’گلگت سے واپسی پر داسو کے قریب ایک سٹرک کی تعمیر ہو رہی ہے، وہاں پر تعمیرات کی غرض سے بلاسٹنگ بھی ہوتی ہے۔ اس روز بلاسٹنگ کے دوران سڑک کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا اور بلاسٹنگ کے بعد جب روڈ کھلا اور گاڑیوں کو سفر کے لیے چھوڑا گیا، تو اسی وقت اُوپر سے پتھر گرے جس سے میری گاڑی کی ونڈ سکرین ٹوٹ گئی۔ ونڈ سکرین کے علاوہ گاڑی کا اور نقصان بھی ہوا مگر شکر ہے کہ میں اور میرے خاندان والے محفوظ رہے۔‘
یہ کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر داسو کے رہائشی محمد سائپور کا۔
محمد سائپور کا کہنا ہے کہ جس روڈ کی تعمیر اور وہاں ہونے والی بلاسٹنگ سے وہ متاثر ہوئے وہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا منصوبہ ہے۔
اس منصوبے کے تحت 37 کلومیٹر طویل ایک متبادل سٹرک تعمیر کی جا رہی ہے۔ متبادل سٹرک اس لیے تعمیر کی جا رہی ہے کیونکہ موجودہ سٹرک داسو ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد زیر آب آ جائے گی۔ اس سٹرک کی تعمیر کا کام گذشتہ سال شروع ہوا تھا۔ اس منصوبے کو ’کے کے ایچ ٹو‘ کا نام دیا گیا ہے۔
مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سٹرک اور منصوبے پر دیگر تعمیراتی کاموں کے لیے پہاڑوں پر دھماکا خیز مواد (بلاسٹنگ) استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے پہاڑ کمزور ہو رہے ہیں اور اب یہاں لینڈ سلائڈنگ روز کا معمول بن چکی ہے جبکہ ماحولیاتی حوالے سے بہتر سمجھے جانے والے اس علاقے کو ماحولیاتی آلودگی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
داسو میں مقامی افراد پر مشتمل جرگے نے گذشتہ دنوں دھماکا خیز مواد سے ہونے والے نقصانات اور اپنے دیگر مطالبات کو پورا کرنے کے لیے حکام کو ایک خط بھی تحریر کیا تھا جس پر عملدرآمد نہ ہونے کے بعد گذشتہ اتوار کو جرگہ ممبران نے علاقے کے لوگوں کے ہمراہ داسو ڈیم پر جاری تعمیراتی کام بطور احتجاج بند کروا دیا تھا۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کےانتظامی افسر محمد فہد نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے کچھ شعبوں پر کام بند ہے اور فی الحال انتظامیہ مقامی افراد سے مذاکرات میں مصروف ہے۔
اس رپورٹ کے فائل کرنے تک انتظامیہ اور جرگہ ممبران کے درمیاں مذاکرات جاری تھے۔
داسو میں قائم جرگے کے رکن حفیظ خان کا کہنا ہے کہ علاقہ مکین چاہتے ہیں کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ پر کام پُرامن طریقے سے جاری رہے کیونکہ یہ منصوبہ ناصرف پاکستان بلکہ کوہستان کے عوام کے لیے بھی خوشحالی کا باعث بنے گا۔ ’مگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا بھی تھوڑا خیال کیا جائے۔ ماضی میں ہمارے ساتھ مختلف اوقات میں دو معاہدے ہوئے، کسی ایک پر بھی عملدر آمد نہیں ہوا۔ ہم تو صبر اور حوصلے سے برداشت کرتے رہے مگر جب کوئی با ت نہیں سُنے گا تو ہم کیا کریں؟‘
انھوں نے کہا کہ خاص طور پر جب سے کوہستان کے مقام پر شاہراہ قراقرم - 02 منصوبے کا آغاز ہوا ہے تب سے ہماری زندگیاں عذاب بن چکیہیں۔
’گاڑیاں تباہ جبکہ آلودگی بڑھ رہی ہے‘
حفیظ خان کہتے ہیں کہجب سے داسوہائیڈروپاورپراجیکٹ کام شروع ہوا ہے اس وقت سے علاقہ مکینوں کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ’اصل مسئلے کا سامنا توشاہراہ قراقرم روڈ ٹو کی تعمیر سے ہو رہا ہے۔ اس روڈ کی تعمیر کے لیے پہاڑ میں نہ صرف کھدائی ہو رہی بلکہ وہاں پردھماکہ خیز مواد استعمال کیا جا رہا ہے، جس سے لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہیں۔‘
’دھماکا خیز مواد کے استعمال سے پہاڑ کمزور ہو رہے ہیں جو کہ کسی بھی وقت کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتے ہیں۔ دھماکہ خیز مواد کے استعمال کے وقت اور پھر بعد میں پہاڑ پر سے پتھر گرتے ہیں جن کے باعث علاقے میں بہت سے حادثات رونما ہو چکے ہیں۔ لوگوں کی گاڑیاں پتھر لگنے سے ٹوٹی ہیں۔‘
حفیط خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس سے پہلے کبھی کوہستان میں آلودگی نہیں دیکھی تھی۔ گرد و غبار کا تو یہاں تصور ہی نہیں تھا۔ اکا دکا سفر کرنے والی گاڑیوں سے دھواں ضرور ہوتا تھا مگر اس کے علاوہ کسیقسم کی آلودگی نہیں تھی۔ دریائے سندھ میں ملبہ پھینکنے سے دریا کی مچھلی بھی ختم ہو رہی ہے۔‘
’ہم لوگوں نے اس صورتحال پر ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ شکایات کیں ہیں، خطوط لکھے ہیں، مگر ہماری کوئی نہیں سن رہا ہے۔‘
ایک اور جرگہ ممبر محمد افضل کا کہنا تھا کہ قبائل کوہستان سے تو توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ملکی اہمیت کے داسو ڈیم کی تعمیر میں مثبت رویوں کا اظہار کریں، ہم اس مثبت رویے کا اظہار کئی سالوں سے کر رہے ہیں مگر اب حکومت اور متعلقہ اداروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی علاقہ مکینوں کا احساس کریں۔ ‘
محمد افضل کا کہناتھاماضی میں ان کے ساتھ انتظامیہ نے دو تحریری معاہدے کیے مگر جائز مطالبات پورے نہیں ہوئے اور اس مرتبہ ہم نے اپنا احتجاج شروع کرنے سے پہلے چارٹر آف ڈیمانڈ دیا ہے۔
داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کےانتظامی افسر محمد فہدسے جب ان شکایات پر رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اپنے مختصر جواب میں کہا کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں ہمیشہ مقامی لوگوں کو ہر معاملے میں اولیت دی گئی ہے اور اب بھی معاملات کو طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ماضی میں مقامی لوگوں کے تمام مطالبات کو پورا کیا گیا تھا۔
مطالبات کیا ہیں؟کوہستان جرگہ کی جانب سے دیے گے چارٹر آف ڈیمانڈ میں کہا گیا ہے کہ ’کے کے ایچ ٹو‘ پر روڈ کی تعمیرات کا کام انتہائی خطرناک طریقے سے ہو رہا ہے جہاں تعینات غیر مقامی سٹاف اپنے فرائض کو احسن طریقے سے ادا نہیں کر رہا، یہ افراد مقامی رسم و رواج سے بھی ناواقف ہیں اس لیے ان لوگوں کے خلاف فی الفور ضروری کارروائی کی جائے تعمیرات کی غرض سے صرف کنٹرول بلاسٹنگ کی جائےکوہستان میں دستیاب ہنر مندوں کو بھرتی میں اولیت دی جائےمزدوروں کی یومیہ اجرت میں اضافہ کیا جائےپراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ میں جتنے ملازمین ہیں انھیں مستقل کیا جائےواپڈا میں جتنے مقامی ملازمین ہیں انھیں مستقل کیا جائےجن لوگوں کے گھر پورے یا نصف متاثر ہوئے ہیں ان کو ’چولہا پیکج‘ دیا جائے سیاحت کی ترقی کے لیے اقدام اٹھائے جائیں
داسو پاور پراجیکٹ کے افسر محمد فہد کے مطابق تعمیرات کی غرض سے بہت ہی محدود پیمانے پر اور انتہائی احتیاط سے دھماکا خیز مواد استعمال کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی ماحولیاتی تشخیصی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ شاہراہ قراقرم کے ساتھ پہاڑوں اور چٹانوں پر لینڈ سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہے اور یہ ایک قدرتی امر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چٹانوں کو توڑنے کے لیے دھماکا خیز مواد کا استعمال چٹانوں میں تھرتھراہٹ پیدا کر سکتا ہے جو کہ لینڈ سلائیڈنگ کا سبب بن سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگر ان علاقوں میں کسی قسم کا دھماکا خیز مواد استعمال کرنے کی ضرورت ہے بھی تو اس کو بہت ہی محدود علاقے میں رکھا جائے اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال انتہائی محدود ہونا چاہیے۔
ڈاکٹر وقار حسین کراچی یونیورسٹی شعبہ جیالوجی کے ریٹائرڈسربراہ ہیں اور اس وقت وہ کراچی میں جیالوجی اور ماحولیاتی مینجمنٹ پر کنسلٹنٹ کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے پہاڑوں، چٹانوں میں دھماکہ خیز مواد کا استعمال بہت ہی بُرا طریقہ کار ہے جس سے بہت سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں جو تباہی کا باعث بنتے ہیں۔
محکمہ ماحولیات صوبہ خیبرپختونخوا کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر نعمان رشید کہتے ہیں کہ پاکستان میں بدقسمتی سے اس وقت پہاڑی علاقوں میں دھڑا دھڑ تعمیراتی کام ہو رہا ہے۔ ’کوہستان ہی نہیں بلکہ پورے شمالی علاقہ جات میں پہاڑوں اور چٹانوں کو کاٹا اور توڑا جا رہا ہے۔ اس پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ میدانی علاقے سے نکل کر شمالی اور پہاڑی علاقہ جات کی طر ف جائیں تو وہاں پر پہاڑ اور چٹانیں ختم ہو رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’مہذبدنیا میں اب کوئی بھی تعمیراتی مقاصد کے لیے دھماکہ خیز مواد استعمال نہیں کرتا، اس کے استعمال پر دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں پابندی ہے۔ ایسا صرف پاکستان اور ترقی پزیر ممالک میں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘
نعمان رشید کہتے ہیں کہ ’کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہضرورت کے روڈ کی تعمیر جیسے ترقیاتی کام نہ کریں مگر احتیاط اور انتہائی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ پاکستان ویسے ہی بدترین موسمی تبدیلی کے سبب سے قدرتی آفات کا شکار ہے، ایسے میں ماحولیات کو اپنے ہاتھوں سے تباہ کرنے سے نقصانات انتہائی بڑھ سکتے ہیں۔‘