مصنوعی ذہانت کے دور میں پیدا ہونے والی چھ ملازمتیں کون سی ہیں اور انھیں حاصل کیسے کیا جا سکتا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 01, 2023

’متعدد ایسی تحقیقات ہیں جو بتاتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت (اے آئی) جتنی ملازمتیں ختم کر رہی ہے اس سے زیادہ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کر رہی ہے۔‘

’سنگیولیریٹی ایکسپرٹس‘ ایک ایسا سٹارٹ اپ ہے جو ملازمت کے متعلق مشورے اور تجاویز دیتا ہے۔ اس کی سی ای او ایلینا ایبانیز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ مصنوعی ذہانت کی وجہ سے نئے کیریئر بن رہے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ مصنوعی ذہانت ’تمام شعبوں میں روایتی پیشوں کو تبدیل کر رہی ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ ملازمت کے نئے مواقع کہاں ہیں، سوال یہ ہے کہ ہمیں اپنے پیشے میں مصنوعی ذہانت کی وجہ سے تخلیق ہونے والے نئے مواقعوں کو حاصل کرنے کے لیے کیا ٹرینگ کرنی چاہیے۔

ارجنٹائنکی ’مائیکل پیج سٹافنگ‘ کمپنی میں ٹیکنالوجی کے ماہر فرانسسکو سکیسررا نے بی بی سی کو بتایا ’ ہم مارکیٹ میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر ٹیکنالوجی کے شعبے اور روایتی صنعتوں دونوں میں، ایسا نہیں ہے کہ مصنوعی ذہانت ملازمتوں کو تباہ کرنے کے لیے آ رہی ہے۔‘

’ہم شاید ایسے کاموں کے لیے انسانوں کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں جو بہت بنیادی ہیں۔ میرے خیال میں بڑا چیلنج یہ ہے کہ پہلے سے موجود عہدوں کو ایک مختلف اضافی قدر حاصل کرنے کے لیے تیار کیا جائے اور یہ لین دین تک محدود نہ رہے۔ مصنوعی ذہانت اس میں مدد کر سکتی ہے۔‘

یہ ایک محدود سوچ ہے کہ مصنوعی ذہانت سلیکون ویلی اور بڑی ٹیک کمپنیوں تک محدود رہنے والی چیز ہے۔

مثال کے طور پر گذشتہ سال اقوام متحدہ کا ڈیپارٹمنٹ آف پیس آپریشنز اے آئی اور مشین لرننگ کے ماہر کی تلاش میں تھا۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ اقوام متحدہ کے انٹیریگیشنل کرائمز اینڈ جسٹس ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں اے آئی اینڈ روبوٹکس سینٹر کام کرتا ہے۔

اس کا راستہ روکنا ناممکن ہے

بہت سے لوگ مصنوعی ذہانت کو منفی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ انھیں نہ صرف اس کی وجہ سے ملازمتوں پر ہونے والے اثرات کی فکر ہے بلکہ اس بات کا بھی خظرہ ہے کہ یہ بہت طاقتور بن سکتی ہے۔ اس کے باوجود ہر کوئی اس کے بارے میں منفی نظریہ نہیں رکھتا۔

ورلڈ اکنامک فورم کی 2020 کی رپورٹ کے مطابق افرادی قوت کو ’توقع سے زیادہ جلدی‘ آٹومیٹ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے 2025 تک 85 ملین آسامیاں ختم ہو جائیں گی۔ لیکن اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ ’روبوٹک انقلاب کی وجہ سے 97 ملین نئی ملازمتیں بنیں گیں۔‘

Getty Images

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے ڈائریکٹر جنرل گلبرٹ ایف ہونگبونے اپریل میں کہا تھا کہ ’مصنوعی ذہانت رک نہیں سکتی۔ ہمیں یہ قبول کرنا ہو گا کہ یہ زیادہ سے زیادہ ترقی کرے گی۔‘

انھوں نے ای ایف ای ایجنسی کو بتایا ’ہمیں معلوم ہے کہ عام طور پر ٹیکنالوجیکل اور ڈیجیٹل ترقی سے جتنی ملازمتیں ختم ہوتی ہیں ان سے زیادہ پیدا ہوتی ہیں۔‘

آئی ایل او کی ماہر معاشیات جینین برگ نے بی بی سی کو بتایا ’یہ ملازمتوں کا اختتام نہیں ہے۔ یہ اس ٹیکنالوجی کو شامل کرنے کے بارے میں ہے تاکہ ہمیں مزید موثر بنایا جا سکے، تاکہ ہمارے کام کرنے میں ہماری مدد کی جا سکے۔‘

’ایسے پیشے ہیں جو بننے جا رہے ہیں، لیکن ابھی ہم اندازہ نہیں لگا سکتے کہ وہ کن چیزوں پر مشتمل ہوں گے۔‘

وہ اس بات کو مانتی ہیں کہ ’بہت سے لوگ ہیں جو کچھ کمپنیوں میں اے آئی سسٹم کی تربیت کر رہے ہیں جن میں کام کرنے کے حالات اتنے اچھے نہیں ہیں۔‘

یہ ان بہت سی مشکلات میں سے ایک ہے جن کا اس سیکٹر کو سامنا ہے۔ کئی ہزاروں ورکرز ہیں جن کے بغیر یہ اے آئی سسٹم آج موجود ہی نہ ہوتا، وہ کم آمدنی کما رہے ہیں اور غریب ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

بہت سارے تنازعات کے باوجود مصنوعی ذہانت ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔

’اہم بات یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ آرام دہ محسوس کریں اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو پروگرامنگ آنی چاہیے لیکن یہ جان لیں کہ جاب مارکٹ میں ملازمت پر رکھنے والے ایسے لوگوں کی تلاش میں ہوں گے جو اپنے کام کے لیے مصنوعی ذہانت کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کرتے ہیں،‘

ہم آپ کو چند ایسی ملازمتوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو اے آئی کے میدان میں پیدا ہو رہی ہیں۔

1۔ پرامپٹ انجینیئر

تصور کریں کہ میں آپ سے کچھ مانگتا ہوں لیکن میں آپ کو مطلوبہ معلومات یا سیاق و سباق نہیں دیتا۔ یقیناً آپ میری مدد کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ہو سکتا ہے آپ کا جواب اتنا درست نہ ہو۔ لیکن اگر مزید معلومات ہوتیں تو شاید جواب زیادہ بہتر ہوتا۔

ہم مختلف جنریٹیو اے آئی ماڈلز کی مثال لیتے ہیں جو قدرتی زبان (نیچرل لینگویج) سمجھنے میں زیادہ کار آمد ثابت ہو رہے ہیں یہ وہ زبان ہے جو میں اور آپ آپس میں بات چیت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایک پرامپٹ انجینیئر وہ ہوتا ہے جو پرامپٹس ڈیزائن کرتا ہے۔ پرامپٹس گزارشات ہوتی ہیں جو اے آئی ٹول کو دی جاتی ہیں۔

Getty Images

آے آئی ٹول ایک سوال کا بہترین جواب تب دیتا ہے جب پرامپٹ انجینیئر اسے صحیح معنوں میں متن کی شکل میں موثر ہدایات دیتا ہے جس میں درستگی اور سیاق و سباق ضروری ہوتے ہیں۔

مارچ میں ورلڈ اکنامک فورم نے اس پرامپٹ انجینیئر کو ’تین نئی ملازمتوں‘ میں شامل کیا جبکہ بزنس انسائڈر نے اسے جنریٹو اے آئی میں سب سے زیادہ مقبول ملازمت قرار دیا ہے۔ فوربز میگزین میں بھی یہی بات کی گئی۔

اپریل میں ٹائم میگزین نے کہا کہ اس قسم کی ملازمت کے لیے ’کمپیوٹر انجینیئرنگ کی ڈگری یا اعلی درجے کی پروگرامنگ میں مہارت‘ ہونا ضروری نہیں۔

کچھ لوگوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس ملازمت کے لیے تکینکی ٹرینگ ہونا ضروری نہیں ہے لیکن یہ کہتے ہیں کہ اس آسامی کے لیے مشکل صورتحال میں فیصلے کرنا، ڈیٹا کا تجزیہ کرنے اور تخلیقی صلاحتوں کا ہونا ضروری ہے۔

بی بی سی کی طرف سے دیکھی گئی متعدد ملازمتوں کے اشتہارات میں لکھا تھا کہ امیدوار کے لیے پرواگرامنگ زبانوں جیسے پائتھان اور ٹینسرفلو کے علم کے ساتھ ساتھ مشین لرننگ ماڈلز کا تجربہ بھی ہونا چاہیے۔

لیکن تمام ماہرین پرامپٹ انجینیئرنگ کے متعلق زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ ایک ایسا پیشہ ہے جو مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی کے پیش نظر ختم ہو سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف پنسلوانیا کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ایتھن مولک نے ٹویٹ کیا کہ ’مجھے شبہ ہے کہ پرامپٹ انجینئرنگ طویل مدت میں کوئی بڑا کاروبار نہیں بننے والا۔۔۔ یہ مستقبل کی ملازمت نہیں ہے۔‘

دوسرے لوگ اسے زیادہ مسابقتی ہونے کی مہارت کے طور پر دیکھتے ہیں، مثال کے طور پر، جیسا کہ مائیکروسافٹ ایکسل پہلے ہوتا تھا۔

بی بی سی فیوچر کے مصنف اور ایڈیٹر رچرڈ فشر نے لکھا کہ ’یہ کہا جاتا ہے کہ اگر آپ پرامپٹ انجینئرنگ میں اچھے ہیں، تو مصنوعی ذہانت آپ کی جگہ نہیں لے سکتی، اور آپ بڑی تنخواہ کی خواہش بھی رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا ایسا ہی ہوتا رہے گا۔‘

2۔ مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والے (اے آئی ریسرچر)

ان کا کردار تنظیموں کے پاس موجود مسائل اور حدود پر قابو پانے کے لیے مصنوئی ذہانت کو استعمال کرنے کے طریقوں کی نشاندہی کرنا ہے۔

لیڈز یونیورسٹی کی طرف سے شائع کیے گئے مصنوعی ذہانت سے متعلق پانچ سب سے بہترین ملازمتوں کے مضمون میں اے آئی ریسرچرز کے بارے میں لکھا گیا کہ وہ ’بڑے ڈیٹا سیٹس سے سیکھتے ہیں اور سیکھی گئی چیزوں سے نئے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی بنانے کے آئیڈیاز اور منصوبے بناتے ہیں جسے ڈیٹا سائنٹسٹ حقیقت میں بدل دیتے ہیں۔‘

Getty Images

مصنوعی ذہانت کے ریسرچر کے پاس سافٹ سکلز ہونی چاہییں انھیں اپنے جذبات پر قابو ہونا چاہیے، ان میں مشکل حالات میں فیصلے کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے، انھیں مشکلات کو برداشت کرنا آنا چاہیے اور اس کے اثرات سے جلدی باہر نکلنا آنا چاہیے اور ان میں بدلتی صورتحال کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی مہارت ہونی چاہیے۔

یونیورسٹی آف لیڈز کے مطابق یہ کلیدی مہارتیں ہیں، کیونکہ ’آپ جس آسامی پر ہوں گے اس میں آپ کو نئے انداز اور نئے طریقوں کے لیے اپنے ذہن کو استعمال کرنا ہوا گا۔‘

تکنیکی طور پر ’اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے اس بارے میں پیش گوئی کرنا کہ مصنوعی ذہانت کے پروگرام کیسے چلیں گے اور ’ریپڈ مائنر‘ یا ’سکیچ انجن‘ کا استعمال کر کے ڈیٹا کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت‘ بھی ضروری ہوں گی۔

ایلینا ایبانیز کے مطابق مصنوعی ذہانت کے ریسرچر کو تین شعبوں میں مہارت حاصل ہونی چاہیے جن میں سافٹ ویئر انجینئرنگ، شماریات اور کاروبار شامل ہیں۔

یعنی دوسرے الفاظ میں، یہ ایک مکمل پروفائل ہے جو اپنے تمام تکنیکی علم کو کاروبار کی بہتری کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔‘

3۔ نیچرل لینگوج پروسیسنگ کے ماہر

نیچرل لینگوج پروسیسنگ کے ماہرین کے بارے میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ وہ انسان دوست لسانیت میں مہارت رکھتے ہیں اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ ٹیم کی لینگوج پروسیسنگ میں مدد کرتے ہیں۔

Getty Images

عام طور پر اس پیشے کے لیے فلسفے، لسانیات یا ترجمے اور تشریح کی ڈگری چاہیے ہوتی ہے۔

اس میں زیادہ تکنیکی علم نہیں چاہیے ہوتا لیکن اگر نیچرل لینگویج پروسیسنگ میں مہارت ہو یا امیدوار کے پاس کمپیوٹیشنل لنگویسٹکس میں ماسٹرز کی ڈگری ہو تو اس کی سی وی زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے۔

کمپیوٹیشنل لنگویسٹکس ایک مختلف مضامین کا مرکب ہے جس پر کئی دہائیوں سے کام ہو رہا ہے۔ اس میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ بولے اور لکھے جانے والی زبان کی منطق مشینوں کو سکھائی جائے تاکہ بعد میں ماڈل ٹرینگ کے ذریعے وہ احکامات کی تکمیل کر سکیں۔

اس سے یہ بات بھی سمجھ آتی ہے کہ چیٹ باٹ کے پیچھے صرف ڈیٹا سائنسدان اور سافٹ ویئر انجینیئرز ہی نہیں ہوتے بلکہ فلسفے اور ٹیکنالوجی کے ماہر بھی ہوتے ہیں۔

4۔ روبوٹک پروسیس آٹومیشن کے ماہر

اس آسامی میں ایسے سافٹ ویئر سسٹمز کی مینیجنگ ہوتی ہے جس نے ایک کمپنی میں ایسے کام جنہیں بار بار کرنا ہوتا ہے اور کسی شخص کو خود کرنا ہوتے ہیں انھیں خودکار بنا دیتا ہے۔

Getty Images

ایلینا ایبانیز کے مطابق اس میں تربیت حاصل کرنے کے لیے متعدد ڈگریاں ہیں جیسے کہ پروگرامنگ اور خاص طور پر روبوٹک پروسیس آٹومیشن سے متعلق سپیشلائزیشنز ہیں۔

مائیکروسافٹ جیسی کمپنیوں کے نزدیک اگر کسی کمپنی نے روبوٹک پروسیس آٹومیشن کو اپنایا ہوا ہے تو ان کی پیداواری صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

مائیکرو سافٹ کی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ ’آر پی اے (روبوٹک پروسیس آٹومیشن) مختلف سرگرمیوں بشمولڈیٹا ٹرانسفر، کسٹمر پروفائلز کو اپ ڈیٹ کرنا، ڈیٹا انٹری، انوینٹری مینجمنٹ، اور دیگر پیچیدہ کاموں کو خودکار بنا کر آپ کے کاروبار کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے،‘

5۔ الگورتھم آڈیٹر

ایلینا ایبانیز وضاحت کرتی ہیں کہ الگورتھم آڈیٹر ایپلیکیشنز یا سسٹمز کے ایلگورتھم کا جائزہ لیتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ان میں ایسے تعصبات نہیں ہوں جن کی وجہ سے وہ جنس، نسل یا عمر کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کریں۔

Getty Images

درحقیقت الگورتھم آڈیٹرز کو اس بات کی عملی سمجھ ہونی چاہیے کہ الگورتھم لوگوں کو کیسے متاثر کر سکتے ہیں۔

ملازمت اور کیریئر کے سنگیولیریٹی ایکسپرٹس کے پیچ پر یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے الگورتھم کا باقاعدگی سے جائزہ لینے کے لیے ڈیٹا سائنسدانوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی اہمیت کے بارے میں معلوم ہوتا ہے جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ الگورتھم ’وہ شفاف، منصفانہ اور قابل وضاحت ہوں‘ جو ایک بار شائع ہونے کے بعد غیر جانبداری کو برقرار رکھتا ہے۔

’اس کے علاوہ، یہ ڈویلپرز کو تجاویز فراہم کرے گا کہ ماڈل کو لوگوں کے لیے مزید اخلاقی اور قابل فہم کیسے بنایا جائے۔‘

6۔ مصنوعی ذہانت کے علم کے رکھنے والے قانون اور اخلاقیات کے ماہر

انگلینڈ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ کے سکول آف لا کے ایسوسی ایٹ پروفیسر میتھلڈ پاویس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’چاہے آپ ٹیکنالوجی بناتے ہیں، اسے استعمال کرتے ہیں یا وہ مواد بناتے ہیں جس سے اس کی ٹریننگ ہوتی ہے، اس سے قطع نظر کہ آپ مصنوعی ذہانت سے جڑے نظام میں آپ کہاں آتے ہیں یہ آپ کے لیے اہم ہے کہ آپ کے پاس ایسے وکیل اور ماہراخلاقیات ہونے چاہییں جنھیں اے آئی کے بارے میں علم ہو۔‘

’ایسا کرنے سے آپ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ آپ کچھ ایسا نہیں کر رہے ہیں جسے بعد میں آپ کو ختم کرنا پڑے۔‘

Getty Images

کاپی رائٹس کے قانون، اخلاقیات اور نئی ٹیکنالوجیز کے ماہر پروفیسر میتھلڈ پاویس حکومتوں، مختلف تنظیموں اور کاروباری اداروں کو حساس ڈیٹا کو سنبھالنے پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے میں بھی مشورہ دیتے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ کچھ اہم سوالات جو مصنوعی ذہانت کی وجہ سے جنم لیتے ہیں وہ یہ ہیں کہ کیا انٹلیکچوئل پراپرٹی کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے جب مصنوعی ذہانت کو انٹرنیٹ یا سوشل نیٹ ورکس پر موجود معلومات کے ساتھ تربیت دی جاتی ہے؟

کیا ایسا کرنے سے رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے؟

پروفیسر میتھلڈ پاویس خبردار کرتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ اس بات کا ایک ممکنہ خطرہ ہے کہ آپ جو ٹیکنالوجی تیار کریں گے دوسرے اس کا غلط استعمال کریں گے، چاہے یہ آپ کا ارادہ کبھی بھی نہیں تھا۔‘

Getty Images

اُن کا مزید کہنا ہے کہ مال، مثال کے طور پر اس کا استعمال غلط معلومات پھیلانے، فراڈ کرنے، انتخابات کو غیر مستحکم کرنے کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔

اسی لیے یہ ضروری ہے کہ بنائی گئی اور استعمال کی گئی مصنوعی ذہانت کے قانونی، سماجی اور اخلاقی اثرات پر قابو پانے کے لیے ابتدا سے ہی طریقہ کار کو وضع کیا جائے۔

اور یہ قانون کا ایک ایسا شعبہ ہے جو مصنوعی ذہانت کی وجہ سے بن رہا ہے۔

ایسے وکلا کی ضرورت ہے جو ان دو قسم کی دنیا کو جوڑ سکیں۔

اس میں سے ایک تجارتی قانون ہے جس میں انٹلیکچوئل پراپرٹی شامل ہےاوردوسرے فوجداری قانون اور سائبرسکیوریٹی

یہ وہ دو دنیائیں ہیں جن کا کم و بیش ہی ایک دوسرے سے واسطہ پڑتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت ایک ایسی چیز ہے جو ان دونوں میں آتی ہے۔ ’یہ ایک ایسا پراڈکٹ ہے جس میں بڑی تجارتی صلاحیت ہے اور ساتھ ہی، غلط استعمال کی صلاحیت بھی ہے۔‘

ایک وکیل جو مصنوعی ذہانت کے میدان میں داخل ہونا چاہتے ہیں، مثال کے طور پر، ایک ایسی کمپنی کو مشورہ دیتا ہے جو تجارتی قانون کے فریم ورک اور انٹرنیٹ میں ریگولیٹری فریم ورک کے ساتھ ’ایک بہترین مصنوعی ذہانت کا پروڈکٹ مارکیٹ میں‘ لانا چاہتی ہے۔

Getty Images

پروفیسر میتھلڈ پاویس تخلیقی صنعتوں میں مصنوعی ذہانت کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔ خاص طور پر مصنوعی ذہانت کے ساتھ تیار کردہ مواد میں مہارت رکھتے ہیں جن میں آوازیں اور چہرے، حتہ کہ ’انسانوں کی ڈیجیٹل کلوننگ‘ بھی شامل ہے۔

وہ سٹارٹ اپس کو مشورہ دیتے ہیں جو یہ بات ’یقینی بنانا چاہتے ہیں‘ کہ کلوننگ ٹیکنالوجی جو وہ تیار کر رہے ہیں وہ قانون کی خلاف ورزی نہیں کر رہی ہے۔

پروفیسر میتھلڈ پاویس کہتے ہیں کہ ’میں ان فنکاروں کے ساتھ بھی کام کرتا ہوں جو مصنوعی ذہانت کی وجہ سے آنے والے انقلاب میں حصہ لینا چاہتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ وہ جو اثاثے لاتے ہیں، جیسے کہ ان کی آواز کی ریکارڈنگ، ان کی پرفارمنس، کا غلط استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اور وہ مارکٹ میں اپنے ہی حریف نہ بن جائیں‘

انھوں نے اپنی بات کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’میں ان کمپنیوں اور میڈیا آؤٹ لیٹس کے ساتھ بھی کام کرتا ہوں جو ایسی مصنوعات کو کمیشن کرنا چاہتے ہیں جن میں مصنوعی ذہانت شامل ہوتی ہے، لیکن وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ سب کچھ مناسب اور اخلاقی طور پر کیا جائے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More