مشن آدتیہ کی اُڑان: خلا میں انڈیا کا بڑھتا اثر و رسوخ اور نجی خلائی کمپنیوں کے ساتھ شراکت

بی بی سی اردو  |  Sep 02, 2023

چاند پر چندیان تھری کی کامیاب لینڈنگ کے بعد انڈیا میں خلائی تحقیق کے ادارے اسرو نے اب سورج کے مطالعے کے لیے شری ہریکوٹا کے ستیش دھون خلائی مرکز سے ایک سولر مشن ’آدتیہ -ایل ون‘ خلا میں کامیابی سے بھیج دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کہکشاں میں خلائی جستجو کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔

یہ مشن بھی چندریان کی طرح پہلے زمین کے مدار میں اونچائی پر گردش کرے گا اور اس کے بعد وہاں سے یہ مزید تیزی سے سورج کی طرف پرواز کرتا ہوا زمین سے تقر یباً 15 لاکھ کلومیٹر کی اونچائی پر پہنچ کر زمین اور سورج کی کشش کے درمیان ایک ایسےمقام پر رُکے گا جسے سائنسی اصطلاح میں ایل ون کہا جاتا ہے۔

آدتیہ خلائی جہاز یہ فاصلہ تقریباً چار مہینے میں طے کرے گا۔ یہاں سے وہ سورج میں ہونے والی مختلف سرگرمیوں، اندرونی اور باہری فضا وغیرہ کا مطالعہ کرے گا۔

اس سے قبل امریکہ اسی طرح کا ایک مشن سورج کے مزید قریب ایل ٹو زون میں بھیج چکا ہے۔ انڈیا کی خلائی تحقیق اور جستجو میں اسے ایک بڑا قدم سمجھا جا رہا ہے۔ زمین سے سورج کا فاصلہ تقریباً 15 کروڑ کلومیٹر ہے۔

خلا میں انڈیا کا بڑھتا اثر و رسوخ

انڈیا 23 اگست کو چندریان تھری چاند پر اُتار کر امریکہ، روس اور چین کے بعد یہ کامیابی حاصل کرنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا۔ یہ خلائی جہاز چاند کے جنوبی قطب پر اترا ہے جہاں ابھی تک کسی بھی ملک کا مشن نہیں پہنچا ہے۔

یہ انڈیا کے سائنسدانوں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ شیو نادر یویورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر آکاش سنہا کہتے ہیں کہ ’چندریان تھری کے روور کی بہت سمارٹ ڈیزائننگ کی گئی ہے۔ چھہ پہیوں والی یہ چھوٹی سی مشین ایک کار کی طرح ہے۔ یہ اپنے فیصلے خود کرتا ہے، اپنے راستے منتخب کرتا ہے۔ چاند کی سطح فضا اور درجۂ حرارت وغیرہ کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ اپنا کام بخوبی انجام دے رہا ہے۔‘

انڈیا نے خلائی تحقیق اور جستجو کا آغاز 1950 اور1960 کے عشرے میں ایک ایسے وقت میں کیا تھا جب ملک غربت اور افلاس کی گرفت میں تھا۔ سنہ 1963 میں جب اس نے اپنا پہلا راکٹ چھوڑا تھا اس وقت کسی کے وہم گمان میں نہیں تھا وہ امریکہ اور روس جیسے ترقی یافتہ ملکوں سے کسی مقابلے میں ہے۔

لیکن آج انڈیا دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت ہے۔ خلائی ٹیکنالوجی میں اب وہ یقینی طور پر دنیا کے بڑے ملکوں امریکہ، روس، چین اور یورپی خلائی ایجنسیوں کی صفوں میں کھڑا ہے۔

انڈیا نے کے چندریان تھری مشن پر تقریباً 70 ملین ڈالر خرچ ہوئے ہیں جو کرسٹو فر نولن کی 2014 کی خلائی مشن پر بننے والے فلم ’انٹرسٹیلر‘ پر آنے والے 131 ملین ڈالر کے اخراجات کے نصف سے بھی کم ہے۔

خلائی تحقیق و ترقی کو عموماً امیر ملکوں کی مہم جوئی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا کی کامیابی سے دنیا کے ابھرتے ہوئے ملکوں میں بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک نیا جوش اور جذبہ دیا ہے۔

چاند یا سورج کی تحقیق اور اس سے حاصل ہونے والے علم پر کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہیں ہوتی۔ یہ انسانی ترقی اور پوری دنیا کی انسانیت کے لیے وقف ہوتی ہے۔

انڈین سائنسدانوں کو چاند اور سورج کی تحقیق سے جو بھی حاصل ہو گا، اس سے پوری دنیا کو فائدہ ہو گا۔ دنیا نے جو بھی ترقی کی وہ سائنسی تحقیق اور نئی نئی ایجادات کے سبب ہی ممکن ہوئی ہے۔

چندریان کی کامیابی نے اںڈیا میں ایک نیا ولولا اور جوش پیدہ کیا ہے۔ ایک طالبہ ادا شاہین کہتی ہیں کہ ’یہ پورے ملک کے لیے فخر کی بات ہے۔ یہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ انڈیا تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔‘

ایک نوجوان شاہ رخ خان نے انھیں جذبات کا اظہارکرتے ہوئے کہا ’مجھے خوشی ہے کہ انڈیا نے خلا میں بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے۔ میرا بچپن کا خواب پورا ہوا ہے۔ میں بچپن سے فوٹو دیکھتا ہوا آیا ہوں کہ چاند پر امریکہ کا جھنڈا موجود ہے۔

’میری تمنا تھی کہ انڈیا کا بھی پرچم وہاں پہنچ سکے۔ میرا بچپن کا خواب پورا ہو گیا۔‘

ان خیالات کے ساتھ سات بعض ایسے بھی ہیں جو سمبھتے ہیں کہ سائنسدانوں کو خلائی جستجو سے پہلے زمین کے مسائل کے حلپر توجہ دینی چاہیے۔ ان کے خیال میں اس طرح کے خلائی مشن سے کچھ حاصل نہیں ہو گا اور یہ ملک کے اصل مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کا ایک فریب ہے۔

فراز فاخری ایک فلم ساز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’چندریان تھری کی کامیابی سے پرائیویٹ خلائی سکٹر کو بہت بڑا فروغ ملا۔

’روور نے چند ہی دنوں میں چاند پر سلفر اور دوسری معدنیات کی موجوگی کا پتا لگا لیا ہے۔ اس نے دن اور رات میں بدلتے ہوئے درجۂ حرارت کی غیر معمولی تبدیلیوں کو بھی درج کیا ہے۔ یہ خلائی مشن ایک بڑی کامیابی ہے اور میرے خیال میں اب انڈیا خلائی ریس میں شامل ہو گیا ہے۔‘

اسرو کے ساتھ نجی خلائی کمپنیوں کا وجود

انڈیا میں خلائی تحقییق اور ترقی کا کام صرف انڈیا کا تحقیقی ادارہ اسرو ہی نہیں کر رہا ہے۔ ملک میں میں حالیہ سالوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی بہت سی نجی کمپنیاں وجود میں آئی ہیں۔

یہ سٹارٹ اپس کمپنیاں خلائی شعبے میں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ ان میں سے کئی بین الاقوامی اہمیت اختیار کر رہی ہیں۔

چاند پر چندریان تھری کی لینڈنگ کے بعد اسرو کے ڈائرکٹر نے اس کامیابی کے لیے اسرو کے سائنسدانوں کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ انڈیا کی بہت سی پرائیویٹ خلائی کمپنیوں کی بھی تعریف کی۔ ان نجی ٹکنولوجی کمپنیوں نے اس خلائی مشن میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

کچھ سال پہلے تک خلائی ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کا کام صرف اسرو اور اس سے منسلک ٹکنولوجی کے سائنسی اداروں کے ہاتھ میں تھا لیکن مودی حکومت نے 2020 میں خلائی ٹیکنالوجی کا شعبہ پرائیوٹ کمپنیوں کے لیے کھول دیا۔

گذشتہ چار برس میں تقر یباً ڈیڑھ سو پرائیوٹ خلائی کمپنیاں وجود میں آ چکی ہیں۔ یہ ٹیک سٹارٹ اپس بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کمپنیوں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

اسرو کے خلائی مشن میں تو ہائی ٹیکنالوجی کی ان سٹارٹ اپس نجی کمپینوں کا رول بڑھ ہی رہا ہے۔ یہ کمپنیاں اپنے طور پر بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔ 2022 میں سکائی روٹ نام کی ایک پرائیوٹ کمپنی نے انڈیا میں اپنے بنائے ہوئے راکٹ سے اپنا سیٹلائٹ خلا میں بھیجا۔

یہ پہلا موقع تھا جب انڈیا میں کسی پرائیویٹ کمپنی نے اپنے بنائے ہوئے راکٹ سے اپنا سٹیلائٹ کامیابی سے خلا میں بھیجا تھا۔

حیدرآباد میں واقع یہ کمپنی اس برس کے اواخر تک اپنے راکٹ سے بڑے مصنوعی سیارے خلا مین بھجنے کی تیاریاں کر رہی ہے۔

امریکہ اور یورپ کے مقابلے انڈیا سے مصنوعی سیارے بھیجنا قدرے سستا پڑتا ہے۔ اس کے سبب ان پرائیویٹ خلائی کمپنیوں کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ عالمی سیاسی وجوہات سے روس اور چین خلائی تجارت میں اب کچھ حد پک پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان حالات میں انڈیا کے خلائی تحقیق کے ادارے اسرو کے ساتھ ساتھ اب یہ نجی انڈین خلائی کمپنیاں بھی دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کی مارکٹ اس وقت چھ ارب ڈالر کی ہے۔ آئندہ دو برس میں یہ تین گنا ہوجانے کی توقع ہے۔

روزنامہ نیو یارک ٹائمز میں شائع ایک مضمون کے مطابق ایلون مسک کی سپیس ایکس کمپنی مارکیٹ میں ایک نئے چیلنج کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ سپیس ایکس خلا میں جانے کے لیے خلائی شٹل راکٹ استعمال کرتی ہے یعنی خلائی راکٹ جو بار بار استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

وہ بھاری وزن اور بڑے سائز کے سیارے خلا میں لے جانے کی اہل ہے جس کے سبب اس راکٹ کے ذریعے خلا میں مصنوعی سیارہ بھیجنا انڈیا سے بھی سستا پڑتا ہے۔

اںڈیا کی پرائیوٹ کمپنیاں اب خلائی ٹیکنالوجی میں سپیشلائزڈ شعبوں میں کام کر رہی ہیں۔ وہ نہ صرف اسرو کے ساتھ محتلف خلائی شعبوں میں اشتراک کر رہی ہیں بلکہ اب وہ امریکہ اور یورپی خلائی اداروں کی بھی مدد کر رہی ہیں۔

اسرو اب ان نجی کمپنیوں کے اشتراک سے زیادہ اور تیزی کے ساتھ نئے مشن پر کام کرنے کا مجاز ہو رہا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More