سکول میں مسلم بچے کو پیٹنے پر ٹیچر کے خلاف کارروائی کی بجائے صحافی کے خلاف مقدمہ درج

بی بی سی اردو  |  Aug 29, 2023

انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے مظفر نگر کے ایک سکول کی وائرل ویڈیو میں بچے کی پٹائی کرانے والی خاتون ٹیچر کے خلاف کوئی کارروائی ابھی تک ہوئی یا نہیں اس بارے میں یقین کے ساتھ تو کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس معاملے میں آلٹ نیوز کے شریک بانی اور فیکٹ چیک کرنے والے صحافی محمد زبیر کے خلاف پروٹیکشن آف چلڈرن ایکٹ (پوسکو) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

اس ایف آئی آر کے بعد سے سوشل میڈیا پر 'محمد زبیر' اور 'آئی سٹینڈ ود زبیر' نامی ہیش ٹیگ سرفہرست ہیں۔

اتر پردیش کے مظفر نگر کے ایک پرائیویٹ سکول میں خاتون ٹیچر کے کہنے پر بچوں کے ہاتھوں اپنی ہی کلاس میں پڑھنے والے ایک مسلمان بچے کو تھپڑ مارنے کی ویڈیو گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی اور لوگوں نے استانی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

یہ واقعہ مظفر نگر کے منصور پور تھانے کے تحت کھبا پور گاؤں کا ہے۔ پولیس کے مطابق انھوں نے خاتون ٹیچر کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی ہے اور سکول کو سیل کر دیا گيا ہے لیکن استانی کی جانب سے اس کی تصدیق نہ ہو سکی ہے۔

بہرحال معروف صحافی رویش کمار نے اپنے ایک ویڈیو میں یوٹیوب چینل فور پی ایم کے مدیر سنجے شرما کے ٹویٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ ’یوپی میں معصوم بچے کو پیٹنے والی ٹیچر کے خلاف ہونے والی ایف آئی آر کی کاپی کوئی دینے کو تیار نہیں ہے۔

’یہ بھی پتا نہیں چل پایا ہے کہ ایف آئی آر ہوئی بھی ہے یا نہیں، اور ہوئی ہے تو ان پر کون سی دفعات لگائی گئی ہیں؟ لیکن اس معاملے میں آلٹ نیوز کے صحافی محمد زبیر کے خلاف ایف آئی آر درج ضرور ہو گئی ہے۔‘

ہمیں سنجے شرما کی ٹویٹ تو نہیں ملی لیکن اس طرح کی دوسری ٹویٹس ضرور ملیں جس میں مذکورہ باتیں کی گئی ہیں۔

بی بی سی نے محمد زبیر کے خلاف کی جانے والی ایف آئی آر دیکھی ہے اور شکایت کنندہ کا نام وشنودت ہے جو کھبا پور گاؤں کا رہنے والا ہے۔

https://twitter.com/zoo_bear/status/1695093264247083397

’وکیل سے بات کر کے قانونی مشورے لے رہا ہوں کہ آگے کیا کرنا ہے‘

بچے کی پٹائی والی ویڈیو کو محمد زبیر نے بھی شیئر کیا تھا جس میں بچے کی شناخت ظاہر ہو رہی تھی۔

بعد میں محمد زبیر کے مطابق انھوں نے اس واقعے کی ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ انھوں نے ٹویٹ کیا تھا کہ نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چائلڈ رائٹس چاہتی ہے کہ لوگ اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیں، اس لیے انھوں نے ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے دی کوئنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے چائلڈ رائٹس پروٹیکشن کی جانب سے آگاہ کیے جانے پر ویڈیو ڈلیٹ کر دی اور سکرین شاٹ لگا دیا جس میں بچے کی شناخت نہیں ہو رہی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ابھی تک مجھے اتنا پتا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔

’میں اپنے وکیل سے بات کر کے قانونی مشورے لے رہا ہوں کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘

خیال رہے کہ محمد زبیر کے خلاف دہلی پولیس نے گزشتہ سال ایک ٹویٹ پر ایف آئی آر درج ہونے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر زبیر کو 23 دن کی قید کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔

'ایسا لگتا ہے کہ زبیر کو اب قربانی کا بکرا بنایا جائے گا'

'آئی سٹیڈ ود زبیر' ہیش ٹیگ کے ساتھ معروف فلم اداکار پرکاش راج نے محمد زبیر کی ایک تصویر اور آئی سٹیڈ ود زبیر لکھا ہے اور لوگوں سے اس کی حمایت میں ری ٹویٹ کرنے کو کہا ہے۔

بہت سے لوگوں نے محمد زبیر پر آزاد صحافی رویش کمار کے پروگرام کو شیئر کیا ہے اور اور لکھا ہے کہ محمد زبیر بننا آسان نہیں ہے۔

صحافی رویش کمار نے اپنے ویڈیو میں بتایا: ’ایسا لگتا ہے کہ زبیر کو اب قربانی کا بکرا بنایا جائے گا۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ معاملہ اب کیسے سلجھایا جا رہا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔ اس کے متعلق کئی صحافیوں کے ٹویٹ پر پابندی بھی لگا دی گئی ہے۔‘

رویش کمار نے اس معاملے روہنی سنگھ، گارگی راوت اور اداکارہ ارمیلا متونڈکر کے ٹویٹ کو اپ ہیلڈ کیے جانے کی بات کہی۔

ہم نے ارمیلا متونڈکر کے ٹائم لائن پر جا کر دیکھا تو انھوں نے اپنے ٹویٹ پر پابندی لگائے جانے پر سوال کیا ہے اور کہا کہ ان کے 'ٹویٹ کو روکا جانا سادہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دباؤ ہے۔‘

اس کے ساتھ انھوں نے اپنے پرانے ٹویٹ کا سکرین شاٹ لگایا ہے۔

https://twitter.com/UrmilaMatondkar/status/1695389509616324886

معروف آر جے صائمہ نے لکھا: 'یقینا! کیسا عجیب وقت آ گیا ہے! ترپتا تیاگی ایک بچے کے خلاف جرم کرنے کے بعد ملنے والی حمایت کے مزے لے رہی ہوں گی جبکہ پولیس پیغامبر پر حملے کی کوشش کر رہی ہے۔‘

https://twitter.com/_sayema/status/1696161815032475877

گبّر نامی صارف نے ٹیچر اور محمد زبیر دونوں کی خبر کے سکرین شاٹ کے ساتھ لکھا ہے کہ 'ان کی نفرت شناخت کے ساتھ ہے' اور پھر آئی سٹینڈ ود زبیر ہیش ٹیگ کا استعمال کیا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب محمد زبیر کو نشانہ بنایا گیا ہو۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انڈیا میں ان صحافیوں کے لیے اپنا کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے جو حکومت سے سوال پوچھتے ہیں۔

گذشتہ سال محمد زبیر، رانا ایوب، نیوز پورٹل دی وائر اور سوشل میڈیا پورٹل ٹویٹر ان افراد اور اداروں میں شامل تھے جن پر یو پی پولیس نے ’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دشمنی‘ پیدا کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔

زبیر سمیت دوسرے ملزمان نے ایک ویڈیو شیئر کی تھی جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک داڑھی والے بزرگ کو ’جئے شری رام‘ کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ تاہم پولیس نے مقدمہ میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ ایک ذاتی معاملہ تھا۔

محمد زبیر کون ہیں؟

محمد زبیر آلٹ نیوز کے شریک بانی ہیں۔ زبیر اس سے قبل ٹیلی کام انڈسٹری سے وابستہ تھے۔ انھوں نے تقریباً 13 سال تک ٹیلی کام انڈسٹری میں کام کیا ہے۔

آلٹ نیوز ویب سائٹ پر اس ادارے کے بارے میں دی گئی معلومات کے مطابق ’آزادانہ اور حقیقی صحافت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ کارپوریٹ اور سیاسی کنٹرول سے آزاد ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب عوام آگے آئیں اور تعاون کریں۔‘

آلٹ نیوز فروری سنہ 2017 سے کام کر رہا ہے اور یہ ویب سائٹ مکمل طور پر رضاکارانہ کوششوں سے چلائی جا رہی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More