BBC
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاکھوں زندگیاں منشیات کی لت سے تباہ ہو رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اسی وجہ سے ایک سال کے دوران ہر 12 منٹ بعد ایک مریض ہسپتال داخل ہوتا ہے۔
عائشہ (فرضی نام) کی عمر 18 سال ہے اور گذشتہ تین سال سے وہ ہیروئن اور چرس کا نشہ کر رہی تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سکول میں کچھ دوستوں نے پہلے پہل مفت منشیات دیں، لیکن جب عادت پڑی تو ہم بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے۔‘
عائشہ اور ان کی سہیلی اکثر سکول کے قریبی قبرستان میں جا کر نشہ کرتی تھیں۔وہ اپنی نشے کی لت کے بارے میں بتاتی ہیں کہ ’جب گھر والوں سے پیسے مانگنے کے سارے بہانے ختم ہوگئے تو ہم پریشان ہوگئے۔ چوری کا خیال آیا مگر میں ڈر گئی، ہمارے پاس آئی فون تھا، اُسے بیچ دیا۔ کئی دوستوں سے پیسے اُدھار لیے۔‘
کشمیر کے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنسز یا اِمہانز نے اس سال مارچ میں کشمیر کے سبھی دس اضلاع کا سروے کیا۔ سروے میں دیگر نتائج کے علاوہ یہ بھی پایا گیا کہ ہیروئن اور گانجا وغیرہ کا نشہ کرنے والے نوجوانوں کا ہر مہینے اوسطاً 88 ہزار روپے منشیات پر خرچ ہوتا ہے کیونکہ ہیروئن کے ایک گرام کی قیمت پانچ سے سات ہزار روپے تک ہے۔
BBCانڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں 10 لاکھ سے زیادہ منشیات کے عادی لوگ ہیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ خواتین بھی ہیں10 لاکھ افراد منشیات کی لت میں مبتلا
انڈین حکومت کی وزارت برائے سماجی انصاف نے اس سال مارچ میں ایک سروے کیا تھا، جس میں انکشاف کیا گیا کہ جموں کشمیر میں 10 لاکھ سے زیادہ منشیات کے عادی لوگ ہیں جن میں ایک لاکھ سے زیادہ خواتین بھی ہیں۔
عائشہ کے ایک دوست مزمل (فرضی نام) کہتے ہیں کہ انھیں یہ لت کورونا وبا کے دوران طویل لاک ڈاوٴن کے دوران لگی۔
مزمل نے بتایا کہ ’میرے کچھ دوست منشیات لیتے تھے، لیکن میں بچا رہا۔ لاک ڈاوٴن کے دوران جب سب کچھ بند ہوگیا، تو میں زندگی سے جیسے مایوس سا ہو گیا، میں نے ایک دو بار چرس پی، لیکن پھر انجیکشن کے ذریعے ہیروئن کا نشہ کیا تو سب کچھ ٹھیک لگنے لگا۔‘
مزمل کہتے ہیں کہ ان کے والدین نے انھیں جنم دن پر گاڑی دی تھی مگر ’پیسے ختم ہوگئے، قرض بھی بہت لوگوں سے لیا تھا، جب کچھ نہیں بچا تو میں نے فون کے بعد اپنی گاڑی بھی بیچ دی۔‘
23 سالہ مزمل کو ایک بار منشیات سمیت پولیس نے گرفتار کیا تو انھیں ایک سال کی جیل بھی ہوئی۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جیل سے باہر آیا تو میں مایوس تھا، لیکن بعد میں پاپا اور ممی مجھے تھراپی سینٹر لے گئے اور کئی مہینوں کے علاج کے بعد میں ٹھیک ہوگیا، لیکن جس اندھیرے میں، میں پھنس گیا تھا اس کو یاد کرکے بھی اب ڈر لگتا ہے۔‘
حکومت نے کشمیر کے دس میں سے آٹھ اضلاع میں ایڈیکشن ٹریٹمنٹ فیسیلٹی یا اے ٹی سی قائم کیے ہیں جہاں روزانہ ہزاروں نوجوانوں کا علاج ہوتا ہے۔ سب سے بڑا سینٹر سرینگر میں ہے، جہاں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ مارچ 2022 سے مارچ 2023 تک 41110 منشیات کے عادی نوجوانوں کا علاج کیا گیا۔
اس کا مطلب ہے کہ اس مدّت کے دوران ہر 12 منٹ بعد ایک نوجوان ہسپتال داخل ہوا۔ کلینکل سائیکالوجسٹ زویا میر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’منشیات کی لت اب ایک وبائی شکل اختیار کرچکی ہے۔‘
BBC’سونا فی گرام 5000 روپے ہے لیکن ہیروئن کا ایک گرام اب 7000 روپے میں ملتا ہے‘
کلینکل سائیکالوجسٹ زویا میر ایسے ہی ایک سینٹر میں ہزاروں نوجوانوں کا علاج کرچکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میں سنیچر اور اتوار کو بھی کام کرتی ہوں اور صبح دس بجے سے شام سات بجے تک مریض آتے ہیں، جن کو تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سارے ٹھیک بھی ہوجاتے ہیں اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کچھ مہینوں تک منشیات سے دور رہنے کے بعد دوبارہ شروع کر دیتے ہیں۔‘
زویا میر اِمہانز کی اُس سروے ٹیم میں شامل تھی جس نے دس اضلاع میں منشیات کے پھیلاوٴ کا جائزہ لیا تھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’منشیات کے عادی زیادہ تر مرد ہی ہیں، لیکن لڑکیوں کی بھی بڑی تعداد ہے، جن کی عمر 13 سے 40 کے درمیان ہے۔ ہمارے سروے سے پتہ چلا جموں کشمیر منشیات کے حوالے سے اب پنجاب سے آگے ہے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’منشیات کی لت میں ان پڑھ لوگ صرف آٹھ فیصد ہیں، اس کا مطلب ہے کہ ہمیں تعلیمی اداروں میں بیداری مہم شروع کرنا ہوگی۔‘
BBCایک پولیس افسر کے مطابق کشمیر میں ’پچھلے چند سال میں ہیروئن کی سپلائی اور ڈیمانڈ بڑھی ہے‘ کشمیر میں منشیات کہاں سے آتے ہیں؟
پولیس اور سِول انتظامیہ کے کئی افسران کشمیرمیں منشیات کے پھیلاوٴ کو روکنے کے لیے کام کرچکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 100 سال پہلے کشمیر کے راستے ہی منشیات پوری دنیا میں ایکسپورٹ ہوتے تھے۔ ان کے مطابق کشمیر کو ایران، افغانستان اور پاکستان کے قریب ہونے کی وجہ سے گولڈن کریسنٹ یا ’سنہرا ہلال‘ کہا جاتا تھا۔
ایک مقامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’جس طرح کی وبا یہاں اب ہے، ایسا کبھی نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہاں 1990 سے 2000 تک نوجوان نیند آور یا درد کش گولیاں لیتے تھے، پچھلے چند سال میں یہاں ہیروئن کی سپلائی بھی بڑھی ہے اور ڈیمانڈ بھی۔‘
پولیس کے سربراہ دل باغ سنگھ نے منشیات کے مسئلے کو مسلح شورش سے بھی بڑا چیلنج قرار دیا ہے۔ انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ’کشمیر میں اب نارکو ٹیررازم‘ کو فروغ دے رہا ہے۔‘
تاہم پاکستانی حکام ماضی میں ایسے دعوؤں کی تردید کر چکے ہیں۔
پولیس کے مطابق 2019 میں 103 کلو ہیروئن ضبط کی گئی جبکہ 2022 میں یہ مقدار 239 کلو تھی۔
مزمل، جو اب نشہ چھوڑ چکے ہیں، نے بتایا کہ ’سونا فی گرام 5000 روپے ہے لیکن ہیروئن کا ایک گرام اب 7000 روپے میں ملتا ہے۔
’میں جانتا ہوں، لوگ پھر اپنے ہی گھروں یا پڑوسیوں کے ہاں چوری بھی کرتے ہیں۔‘
BBCکلینکل سائیکالوجسٹ زویا میر کے مطابق کشمیر میں منشیات کی لت ’ایک وبائی شکل اختیار کرچکی ہے‘اُمید کی کرن
کئی سال تک منشیات کی وبا خاموشی سے پھیلتی رہی کیونکہ سماج میں اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے والدین بچوں کو ہسپتال نہیں لے جاتے تھے۔
سرینگر کے مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں قائم تھراپی سینٹر میں تعینات ایک ڈاکڑ نے بتایا کہ ’کئی سال سے لوگ نوجوانوں کی اچانک موت پر پریشان تھے۔ کم سن لڑکے منشیات کی اوور ڈوز سے مرجاتے تھے، لیکن ان کے گھر والے اسے ہارٹ اٹیک کہہ کر بات کو چھپاتے تھے۔ لیکن اب حالات بدل رہے ہیں۔‘
زویا میر کا کہنا ہے کہ مارچ 2022 سے مارچ 2023 تک صرف سرینگر کے سینٹر میں 40 ہزار سے زیادہ ایسے مریضوں کا علاج کیا گیا جن میں 60 ٹھیک ہوگئے ہیں۔ زویا میر نے امریکہ اور لندن سے تعلیم حاصل کی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں تو لندن میں ہی مقیم ہونے کا سوچ رہی تھی، لیکن جب میں نے دیکھا کہ منشیات کی وبا یہاں خطرناک رُخ اختیار کرچکی ہے تو میں نے سوچا میرا کام تو اصل میں یہاں ہے اور میں واپس آگئی۔‘