ارشد ندیم: ’پریکٹس کے لیے صرف ایک معیاری جیولن تھا۔۔۔‘

بی بی سی اردو  |  Sep 01, 2023

Getty Images

’جب ہم جیولن ہاتھ سے ریلیز کرتے ہیں تو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ تھرو نکل گئی ہے یا نہیں۔‘

ہنگری کے دارالحکومت بوڈاپیسٹ میں کھیلے جانے والی ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں جس لمحے جیولن کسی ایتھلیٹ کے ہاتھ سے نکلتا، اس کے چہرے کے تاثرات سے عیاں ہو جاتا کہ آیا وہ اس تھرو سے خوش ہیں یا نہیں۔

انڈیا کے نیرج چوپڑا نے اپنی 88.17 میٹر کی تھرو کرتے ہی ہاتھ فضا میں بلند کر لیے تھے جیسے انھیں معلوم ہو کہ یہی وہ تھرو ہے جو انھیں سونے کا تمغہ دلوائے گی۔

بی بی سی کے علی کاظمی کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی سٹار ایتھلیٹ اور حال ہی میں ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں جیولن تھرو مقابلے میں چاندی کا تمغہ حاصل کرنے والے ارشد ندیم یہی بات سمجھا رہے ہیں۔

ارشد نے میڈل راؤنڈ میں اپنی چھ تھروز کے بارے میں انتہائی سادگی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے تو پوری کوشش کی لیکن تھرو نکلی ہی نہیں اور اس بات کی مجھے سمجھ نہیں آئی۔ شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا گولڈ۔‘

ارشد ندیم اس سے قبل گذشتہ برس کامن ویلتھ گیمز میں اپنی کریئر کی بہترین 90.18 میٹر کی تھرو کر کے طلائی تمغہ حاصل کیا تھا۔

اس کے علاوہ ارشد ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن میں جیولن تھرو کے ابتدائی مقابلوں میں 86.79 میٹر کی تھرو کی بدولت سنہ 2024 میں فرانس میں ہونے والے اولمپکس کے لیے بھی کوالیفائی کر چکے ہیں۔

تاہم یہ کامیابیاں ارشد نے پاکستان میں ایتھلیٹس کے لیے انتہائی مخدوش سہولیات کے باوجود حاصل کی ہیں جن کا ذکر انھوں نے اپنے اس انٹرویو میں کیا ہے۔

اس کے علاوہ انھوں نے اپنے حریف نیرج چوپڑا کے ساتھ دوستی سے متعلق بھی تفصیل سے بات کی ہے۔

Getty Imagesنیرج کے ساتھ ’اب اچھی دوستی ہے‘

ارشد اور نیرج یوں تو بین الاقوامی سطح پر اس سے قبل بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں لیکن صحیح معنوں میں دونوں کھلاڑی پہلی مرتبہ سنہ 2021 کے ٹوکیو اولمپکس کے دوران سپاٹ لائٹ میں آئے تھے۔

اس کے بعد سے جب بھی کبھی ارشد اور نیرج کا آمنا سامنا ہوتا ہے تو سوشل میڈیا پر انڈیا بمقابلہ پاکستان کے ہیش ٹیگ کے ساتھ دونوں اطراف سے صارفین اپنی آرا کا اظہار کرتے ہیں اور ویسا ہی ماحول بن جاتا جیسا کسی انڈیا پاکستان میچ سے قبل ہوتا ہے۔

تاہم ارشد سے جب بھی نیرج کے بارے میں سوال پوچھا جائے تو وہ ہمیشہ سے انھیں اپنا دوست کہتے ہیں۔

’نیرج چوپڑا بھائی نے الحمدللہ گولڈ میڈل جیتا ہے تو سمجھ لیں کہ ہم ایشیا میں عالمی سطح پر پہلی اور دوسری پوزیشن پر آئے ہیں۔ بڑی خوشی ہوئی ہے کبھی وہ گولڈ ہو گیا کبھی میں ہو گیا۔‘

ارشد اس خاص دوستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں نے جب اپنے پہلے بین الاقوامی مقابلے میں حصہ لیا تھا تو وہ انڈیا کے شہر گوہاٹی میں ہوا تھا تو اس وقت میں نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا اور نیرج نے سونے کا تمغہ جیتا تھا۔‘

’تب سے ہماری بات چیت ہو رہی ہے اور پھر جیسے جیسے ہم نے مقابلوں میں حصہ لیا تو آہستہ آہستہ ہماری دوستی بھی بڑھتی گئی، اور اب ہماری اچھی خاصی دوستی ہے۔‘

نیرج کی فتح کے بعد جب صحافیوں نے ان کی والدہ سے سوال پوچھا کہ انھیں کیسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے بیٹے نے پاکستان کے کھلاڑی ارشد ندیم کو شکست دی ہے تو انھوں نے کہا وہ اس بات پر خوش ہیں کہ ارشد بھی میڈل جیتنے میں کامیاب رہے، کیونکہ میدان میں تو سب کھلاڑی کی حیثیت سے ہی موجود ہوتے ہیں جن میں سے کسی نہ کسی کو جیتنا ہوتا ہے۔

ارشد اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’ان کی والدہ نے مجھے مبارکباد دی ہے اور کہا کہ میرے بیٹے نے اگر میڈل جیتا ہے تو دوسرا بھی میرا بیٹا ہے۔ یہی چیزیں انسان کو آگے لے کر آتی ہیں۔‘

’اگر آپ کی اس طرح کی مثبت سوچ ہو تو پھر یہ جس طرح بات ہوتی رہتی ہے سوشل میڈیا پر کہ انڈیا نے یہ کر دیا پاکستان نے یہ کر دیا تو یہ انسان کو قریب لے کر آتی ہے۔ میری طرف سے ان کی فیملی بلکہ ان کی پوری قوم کو بہت بہت مبارک۔‘

EPAمیدان میں میرا مقابلہ صرف ارشد ندیم سے ہوتا ہے‘

ایتھلیٹکس مقابلوں کا ایک اپنا دباؤ ہوتا ہے کیونکہ ان میں غلطی کی گنجائش کسی ٹیم سپورٹ سے بہت کم ہوتی ہے۔

ارشد اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے دباؤ تو بہت ہے، بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرنا اور جا کر ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کھیلنا، دباؤ تو بہت ہوتا ہے۔‘

ان سے جب پوچھا گیا کہ ’آپ کا ٹاپ کا مقابلہ انڈیا کے کھلاڑیوں کے خلاف تھا؟‘ تو پر ارشد نے فوراً جواب دیا کہ ’نہیں میرا مقابلہ ارشد ندیم کے ساتھ ہوتا ہے۔‘

’میں یہ نہیں سوچتا کہ میں نے کسی اور سے جیتنا ہے، میں یہی سوچتا ہوں کہ اگر ارشد ندیم نے پہلے 90.18 کیا ہے تو اب ارشد 90.19 کرے۔‘

اس مرتبہ جب ارشد نے ورلڈ ایتھلیکس چیمپیئن شپ میں چاندی کا تمغہ حاصل کیا تو اس کے بعد ان کی ایک تصویر زیرِ بحث رہی جس میں وہ طلائی اور کانسی کا تمغہ جیتنے والے ایتھلیٹس کے ساتھ تصویر بنوا رہے ہیں لیکن ان دونوں کے برعکس ارشد کے پاس جھنڈا نہیں ہے۔

اس پر کچھ افراد نے ان کے ساتھ جانے والی انتظامیہ پر تنقید کی کہ انھیں اس موقع پر پاکستان کا جھنڈا فراہم کرنا چاہیے تھا۔

اس پر ارشد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’جیسے ہی مقابلہ ختم ہوا تو میں ادھر ہی بیٹھا ہوا تھا، اپنے جوتے اور سامان بیگ میں رکھ رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ ساری چیزیں رکھ کر میں جھنڈا پکڑتا ہوں۔ جھنڈا بھی موجود تھا، بس میں تھوڑا سا لیٹ ہوا ہوں۔‘

’جیسے ہی میں ادھر گیا تو اس وقت پاکستانی پرچم کچھ دور تھا، جب میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے تصویر کھنچوا لی۔لیکن بعدازاں میں نے جھنڈا پکڑ کے پورے گراؤنڈ کا چکر لگایا ہے۔‘

Getty Images

پاکستان کرکٹ کے علاوہ زیادہ تر کھیلوں پر توجہ نہیں دی جاتی جس کے باعث ایتھلیٹس کو انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میاں چنوں سے تعلق رکھنے 26 سالہ ارشد ندیم کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ جہاں ان کے حریف نیرج چوپڑا کو انٹرنیشنل سطح کے نامور کوچ فراہم کیے گئے ہیں اور انھیں بیرونِ ملک ٹریننگ اور فٹنس پر کام کرنے کے لیے بھیجا جاتا رہا ہے وہیں ارشد ندیم ان سہولیات سے محروم رہے ہیں۔

پاکستان میں مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق انھیں حالیہ مقابلوں میں شرکت سے قبل کوئٹہ میں نیشنل گیمز کھیلائی گئی تھیں جہاں انھیں گھٹنے کی انجری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایکسپریس ٹریبیون کی نتاشہ راہیل سے بات کرتے ہوئے ارشد نے بتایا تھا کہ کیسے انھیں اس انجری کے باعث اپنی ٹیکنیک تبدیل کرنی پڑی تھی۔

ارشد کو اس کے بعد سے لاہور میں ہی اپنے کوچ سلمان بٹ کے ساتھ ٹریننگ کرنی پڑی۔

انھوں نے اس بارے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ایتھلیٹکس کا گراؤنڈ نہیں ہے، وہ ہونا چاہیے تاکہ ہمارے ایتھلیٹ یہاں آ کر ٹریننگ کریں۔

’دوسری بات یہ کہ ہمارے پاس عالمی سطح کے جیولن نہیں ہیں۔ میرے پاس ایک جیولن ہے لیکن اس سے کام نہیں چلتا۔ تقریباً 8 سے 10 جیولن ہونے چاہییں تاکہ آپ کی ٹریننگ بہتر ہو سکے اور بھی چیزیں ہیں جن کے ذریعے میں پاکستان میں رہ کر بھی پریکٹس کر سکوں، لیکن مجھے بین الاقوامی معیار کی کوچنگ کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’نیرج چوپڑا کو بین الاقوامی معیار کی کوچنگ مل رہی ہے، ہماری حکومت بھی کوشش کر رہی ہے اور امید ہے کہ ہمیں بھی بین الاقوامی معیار کی سہولیات مل سکیں کیونکہ آگے اولمپکس مقابلے شروع ہو رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہو گی کہ میں بھی گولڈ جیتوں اور نیرج چوپڑا بھی میرے ساتھ سٹینڈ پر کھڑے ہوں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More