برآمد، سمگلنگ یا سٹے بازی: چینی کی قیمت میں ریکارڈ اضافے کی وجہ کیا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Sep 01, 2023

Getty Images

پاکستان میں اس وقت چینی کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔ چینی کی قیمت میں گذشتہ کئی مہینوں سے اضافہ جاری ہے اور اس کی قیمت، جو اس سال کے شروع میں 85 سے 90 روپے فی کلو تھی، صرف آٹھ مہینوں میں 180 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔

آٹھ ماہ میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے ایک عام صارف گذشتہ سال کے اختتام پر چینی کی قیمت کے مقابلے میں اس وقت 90-100 روپے زائد قیمت ادا کر رہا ہے۔

ملک میں اشیائے خوردو نوش کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے وفاقی ادارہ شماریات نے ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی قیمت کو گذشتہ ہفتے اختتام تک 156 روپے سے 165 روپے کلو کے درمیان ظاہر کیا ہے تاہم ملک کے مختلف حصوں میں چینی 180 روپے کلو سے زائد پر دستیاب ہے۔

ملک کی اناج منڈیوں میں کام کرنے والے تاجروں کے مطابق اس وقت چینی کی ایکس فیکٹری قیمت 168 روپے پر موجود ہے۔ ہول سیل پر یہ قیمت 172 سے 175 روپے تک پہنچ چکی ہے اور اس کی ریٹیل قیمت 180 روپے فی کلو یا اس سے زائد سطح پر پہنچ چکی ہے۔

پاکستان میں چینی کی قیمت میں اس اضافے کی ایک بڑی وجہ گذشتہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے جنوری کے مہینے میں چینی کی بیرون ملک ایکسپورٹ کو قرار دیا جا رہا ہے جس کے بعد مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی۔

معیشت سے منسلک افراد اور تجزیہ کار چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ چینی کی برآمد کے فیصلے کو قرار دیتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ملک میں چینی کی ذخیرہ اندوزی، سٹے بازی اور سمگلنگ کو بھی اس کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب ملک میں کام کرنے والی شوگر ملز بھی اس وقت تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے مطالبے پر چینی برآمد کرنے کی اجازت ملنے کے بعد چینی کی قیمت بڑھنے پر انھیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے تاہم شوگر ملز کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے اس تاثر کی نفی کی گئی ہے اور اسے ’حقائق کے برعکس‘ قرار دیا ہے۔

Getty Imagesچینی برآمد کرنے کے فیصلے نے کیا قیمت کو بڑھایا؟

پی ڈی ایم کی گذشتہ حکومت کی جانب سے اس سال جنوری کے مہینے میں چینی کی برآمد کے فیصلے کی منظوری دی گئی۔ مارچ کے مہینے میں چینی کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

اس بارے میں معاشی امور کے سینئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب برآمد کرنے کا فیصلہ لیا گیا اور جتنے چینی سٹاک کے بارے میں اعداد وشمار دیے گئے تھے ان کا جب آزادانہ جائزہ لیا گیا تو چینی کا اتنا ذخیرہ موجود نہیں تھا اور جو کھپت بتائی جا رہی ہے وہ اصل کھپت سے کم ہے۔‘

’اس وقت کے ایف بی آر اور وزارت صنعت و پیداوار کے اعداد و شمار میں فرق تھا، خاص کر چینی کے سٹاک کے نمبرز میں فرق تھا۔ تاہم ایک سیاسی فیصلہ کیا گیا جس سے شوگر ملز مالکان نے دو فائدے اٹھائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ایک تو انھوں نے غیر ملکی مارکیٹ سے چینی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا۔ دوسری جانب جب یہاں سے چینی برآمد کی گئی تو جو چینی 85 روپے کلو تھی وہ 180 روپے تک پہنچ گئی تو اس کا انھوں نے فائدہ اٹھایا۔‘

ماہر اجناس امور شمس الاسلام نے بھی چینی کی برآمد کے فیصلے کو غلط قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں مارچ کے مہینے کے بعد چینی کی کھپت میں عموماً اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے کیونکہ ایک جانب گرمی کے سیزن کی وجہ سے چینی کی کھپت بڑھ جاتی ہے تو دوسری جانب مخلتف تہواروں کی وجہ سے بھی اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

Getty Imagesکیا سمگلنگ اور سٹے بازی نے بھی چینی کی قیمت بڑھائی؟

پاکستان میں چینی کی پڑوسی ملک افغانستان سمگلنگ بھی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ چینی کی قیمت میں موجودہ اضافے کی ایک وجہ سمگلنگ بھی بتائی جا رہی ہے۔

شہباز رانا نے اس سلسلے میں کہا ’یہ بات صحیح ہے کہ ایک جانب چینی برآمد ہوئی تو دوسری جانب سمگلنگ نے بھی قیمت کو بڑھایا۔‘ انھوں نے کہا کہ سمگلنگ کا ہمیشہ اس میں ایک کردار رہا ہے اور اس بار بھی رہا ہے۔

تاہم انھوں نے کہا ’جب چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تو اس وقت جو اعداد و شمار پیش کیے گئے تو وہ صحیح ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اس وقت کہا گیا تھا کہ نومبر 2023 تک ملک کے چینی سٹاک دو مہینے کی کھپت کے لیے کافی ہوں گے لیکن اب تو اس سٹاک کے ختم ہونے کی بات ہو رہی ہے اور اب لگتا ہے کہ شاید ہمیں چینی کی درآمد کرنی پڑے۔‘

چیئرمین کراچی گروسری ہول سیلرز ایسوسی ایشن رؤف ابراہیم نے بی بی سی سے بات کرتے بتایا کہ ’چینی ایکسپورٹ کرنے کے فیصلے نے چینی کی قیمت کو بڑھایا تاہم اس کے ساتھ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور سٹے بازی بھی چینی کی قیمت کو بڑھا رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک دن میں چینی کی قیمت میں چار روپے اور اگلے روز پانچ روپے کا بڑھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ اس میں سٹے بازی جاری ہے۔‘

انھوں نے اس بات کی نشاندھی کی کہ ’شوگر ملوں کی جانب سے جو ڈیلیوری آرڈر جاری کیا جاتا ہے وہ اکثر بے نامی ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شوگر ملوں کی جانب سے جو چینی فیکٹریوں کو فراہم کی جاتی ہے اس کے ڈیلیوری آرڈر پر تو اس فیکٹری کا نام اور اس کا سیلز ٹیکس نمبر موجود ہوتا ہے تاہم انفرادی سطح پر جو ڈیلیوری آرڈر جاری ہوتے ہیں اس پر کوئی نام یا سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس نمبر نہیں ہوتا۔‘

Getty Images

انھوں نے کہا کہ ’ان بے نامی ڈیلیوری آرڈر کے ذریعے چینی کی کوئی فزیکل سپلائی تو نہیں ہوتی تاہم اس کے ذریعے قیاس آرائیوں پر مبنی قیمت بڑھائی جاتی ہے اور اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے کیونکہ چینی کی برآمد کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں اس کی کمی ہوئی اور ابھی نئے کرشنگ سیزن میں دو مہینے ہیں اور نئی چینی مارکیٹ میں آنے میں کچھ عرصہ لگے گا تو اس کی وجہ سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جہاں چینی پر سٹہ بھی ہو رہا ہے جو قیمت میں مزید اضافے کے امکان کی وجہ سے ہے۔‘

شوگر ملوں کا چینی کی قیمت میں اضافے کے بارے میں کیا موقف ہے؟

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پنجاب زون) سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری موقف دیا گیا۔

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنے موقف میں بتایا کہ ’گذشتہ شوگر سیزن 22-2021 کے اختتام پر پاکستان کے پاس تقریباً 10 لاکھ ٹن چینی کا اضافی ذخیرہ تھا۔ اس بھاری سرپلس کی وجہ سے حکومت نے 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے بعد مزید 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کی اجازت دینی تھی۔‘

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ’یہ بھی اندازہ لگایا گیا تھا کہ شوگر سیزن 2022-23 چینی کی پیداوار کے لیے اچھا رہے گا۔ لیکن شوگر سیزن کے دوران یہ محسوس ہوا کہ فصل کی پیداوار اندازوں اور توقعات کے مطابق نہیں ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے چینی کی مزید برآمد روک دی گئی۔‘

BBC

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنے موقف میں بتایا کہ ’شوگر سیزن 23-2022 کے آغاز میں پاکستان کے پاس 8.15 ملین ٹن کا ذخیرہ تھا جس میں گذشتہ سال کا کیری اوور سٹاک بھی شامل تھا، جو پورے سال کے لیے ایک تسلی بخش سٹاک پوزیشن تھی۔‘

’فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور دیگر متعلقہ سرکاری ادارے اب بھی یہ موقف رکھتے ہیں کہ ہماری ماہانہ کھپت 0.65 ملین ٹن ہے۔ نومبر 2022 سے جولائی 2023 کے دوران نو ماہ کے لیے کھپت 5.85 ملین ٹن رہی۔ باقی تین ماہ کے لیے پاکستان کو 1.95 ملین ٹن کی ضرورت ہوگی، جب کہ پاکستان میں سٹاک کی دستیابی 2.3 ملین ٹن ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں اس وقت چینی کی قلت کا تاثر سمجھ سے بالاتر ہے۔‘

پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ’جہاں تک چینی کی قیمت کا تعلق ہے، چینی کی بین الاقوامی مارکیٹ انتہائی اتار چڑھاؤ کا شکار ہے اور 250 روپے فی کلو تک ہے۔ اسی لیے پاکستان کی سرحدوں سے بہت زیادہ چینی نکل رہی ہے۔‘

ایسوسی ایشن نے کہا ’پاکستانی چینی اپنی اعلیٰ کوالٹی اور کم مقامی قیمتوں کی وجہ سے بہت مقبول ہے۔‘

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے ’مقامی مارکیٹ میں قیمتوں میں اضافے کا دوسرا اہم جزو ڈالر کی غیر متوقع بلند شرح مبادلہ، پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بینکوں کی انتہائی بلند شرح سود، اجرتوں میں اضافہ، دیگر تمام اشیاء کی مارکیٹ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور بجلی کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا ہے۔ ان تمام منفی حالات سے چینی کی قیمتوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔‘

ایسوسی ایشن نے کہا ’یہ پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ آئندہ شوگر سیزن 24-2023 ٍ کے لیے تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ پورے پاکستان میں گنے کے رقبے میں کمی کی وجہ سے چینی کی پیداوار بمقابلہ کھپت میں کمی کا امکان ہے۔‘

’اس کے لیے حکومت کو وقت سے پہلے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔‘

ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ’چینی کی سمگلنگ سے بچنے کے لیے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے تاکہ چینی باہر نہ جا سکے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More