مسافروں کو ’نماز کے لیے وقت‘ دینے پر نوکری سے نکالے گئے بس کنڈکٹر کی موت حادثہ یا خودکشی؟

بی بی سی اردو  |  Sep 02, 2023

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے بریلی ڈپو کے ایک بس کنڈکٹر کا مبینہ طور پر دو افراد کو نماز پڑھنے کا وقت دینے کے لیے بس روکنے پر کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا جبکہ پیر کی شب مین پوری کے کوسما ریلوے سٹیشن کے قریب ان کی لاش ملی ہے۔

ان کی لاش ملنے کے بعد سے موہت کا بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہے اور گرما گرم مباحثہ جاری ہے۔

سماج وادی پارٹی کے لیڈر اور اتر پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بھی اس معاملے پر ٹویٹ کرتے ہوئے موہت یادو کی موت پر غم کا اظہار کیا ہے۔

انھوں نے لکھا ’یوپی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے دو ملازمین کو صرف اس لیے معطل کرنا کیسا انصاف ہے کہ انھوں نے کسی کی نماز کے لیے صرف دو منٹ کی تاخیر کی؟ اس ہراسانی سے پریشان ہو کر ایک شخص نے خودکشی کر لی۔‘

انھوں تعزیت کرتے ہوئے مزید لکھا: ’ہم آہنگی کے لیے مشہور اس ملک میں خیر سگالی کی اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ یہ بدقسمت، قابل مذمت، شرمناک ہے۔ یوپی ٹرانسپورٹ کے ہر ایک ملازم کو اس حکومت سے متاثرہ کے خاندان کے لیے معاوضے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ آج ایک کے ساتھ ایسا ہوا ہے، کل یہ کسی اور کے ساتھ ہو گا۔‘

معروف مصنفہ صبا نقوی نے موہت یادو کی موت کو انسانیت کا مظاہرہ کرنے کی افسوسناک کہانی کہا ہے جبکہ آرٹیکل 19 انڈیا نامی صارف نے لکھا: ’پیارے انسان موہت ہمیں معاف کرنا۔ تمہاری اچھائی، تمہاری ہمدردی، تمہاری انسانیت، تمہاری دوسرے مذہب کے لیے عزت ہی تمہاری موت کا سامان بن گئی۔ آج کے دور میں نفرتوں کے جال میں نہ الجھ کر ، سیاسی چال میں نہ پھنس کر اپنی زندگی انسانیت پر قربان کر گئے۔ ریسٹ ان پیس۔‘

https://twitter.com/Article19_India/status/1696474904625824079

ان کے علاوہ بہت سے لوگ اس بارے میں ٹویٹ کر رہے ہیں اور بہت سے لوگوں نے ان کے لیے کیٹو پر امداد کی مہم میں بھی شرکت کی ہے۔ ان لوگوں نے 25 لاکھ امداد کا ہدف رکھا ہے جو بہت جلد پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔

موہت کے چچازاد بھائی پنکو یادو نے فون پر بتایا کہ انھیں اس امداد کا علم ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کچھ مسلمان موہت کے گھر والوں کی مالی امداد کر رہے ہیں۔ ایک صحافی نے موہت کی اہلیہ کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیل لی ہے اور وہ ان کے لیے چندہ اکٹھا کر رہے ہیں۔ جبکہ ان کے گھر تعزیت کرنے والوں کا تانتا لگا ہوا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر ایکٹو صحافی اور فیکٹ چیک کرنے والی ویب سائٹ آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر نے کیٹو کا لنک شیئر کرتے ہوئے بتایا کے ان کی ٹویٹ کے وقت تک 21 لاکھ 60 ہزار روپے جمع ہو چکے ہیں صرف تین لاکھ 40 ہزار بچتے ہیں۔

https://twitter.com/zoo_bear/status/1697850552095560035

حادثہ یا خودکشی؟

جی آر پی (گورنمنٹ ریلوے پولیس) کے مطابق موہت ریل کی پٹری عبور کر رہا تھا کہ ٹرین کی زد میں آ گیا۔ لیکن موہت کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ اس نے مالی مجبوریوں کی وجہ سے خودکشی کی ہے۔

موہت کا تعلق مین پوری کے گاؤں نانگلا خوشحال پور سے تھا۔ لواحقین کا دعویٰ ہے کہ موہت کی نوکری سے معطلی کے بعد وہ معاشی طور پر پریشان رہنے لگے تھے۔

تاہم جی آر پی کا کہنا ہے کہ انھیں موہت یادو کی خودکشی کے بارے میں علم نہیں ہے۔ جی آر پی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موہت کے گھر والوں نے خود لکھا ہے کہ موہت ریلوے ٹریک کراس کررہے تھے اور ٹرین کی زد میں آکر ان کی موت ہوگئی۔

مین پوری میں جی آر پی کے قائم مقام سٹیشن انچارج اوم کار سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ’ہمارے علم میں خودکشی جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ واقعہ پیر کی رات کو پیش آیا۔ مرنے والے کی شناخت موہت یادو کے طور پر کی گئی ہے۔ رشتہ داروں کے مطابق موہت کے ٹریک کراس کرنے کے دوران یہ حادثہ پیش آیا۔ لاش کو پوسٹ مارٹم کے بعد لواحقین کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

’کیا اب مسلمانوں کو گھر میں نماز ادا کرنے کے لیے بھی اجازت لینا پڑے گی؟‘

’اس کا چہرہ لال ہو رہا ہے، اب اسے پیٹھ پر مارو‘

موہت کے اہل خانہ کا موقف

لیکن موہت کی موت کے حوالے سے ان کے چھوٹے بھائی منوج یادو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ہمارے بھائی کی ٹرین حادثے میں موت ہو گئی ہے۔ اسے روڈ ویز میں نوکری سے اس الزام میں نکال دیا گیا تھا کہ انھوں نے دو مسافروں کو نماز پڑھنے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے بس کو روک دیا تھا۔‘

’لیکن انھوں نے دوسرے مسافروں کو بیت الخلا کے استعمال کرنے کے لیے بس رکوائی تھی۔ جب دو لوگوں نے ان سے نماز پڑھنے کی مہلت مانگی تو اس نے کہا کہ جب تک یہ لوگ بیت الخلا کا استعمال کریں گے آپ لوگ اپنی نماز پڑھ لو۔‘

موہت کے وائرل ویڈیو میں موہت کو بھی یہی کہتے سنا جا سکتا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ ’کسی نے بس کے اندر سے نماز کی ویڈیو تو بنا لی لیکن پیشاب کرنے والے کی ویڈیو نہیں بنائی۔ جبکہ ہم نے بس پیشاب کرنے والوں کے لیے روکی تھی۔‘

موہت کے بھائی نے کہا: ’وہ ڈپریشن کا شکار تھے اور گاؤں سے چند کلومیٹر دور کوسما ریلوے سٹیشن پر خودکشی کر لی۔‘

ریاست کے ٹرانسپورٹ کے وزیر دیا شنکر سنگھ کا بیان بھی سامنے آيا ہے جس میں انھوں نے کہا کہ اگر نوکری کی وجہ سے خودکشی کی ہوتی تو یہ بات تین ماہ پہلے کی ہے اسی وقت ایسا ہونا چاہیے تھا۔ بہر حال انھوں نے اس واقعے کو افسوسناک بتایا اور اس پر مزید جانچ کی بات کہی ہے۔

https://twitter.com/MohdWaseemINC/status/1696911007329964071

’نوکری کھونے سے پریشان‘

منگل کو موہت یادو کی لاش کی ان کے آبائی گاؤں میں آخری رسومات ادا کر دی گئی۔ کنٹریکٹ ختم ہونے کے بعد سے ہی کنبہ کے لوگ موہت کی مالی اور ذہنی پریشانیوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

موہت یادیو کے والد راجندر سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ’جب سے موہت کی نوکری چھوٹی وہ پریشان رہنے لگا تھا۔ کہتا رہتا تھا کہ ہم کیا کریں، کہاں جائیں۔ بس یہی بات ہے۔‘

ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’یہ واقعہ کیسے ہوا، یہ ہمارے سامنے کا واقعہ نہیں ہے، لیکن وہ نوکری چھوٹ جانے کے بعد سے بہت پریشان تھا، میرا بیٹا چلا گیا، اب ہم کیا کریں؟‘

موہت کی اہلیہ رنکی یادو نے روتے ہوئے میڈیا کو بتایا کہ ’ہمارے شوہر روڈ ویز میں کنڈکٹر کے عہدے پر تھے۔ بس کو روک کر نماز پڑھانے کے الزام میں نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان کا کوئی قصور نہیں تھا، انھیں کنٹریکٹ ختم ہونے کا غم تھا۔‘

موہت کے بہنوئی پنکو یادیو نے بی بی سی کو بتایا: ’جب سے موہت کی نوکری گئی، وہ بے کار ہو گیا تھا، صبح سویرے گھر سے نکل جاتا تھا، اس کی بیوی اور بچے کے اخراجات گھر والے اٹھا رہے تھے۔‘

موہت کی موت سے کنٹریکٹ ورکرز غمزدہ

گاؤں کے سربراہ اکھلیش این موہن نے بھی بی بی سی سے موہت کی مالی پریشانی کی تصدیق کی۔

انھوں نے کہا: ’موہت نے حادثے سے پہلے اپنے گھر والوں سے بات کی تھی۔ وہ مالی بحران سے بہت پریشان تھا۔ اس کا کوئی کاروبار نہیں تھا۔‘

بریلی کے کنٹریکٹ ورکرز بھی موہت یادو کی موت سے غمزدہ ہیں۔

موہت کے شناسا کنٹریکٹ ورکر روی پرکاش نے میڈیا کو بتایا: ’موہت کا کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا تھا، اس پر محض نماز پڑھنے کے لیے بس روکنے کا الزام لگایا گیا تھا، لیکن یہ شکایت درست نہیں تھی۔ جس شخص نے ایسا کیا، اس نے چھوٹی سی بات کو بڑا بنا دیا۔ موہت نے نوکری بچانے کے لیے بہت جگہ بھاگ دوڑ کی، لکھنؤ بھی گئے۔ وہ نوکری چھوٹنے کے بعد سے بہت زیادہ ٹینشن میں تھے۔ بعد میں ہمیں ان کی موت کا علم ہوا۔‘

معاملہ کیا تھا؟

دراصل جون کے پہلے ہفتے میں ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں بریلی ڈپو کی ایک بس رکی دکھائی گئی تھی۔ دو لوگ اس کے قریب ہی نماز پڑھ رہے تھے۔

اس معاملے میں بس کے ایک مسافر نے الزام لگایا تھا کہ بس ڈرائیور اور کنڈکٹر نے کچھ لوگوں کو نماز پڑھنے کے لیے رام پور کے قریب بس روکی تھی۔

اس کے بعد اس معاملے کی جانچ ہوئی جس کے بعد موہت یادو کا کنٹریکٹ ختم کر دیا گیا جبکہ ڈرائیور کو فارغ کر دیا گیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More