Getty Images
ملازمت چھوڑنے کے رجحان میں رفتہ رفتہ کمی آ رہی ہے۔ امریکہ میں اب مستعفی ہونے کی لہر بظاہر ختم ہو چکی ہے کیوںکہ ملازمت سے استعفی دینے کی شرح کورونا وبا سے پہلے کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔
ایسے میں نئی ملازمت کے مواقع بھی اب کم ہوتے جا رہے ہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ ایک سال میں ملازمت کی آسامیاں ہر سہ ماہی میں کم ہوتی رہی ہیں۔
موجودہ مارکیٹ میں نوکری کی تلاش کرنے والوں کی تعداد بڑھ چکی ہے۔ جون 2023 میں لنکڈ ان کی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ نئی ملازمت امریکہ میں 20 فیصد تک جبکہ برطانیہ میں 22 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔
دوسری طرف نوکری کی تلاش کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
بی بی سی ورک لائف نے لنکڈ ان کے اعداد و شمار کا جائزہ لے کر معلوم کیا ہے کہ 2023 میں گذشتہ سال کے مقابلے میں نوکری کی درخواستوں میں 150 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں ایک آسامی کے لیے آنے والی درخواستوں میں بھی 35 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ملازمین اپنی نوکری جاری رکھنے میں خوش ہیں کیوںکہ گذشتہ چند برسوں میں مارکیٹ میں جو تبدیلی آئی اس کے نتیجے میں کئی افراد کو اب ایسی ملازمت مل چکی ہے جس میں وہ خوش ہیں۔ تاہم سب ملازمین اپنی مرضی سے ایسا نہیں کر رہے۔
ایسے ملازمین بھی ہیں جو اب بھی نوکری چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن معاشی غیر یقینی کی وجہ سے وہ ایسی نوکریوں میں پھنس چکے ہیں جو انھیں پسند نہیں۔
نیلا رچرڈسن نیو یارک کی اے ڈی پی فرم میں چیف اکانومسٹ ہیں جن کا ماننا ہے کہ ’وقت کے ساتھ بہت سی ملازمتیں ختم ہو چکی ہیں اور اب ملازمین کے پاس زیادہ مواقع موجود نہیں رہے اسی لیے زیادہ تر لوگ جہاں ہیں، وہیں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
ان میں وہ ملازمین بھی شامل ہیں جو خوش نہیں ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک، جب مارکیٹ میں کام کرنے والوں کی قلت پیدا ہو گئی تھی، ناخوش ملازمین کے لیے دوسری جگہ نوکری تلاش کرنا بہت آسان تھا۔
Getty Images
جم ہارٹر گیلپ میں چیف سائنسدان ہیں جن کا کہنا ہے کہ ’جب لوگ ایسی جگہ نوکری کرتے ہیں جہاں ان کے پاس زیادہ مواقع نہیں ہوتے تو وہ کسی دوسری جگہ کی تلاش میں نکلتے ہیں۔‘
تاہم گھٹتی ہوئی مارکیٹ میں کام چھوڑنا آسان نہیں رہا اور اسی لیے وہ اب خاموشی سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
جون 2023 کے گیلپ سروے کے مطابق زیادہ تر ملازمین اب ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اس سروے میں 122416 ملازمین میں سے 59 فیصد نے کہا کہ وہ کام کی جگہ پر متحرک نہیں رہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رجحان کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔
نیلا رچرڈسن کا کہنا ہے کہ ’بڑھتی ہوئی مہنگائی اور تنخواہوں میں انجماد کی وجہ سے بہت سے ملازمین اپنی تنخواہ سے ناخوش ہیں۔ تنخواہ عموماً وہ پہلی چیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے کوئی اپنے کام سے ناخوش ہوتا ہے کیوں کہ آپ محنت کرتے ہیں لیکن آپ کی تنخواہ نہیں بڑھتی۔‘
ملازمین کی ایک بڑی تعداد ایسی نوکریوں میں خود کو پھنسا ہوا محسوس کرتی ہے جس کے بارے میں وہ زیادہ پرجوش نہیں ہیں۔ دراصل وہ کوئی نیا کام کرنا چاہتے ہیں لیکن جب ایسا نہیں ہو پاتا تو وہ مایوسی اور پھنسا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
نگیئر موئیز برطانیہ میں لینکڈ ان کی مینیجر ہیں جن کا کہنا ہے کہ مارکیٹ میں ہلچل کے بغیر ان کے پاس انتخاب کی کمی ہوتی ہے اور وہ اسی لیے کام کی جگہ تبدیل نہیں کر پاتے۔
اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لوگ خاموشی سے کام کرنا ترک یا کم کر دیتے ہیں۔ ہارٹر کا کہنا ہے کہ ’زیادہ لوگ کم سے کم کام کرتے ہیں کیوں کہ ان کو اپنے کام سے لگاؤ نہیں رہتا اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس وہ کام کرنے کا موقع نہیں ہے جو وہ بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔‘
ایسے میں کمپنیاں بھی شاید مسئلے کا حصہ بن رہی ہیں۔
Getty Images
ہارٹر کا کہنا ہے کہ ’تنظیم جب اپنے ملازمین پر سرمایہ کاری نہیں کرتی تو ان کا لگاؤ ختم ہو جاتا ہے۔ حالیہ دور میں جب لیبر مارکیٹ کمپنیوں کے مفاد میں ہے تو ایسے میں آجر بے دل ملازمین کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔‘
ان کے مطابق ’چند آجر یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت کنٹرول ان کے پاس ہے کیوں کہ ملازمین کے پاس کہیں اور جانے کا موقع نہیں ہے، اسی لیے وہ ملازمین پر زیادہ وقت صرف نہیں کرتے کہ ان میں کام سے لگاؤ پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔‘
ملازمین کے لیے ایک ایسی نوکری میں پھنسا ہوا محسوس کرنا جس میں وہ خوش نہیں نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اور ایسے میں خاموشی سے کام میں کمی مددگار نہیں ہوتی۔
ہارٹر کا کہنا ہے کہ ’یہ ایسا رویہ ہے جو وقت کے ساتھ آپ پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ نوکری کے اوقات میں کم سے کم کام کرنے سے ذہنی صحت پر منفی اثرات پڑتے ہیں اور یہ کامیاب کیریئر کے لیے کوئی اچھا طریقہ نہیں۔‘
ملازمین پر تمام تر منفی اثرات کی وجہ سے یہ رجحان کمپنیوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے کیوں کہ بددل ملازمین کی وجہ سے پیداوار متاثر ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کو چاہیے کہ اس رجحان کو کم کرنے کے لیے ملازمین کے لیے کام کی جگہ پر حالات میں بہتری لائیں ورنہ ان کے ملازمین کی اکثریت اس وقت تک بددلی سے کام کرتی رہے گی جب تک ان کو نوکری چھوڑنے کا موقع نہیں مل جاتا۔
رچرڈسن کے مطابق اس پہیلی کا ایک حصہ ملازمین کو اس بات کا احساس دلانا ہے کہ ان کی اہمیت ہے بالکل ویسے ہی جب کورونا کی وبا کے دوران گھر سے کام کرنے کے مواقع دیے گئے اور ملازمین کی ذہنی صحت کو ترجیح دی گئی۔
ان کے مطابق ’کورونا بحران کے دوران ملازمین کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن جیسے ہی وبا ختم ہوئی چند کمپنیوں نے ان سہولیات کو بھی ختم کر دیا۔ اور کسی کے نوکری چھوڑنے کی بنیادی وجہ اب بھی نہیں بدلی، اور وہ کسی کمپنی میں کام کا کلچر ہوتا ہے۔‘
معاشی دباؤ کے وقت میں جب بنیادی ضروریات مہنگی ہو رہی ہیں، ہارٹر کا کہنا ہے کہ کمپنیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ملازمین کے حالات کو سمجھیں اور کام کی جگہ پر آسانیاں پیدا کریں۔
انھوں نے گیلپ سروے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ مشکل حالات میں درست تنظیمی کلچر پیدا کرنا اہم ہوتا ہے۔
دوسری جانب ملازمین کے لیے اس وقت حقیقت یہی ہے کہ انھیں موجودہ نوکری پر ہی کام کرنا ہو گا، چاہے یہ ان کو پسند ہے یا نہیں۔ اور ایسے میں اگر کمپنیوں نے ان کے لیے حالات کو بہتر نہیں بنایا تو ملازمین کی اکثریت خاموشی سے کام میں کمی کرے گی۔