے رابطے میں آ جائے گی۔ سائبر سپیس میں سب ممکن نظر آیا مگر ایسے میں آن لائن شائع ہونے والے مواد کے بارے میں تشویش پیدا ہوئی۔
لیکن ایک خوف یہ بھی تھا کہ یہ تشویش کہیں اس ایجاد کے خیال کو ہی نہ دبوچ لے جسے دنیا آج انٹرنیٹ کے نام سے جانتی ہے۔
امریکہ کے قانون میں سیکشن 230 میں جو الفاظ استعمال کیے گئے، انھیں ’انٹرنیٹ ایجاد کرنے والے الفاظ‘ کے لقب سے جانا جاتا ہے۔
سیکشن 230 کے الفاظ: ’انٹرایکٹو کمپیوٹر سروس کے کسی بھی فراہم کنندہ یا صارف کو کسی دوسرے معلوماتی مواد فراہم کنندہ کے ذریعہ فراہم کردہ کسی بھی معلومات کے ناشر یا سپیکر کے طور پر نہیں سمجھا جائے گا۔‘
صحیح معنوں میں یہ ٹیکنالوجی کی کمپنیوں کے لیے ایک قانونی سہارا ہے جس کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا کہ ٹیک کمپنیوں کو کسی بھی طرح کی قابل اعتراض سرگرمیوں یا پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اور یہی وہ یقین دہانی ہے جس نے انٹرنیٹ کی ایجاد کو یقینی بنایا۔ اب چاہے یہ کسی کےلیے اچھی ایجاد ہے یا بری مگر امریکہ کے قانون کا سیکشن 230 اپنی نوعیت کا ایک منفرد قانون ضرور ہے۔
دنیا میں کسی اور شے کو آن لائن خدمات کے لیے اتنا وسیع استثنیٰ حاصل نہیں۔ اب چونکہ یہ کوئی محض اتفاق کی بات نہیں کہ امریکہ کرہ ارض پر سب سے بڑی انٹرایکٹو کمپیوٹنگ سروسز کا مرکز ہے، اس لیے دیگر خودمختار ممالک کو ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو ایک حد میں رکھنے کے لیے اپنے طور پر قانون سازی میں مشکل درپیش رہتی ہے۔
تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان 26 الفاظ نے خود امریکہ میں بے چینی پیدا کر دی۔
ڈیموکریٹس کا خیال ہے کہ ان الفاظ نے جھوٹ اور نفرت انگیز تقاریر کو آن لائن پھیلانے کی اجازت دے رکھی ہے اور انٹرنیٹ پلیٹ فارمز کو اسے روکنے کے لیے فوری کارروائی کرنے یا ان کا محاسبہ کرنے کی ترغیب دینے میں ناکام رہے ہیں۔
Getty Images
ریپبلکنز اپنی طرف سے سیکشن 230 کو قدامت پسند خیالات کو سینسر کرنے اور آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنی سائٹس پر نمایاں کردہ مواد پر بہت زیادہ اختیارات دینے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
صدر جو بائیڈن نے کانگریس سے مطالبہ کیا تھا کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے خصوصی استثنیٰ کو ہٹایا جائے اور بہت زیادہ سخت اقدامات نافذ کیے جائیں۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےبھی یہ اعلان کیا تھا کہ ’ہمیں سیکشن 230 سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔‘
تاہم وہ چند الفاظ جو انٹرنیٹ کے مؤجد کہلاتے ہیں وہ اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں مگر یہ سب کیسے ہوا؟ آئیے جانتے ہیں۔
دو مقدمات، دو فیصلے، ایک نتیجہ
انٹرنیٹ صرف ماہرین تعلیم کے استعمال سے نکل کر دنیا بھر میں ہر ایک کے ہاتھ میں آ گیا تو ایسے میں پھر کمرشل بنیادوں پر ٹیلی میٹکس سروسز کا آغاز ہوا۔
یہ بہت سادہ پیغام رسانی کا ذریعہ تھا جس میں صرف متن کے ساتھ لوگ شائع کر سکتے تھے اور معلومات تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔
ان میں سے ایک اہم پروڈجی تھا، اور جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ لوگ خبریں پڑھنے، ترکیبیں شیئر کرنے یا رائے کا اظہار کرنے کے لیے آن لائن آئے تو پھر اس کے منتظمین نے دیکھا کہ فحش، توہین آمیز اور فرضی پیغامات بھی شائع ہو رہے ہیں۔
پروڈیجی نے فیصلہ کیا کہ اسے اپنے مواد کو ’ماڈریٹ‘ کرنے کی ضرورت ہے یعنی غیرمناسب میسجز کو حذف کرنا چاہیے۔
ایک دن سٹارٹن اوکمونٹ نامی کرنسی کی لین دینے والی کمپنی (بروکریج ہاؤس) نے پروڈیجی پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ کسی نے اس کمپنی کو مجرمانہ تنظیم کے طور پر بدنام کرنے کے لیے پلیٹ فارم کا استعمال کیا اور اس کے صدر کو چور کہا جو کئی گھپلوں میں ملوث ہے۔
عدالت میں، فرم کے وکلا نے یہ دلیل دی کہ چونکہ پروڈیجی نے ’ماڈریٹرز‘ کو ملازمت دے رکھی ہے تو اس وجہ سے وہ ہر ہتک آمیز پیغام جسے حذف نہیں کیا جاتا کے لیے ذمہ دار ہے۔
اور یہ کمپنی مقدمہ جیت گئی۔ جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ پروڈیجی نے اخبار کی طرز پر ادارتی اختیار کا استعمال کیا۔ اس مقدمے میں پروڈیجی کو 100 ملین امریکی ڈالر ادا کرنے پڑے۔
برسوں بعد پتا چلا کہ یہ سب ہتک آمیز نہیں تھا بلکہ سٹارٹن اوکمونٹ نامی یہ کمپنی اور اس کے صدر نے بہت سے شیئر ہولڈرز کو دھوکہ دیا، اس کے کئی سربراہان جیل میں رہے اور یہ فرم سنہ 1996 میں بند ہو گئی۔
لیکن یہ سب ابھی تک معلوم نہیں تھا اور جہاں تک انٹرنیٹ کے ساتھ کیا ہو گا، اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
Getty Images
اہم بات یہاں یہ تھی کہ اسی وقت کے آس پاس پبلک سروس پیش کرنے والی کمپیو سرو نامی ایک اور سروس کے خلاف ہتک عزت کا ایک اور مقدمہ چل رہا تھا۔
لیکن چونکہ کمپیو سرو نے اپنے پلیفارم پر جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے اسے ماڈریٹ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اس لیے اس کا مقدمہ خارج کر دیا گیا۔
بنیادی طور پر قانون یہ کہتا ہے کہ اگر ویب سائٹ کا فوکس نگرانی کرنے اور قوانین کو نافذ کرنے پر ہے تو یہ ہر صارف کی پوسٹ کردہ ہر چیز کے لیے ذمہ دار ہے لیکن اگر اس نے پوسٹ کی جانے والی چیزوں سے آنکھ موند رکھی ہے تو وہ اس ذمہ داری سے باہر ہے۔
جب کیلیفورنیا کے سابق ریپبلکن نمائندے کرس کاکس کو اس کے بارے میں پتہ چلا تو انھیں یہ احساس ہوا کہ یہ مواصلات کے اس نئے ذریعے کو منظم کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے کیونکہ انھیں پتا تھا یہ بہت اہمیت کا حامل ہونے والا ہے۔
چنانچہ انھوں نے اپنے دوست ڈیموکریٹک سینیٹر رون وائیڈن سے اس کے بارے میں بات کی اور دونوں مل کر ایک بہتر راستے کی تلاش میں نکلے۔
دو دن بعد انھوں نے ان الفاظ کے ساتھ ایک تحریر پوری کی جو اس نیٹ ورک بنانے کے لیے ضروری تھی جسے آج ہم جانتے ہیں۔
Getty Imagesکوئی سرپرست نہیں
اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے سنہ 1996 کے کمیونیکیشن ڈیسنسی ایکٹ کے لیے لائبریری آف کانگریس میں منعقدہ دستخط کرنے کی تقریب میں کہا: 'آج، ہماری دنیا ایک بار پھر معلوماتی انقلاب سے تعمیر ہو رہی ہے۔'
انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ 'یہ تاریخی قانون اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ آزادی کے ساتھ ذمہ داری آتی ہے۔ (...) یہ آرا کے تنوع کی ضمانت دیتا ہے جس پر ہماری جمہوریت کا انحصار ہے۔ سب سے بڑھ کر شاید اس میں مشترکہ بھلائی کی بہتری ہے۔'
اور پھر تنازع کھڑا ہوگیا۔
لیکن ان 26 الفاظ کی وجہ سے نہیں جو سیکشن 230 میں ظاہر ہوئے ہیں بلکہ اس لیے کہ قانون نے سائبر سپیس میں بے حیائی اور فحاشی دونوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔
اظہار رائے کی آزادی کے حامیوں نے کامیابی کے ساتھ دلیل دی کہ پہلی ترمیم نے اظہار رائے کی آزادی کی حفاظت کی ہے، مثال کے طور پر پرنٹ میں ناول یا 'سات برے الفاظ' کا استعمال (جو ٹی وی پر بلیپ کے ذریعے سنسر تھے) لیکن یہ اس کےجاری ہونے کے بعد اچانک غیر قانونی ہو جائیں گے۔
ناقدین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اس قانون کی وجہ سے طبی معلومات کی دستیابی پر خراب اثرات پڑیں گے۔
آن لائن احتجاج اور قانونی مقدمات کے بعد جلد ہی زیادہ تر کمیونیکیشن ڈیسنسی ایکٹ میں ترمیم کر دی گئی۔
لیکن اس وقت کی بظاہر بے ضرر سیکشن 230 کو تبدیل نہیں کیا گیا۔
اس وقت عموما کوئی بھی اس کے مضمرات کو نہیں سمجھ رہا تھا۔
یہ اسی قانون کی طرح تھا جو کتابوں کی دکانوں کے مالکان کو تحفظ فراہم کرتا تھا، جنھیں ماضی میں 'فحش' کتابوں کی فروخت کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جاتا تھا۔
1950 کی دہائی میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ چونکہ کتاب فروشوں سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان تمام کتابوں کو پڑھیں جو ان کے پاس موجود ہیں اس لیے ان میں سے کسی ایک میں لکھی ہوئی چیز کے لیے ان پر مقدمہ چلانا غیر منصفانہ ہے۔
لیکن کتابوں کے معاملے میں ایسے پبلشرز تھے جن پر مقدمہ چلایا جا سکتا تھا اور اس لیے وہ دربان کے طور پر کام کرتے تھے۔
انٹرنیٹ پر اشاعت میں وہ رکاوٹیں موجود نہیں تھیں کیونکہ نہ صرف وہاں کوئی دربان نہیں تھا بلکہ دروازے بھی نہیں تھے۔
BBCسب ایک پہیلی
سیکشن 230 ان کمپنیوں کو تحفظ فراہم نہیں کرتا جو وفاقی فوجداری قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں، یا جو غیر قانونی یا نقصان دہ مواد تخلیق کرتی ہیں یا انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔
لیکن یہ ایک ڈھال فراہم کرتا ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ یہ بنیادی طور پر کہتا ہے کہ جب کوئی نقصان دہ مواد سامنے آتا ہے تو ذمہ دار اس کے خالق کو ہونا چاہیے، نہ کہ اس کو پیش کرنے والے کو۔
اور یہ ایک تلوار بھی ہے کیونکہ یہ مواد فراہم کرنے والوں کو اعتدال اور اس بات کا تعین کرنے کی اجازت دیتا ہے کہ ان کے پلیٹ فارمز پر کس چیز کی اجازت ہے، جب تک کہ وہ اس پر 'نیک نیتی سے' سے عمل پیرا ہیں۔
تیزی سے صارف کی ترقی کے پیش نظر اس بات کو یقینی بنانا کہ ویب سائٹس کو جہاں تک ممکن ہو موڈریٹ کیا جائے تاکہ اسے عدالت میں مسلسل گھسیٹے جانے کا خطرہ نہ رہے۔ اس بنیاد پر اس وسیع آن لائن سمندر کی تخلیق ہوئی جہاں کی آج ہم سیر کرتے ہیں۔
ای بے اور ویکیپیڈیا سے لے کر فیس بک، ایئر بی این بی، ایکس (سابقہ ٹویٹر) اور گوگل تک کچھ بھی ایسا نہیں ہوتا اگر ان کے ساتھ یہ عدم مخالفت کا رویہ اپنایا نہیں جاتا۔
لیکن جس طرح سے اس آزادی نے حیرت انگیز چیزوں کو پروان چڑھایا ہے اسی طرح اس نے ظلم کو بھی آزادی دی ہے۔
اور جب آپ حد سے زیادہ سوچیں گے تو یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوگا کہ سیکشن 230 کو اگر حذف نہیں بھی کیا جائے تو اس میں ترمیم ضروری ہے۔
بہت کم لوگ ان چیزوں کو ہٹانے کی مخالفت کریں گے جو بچوں کی جنسی اسمگلنگ یا جعلی خبروں، سائبر بلیئنگ، اقلیتوں کے خلاف تعصب، گھپلوں اور بہت کچھ میں سہولت فراہم کرتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مواد فراہم کرنے والوں پر کارروائی کرنے کے لیے مسلسل دباؤ رہتا ہے۔
لیکن سیکشن 230 کے حامیوں نے ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا ہے کہ اس میں ترمیم قانون کی روح کی خلاف ورزی کیے بغیر کیا جائے۔ وہ اس بات سے خائف ہیں کہ ایک بار اس کو چھیلنا شروع کیا گیا تو یہ ختم ہو جائے گا کیونکہ لوگ مزید اور مزید کے لیے زور دیں گے۔
اور بہت سے لوگوں نے زور بھی دیا ہے۔ ان میں سیاستدان اور عام لوگ دونوں شامل ہیں اور کانگریس میں اور عدالتوں میں، حتیٰ کہ سپریم کورٹ میں بھی ایسے لوگ ہیں۔
اتنے حملوں کے باوجود یہ کیوں قائم ہے؟ یہ سمجھنے کے لیے تصور کرنا مفید ہے کہ اگر ان 26 الفاظ کو تاریخ سے مٹا دیا جائے تو کیا ہوگا۔
BBC
کمپنیوں کو اسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا جو ماضی میں بھی رکاوٹ بنی رہی۔ ایک راستہ یہ ہے کہ کسی چیز کی نگرانی نہ کریں اور سب کے لیے دروازے کھول دیں تاکہ کسی چیز کی ذمہ داری نہ لینی پڑے۔
مگر شاید یہ اس حلقے کے لیے ناقابل قبول ہو جو پیسے دے کر انٹرنیٹ چلاتے ہیں: اشتہار دینے والے۔ اگر انھوں نے نگرانی کا دفاع کیا تو وسیع مواد کے پیش نظر کمپنیوں کے پاس مخصوص الفاظ پر پابندی اور کڑی نگرانی کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچے گا۔
مثلاً اس سے نسلی یا جنسی تعصب پر مبنی مواد ہٹ سکتا ہے مگر ساتھ ہی بلیک لائیوز میٹر یا می ٹو جیسی تحریکوں کو بھی نقصان ہوسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی مدد سے متنازع اور ممنوع مواد کو بلا تفریق ہٹانا پڑے گا۔
ایسی کڑی نگرانی سے کئی ویب سائٹ خطرے میں پڑ سکتی ہیں اور وہاں مواد اتنا قابل غور یا دلچسپ نہیں رہے گا۔ آپ کو یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیسے مواد کی اجازت ہے، چاہے وہ طنز ہو یا رائے۔ ہم ایسے مواد کو پسند نہ بھی کرتے ہوں لیکن اس کو ہٹانے سے انٹرنیٹ تک رسائی کی آزادی کے اصول کی خلاف ورزی ہوگی۔
دوسری طرف سیکشن 230 کو ختم کرنے سے صارفین کی مدد کے لیے قائم کردہ ریویو ویب سائٹس جیسے ایٹسی اور یلپ کو بھی نقصان ہوگا کیونکہ ان کے پاس گوگل یا فیس بک کی طرح بڑے وسائل نہیں۔
شاید ایسے اقدام سے وکیپیڈیا جیسے پلیٹ فارمز پر مواد ناپید ہوجائے۔
سٹارٹ اپ کمپنیاں، جو شاید اگلا ٹک ٹاک بن سکتی تھیں، مقابلے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے مشکل میں پڑ جائیں کیونکہ ان کے پاس ایسے وسائل نہیں ہوں گے کہ وہ کسی کے جذبات مجروح کرنے والے مواد کو باقاعدگی سے ہٹایا کریں۔ اگر کسی نے ان کے خلاف مقدمہ کیا تو وہ اپنا دفاع بھی نہیں کر سکیں گے۔
یعنی صرف بڑی کمپنیاں اس مشکل سے نکل سکیں گی۔ نئے قوانین کے تحت سوشل میڈیا پر ذرائع ابلاغ یکطرفہ ہوجائے گا، جیسے ٹی وی یا اخبار کی صورت میں ہوتا ہے۔
یوں سیکشن 230 کے مسئلے کو حل کرنے کا ایسا کوئی طریقہ نہیں جس سے انٹرنیٹ متاثر نہ ہو۔ 27 سال قبل یہ 26 الفاظ آج بھی اہمیت کے حامل ہے کیونکہ ان سب کا تعلق جمہوریت سے ہے۔
جیسے ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ’کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ جمہوریت (اور سیکشن 230) کا ہر پہلو عمدہ ہے۔ درحقیقت یہ کہا گیا ہے کہ جمہوریت (اور سیکشن 230) حکومت کی بدترین شکل ہے۔ مگر یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جو وقتاً فوقتاً ہم نے آزمائی ہیں۔‘