پاکستان میں گذشتہ روز ایشیا کپ کا آغاز ہوا تو اس ایونٹ کی افتتاحی تقریب سے زیادہ جو چیز پاکستان میں ٹرینڈ کر رہی تھی وہ تھیں نیپالی گلوکارہ تریشلا گرونگ۔
سفید ساڑھی پہنے تریشلا گرونگ نےپاکستانی گلوکارہ آئمہ بیگ کے ساتھ افتتاحی تقریب میں پرفارم کیا۔
اس پرفارمنس کے بعد پاکستانیوں کی جانب سے ملنے والے عوامی ردعمل اور بحث کو ترشیلا نے ’غیر متوقع‘ قرار دیا ہے۔
انھوں نے بی بی سی نیپالی کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’(پاکستان میں پرفارمنس کے بعد) ہر گزرتے منٹ کے ساتھ ان کے فالورز بڑھ رہے ہیں۔ ویڈیوز پر ردعمل اور پیغامات موصول ہو رہے ہیں۔ مجھے یہ سب ناقابل یقین لگتا ہے۔ میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی۔‘
ان کا خیال ہے کہ ان کی پرفارمنس پر جن لوگوں نے ردعمل دیا ان میں سے زیادہ تر پاکستانی تھے۔
ترشیلا نے بتایا کہ پاکستانی ناصرف انٹرنیٹ کی دنیا میں بلکہ حقیقی زندگی میں بھی اُن کے ساتھ تصاویر لینے اور مصافحہ کرنے کے لیے پُرجوش نظر آتے ہیں۔
تاہم ملنے والی حالیہ شہرت اور پسندیدگی کا یہ سفر تریشلا گرونگکے لیے آسان نہیں تھا بلکہ انھیں یہاں پہنچنے کے لیے مختلف الجھنوں سے گزرنا پڑا۔
’مجھے پہلے سے لیا گیا پروگرام چھوڑنا پڑا‘
تریشلا کو 30 اگست کو نیپال کے شہر مستانگ میں ہونے والی ایک تقریب میں جانا تھا اور انھیں اس تقریب میں گانے کے لیے پیشگی ادائیگی بھی کر دی گئی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ وہ یہ سوچ رہیں تھیں کہ انھیں وہاں کون سا گانا گانا ہے۔
تاہم اگست کے وسط میں انھیں ’ایشیا کپ کی افتتاحی تقریب میں گانے‘ کی پیشکش موصول ہوئی اور اس ضمن میں بھیجے گئے پیغام میں ان سے مختلف سوالات پوچھے گیے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو اس بات کا تعین کرنے میں وقت لگا کہ آیا پیغامات واقعی ایونٹ منعقد کرنے والوں کی جانب سے بھیجے گئے تھے یا نہیں۔ تصدیق کے بعد میں نے محسوس کیا کہ یہ واقعی ایک بڑی پیشکش ہے۔‘
تاہم ترشیلا گرونگ فوری فیصلہ نہیں کر پائیں کیونکہ نیپال میں ہونے والی بڑی تقریب کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں اور لی گئی ایڈوانس رقم انھیں سوچنے پر مجبور کر رہی تھی۔ انھوں نے نیپال میں موجود اپنے ان فینز کے بارے میں سوچا جنھوں نے ایونٹ کا ٹکٹ ان کی موجودگی کی وجہ سے خریدا اور وہ اس حوالے سے پرجوش تھے۔
زیادہ وقت نہیں تھا اس لیے انھوں نے نیپال کے سیاحتی ضلع مستانگ میں منعقد ہونے والے میلے کے منتظمین کو اپنی مشکل کے بارے میں بتایا۔
بلآخر انھوں نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ انھیں ’ایسا موقع منتخب کرنے کا مشورہ دیا گیا جسے دہرایا نہیں جا سکتا۔‘
ترشیلا کہتی ہیں کہ ’شروع میں ایونٹ منعقد کرنے والے گھبرائے کیونکہ فنکار کا آخری لمحات میں تقریب میں موجود نہ ہونا انتظامی نقطہ نظر سے بہت مشکل ہوتا ہے۔ لیکن بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں نیپال کی نمائندگی کرنا مناسب رہے گا۔‘
ملی نغمے کی وجہ سے پیدا ہونے والی الجھن
افتتاحی تقریب کے منتظمین یعنی ’ٹرانس گروپ آف پاکستان‘ نے ایشیا کپ کی افتتاحی تقریب کے لیے ترشیلا گرونگ سے ایک ’قومی گانا‘ تیار کرنے کو کہا۔
ان سے کہا گیا کہ وہ قومی ترانے کے بجائے کوئی ایسا گانا گائیں جو قوم کے جذبے کی عکاسی کرتا ہو۔ ترشیلا نے پہلے اپنا ایک نغمہ گانے کا سوچا۔
یوٹیوب پر گیارہ ملین سے زائد بار دیکھے جانے والے اس گانے میں ان کی آواز، بول اور موسیقی شامل ہے۔
وہ کہتی ہیں ’میں اپنے گانے کی تشہیر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ تمام نیپالی اس پلیٹ فارم سے متحد محسوس کر سکتے ہیں۔‘
اس کے بعد ترشیلا گرونگ نے ’راتو آر چندر سوریا جنگی نشان ہمارا‘ نامی گانے کا انتخاب کیا۔
انھوں نے گوپال پرساد رمل کے لکھے ہوئے گانے، امبر گرونگ کی موسیقی اور امبر گرونگ اور فٹی مین کی آواز میں گائے گئے اس نغمے کو گانے کی اجازت مانگی۔
انھوں نے وہ لباس خاص طور پر تیار کیا جو انھوں نے پرفارمنس کے دوران پہنا۔
پاکستان کا سفر کرتے ہوئے، ترشیلا گرونگ یہاں کے لوگوں اور کھانوں اور ماحول کے بارے میں سوچ رہی تھیں۔ وہ سب سے زیادہ اس لمحے کے بارے میں سوچ رہی تھیں جب سینکڑوں تماشائیوں کے سامنے کھڑی وہ پرفارم کر رہی ہوں گی۔
لیکن تقریب سے ایک رات پہلے نیپال کے سرکاری چینل ’سٹار سپورٹس‘ سے خبر آئی کہ ’ہماری پالیسی کے مطابق براہ راست نشریات میں ملی نغمے نہیں گائے جا سکتے۔‘
سٹار سپورٹس کو ایشیا کپ کی افتتاحی تقریب کے پروگرام کو پاکستان سے براہ راست نشر کرنا تھا۔
اس اچانک خبر پر اپنی کیفیات کے بارے وہ کہتی ہیں ’رات کے دس بج رہے تھے۔ ہم ٹیکنیکل چیک کے لیے سٹیڈیم جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ جب اچانک ایسی خبر آئی تو یہ پہاڑ سے گرنے کے مترادف تھا کیونکہ میں کسی اور گانے کے بارے میں نہیں سوچ رہی تھی۔‘
مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس گرونگ کے کسی بھی مقبول گانے کے مکمل حقوق نہیں تھے اور دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ متعلقہ ایجنسی یا شخص سے رابطہ کرنے کا وقت نہیں تھا۔
ان کے پاس کسی اور گانے کے لیے پریکٹس کرنے کا وقت بھی نہیں تھا، حتی کہ ان کے اپنے گانے ’یومان ‘ کے لیے بھی۔۔۔ جس نے امیج ایوارڈز میں ’سال کی بہترین کمپوزیشن‘ کا ایوارڈ جیتا تھا۔
’ہم نے فوری فیصلہ کیا اور آواز کی جانچ کرنے کے لیے آدھی رات کو سٹیج پر پہنچے۔ وہاں کی شاندار تیاریاں دیکھ کر میں نے اپنی تمام پریشانیاں بھلا دیں اور اپنے آپ سے کہا کہ ’اپنی پوری کوشش کرو۔‘
پاکستان میں اپنائیت ملی
ترشیلا کے اصرار پر، سٹار نیٹ ورک نے ’راتو اور چندر سوریا‘ کو اس شرط پر پیش کرنے کی اجازت دے دی کہ اسے ان کا چینل براہ راست نشر نہیں کرے گا۔
انھوں نے یہ نغمہ تقریب شروع ہونے سے پہلے گایا۔ گانے کی ویڈیو اس وقت فیس بک اور دیگر سوشل نیٹ ورکس پر ٹرینڈ کر رہی ہے۔
وہ خوشی خوشی بتاتی ہیں کہ ’احترام کے ساتھ بات کرنے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ پاکستانی بہت مہمان نواز ہیں۔ ان میں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اردو زبان میں ان کی گفتگو اور الفاظ بہت پیارے ہیں۔ یہاں کے کھانوں کی طرح۔‘
پرفارمنس کے لیے وہ کئی ممالک کا دورہ کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں ان جگہوں پر اپنے ذائقے کے مطابق کھانا نہیں ملا لیکن پاکستان کے پکوانوں میں انھیں اپنی شناخت ملی۔
ترشیلا گرونگ، جو اگرچہ موسیقی میں نام کما رہی ہیں، لیکن وہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں۔
وہ نیپال کے مشرقی شہر دھرن میں پلی بڑھیں اور اپنی اعلیٰ تعلیم کھٹمنڈو سے حاصل کی۔ وہ اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے اپنی کمپوزیشنز اور کور گانے شیئر کرتی ہیں۔ انھوں نے مختلف نیپالی فلموں میں پلے بیک گلوکاری بھی کی۔