عجائب گھر سے نوادرات چوری کرنا کتنا آسان ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 28, 2023

AFP

برطانوی میوزیم سے نوادرات چوری ہونے کی اطلاعات نے واضح کیا کہ لوگوں کو دنیا کے سب سے بڑے خزانے چرانے سے روکنے میں کیا رکاوٹیں درپیش ہیں۔

گذشتہ ہفتے قیمتی نوادرات کے غائب ہونے کی اطلاع کے بعد میوزیم نے عملے کے ایک رکن کو برطرف کر دیا اور برطانوی پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دیں۔

چوری ہونے والی اشیا کو تحقیق کے لیے استعمال کیا گیا تھا اور حال ہی میں نمائش کے لیے نہیں رکھا گیا تھا۔

آرٹ کی بازیابی کے ماہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ سکیورٹی کے باوجود میوزیم میں چوری کی وارداتیں عام ہیں اور ان چوری شدہ اشیا کا آگے کا سفر بلیک مارکیٹ میں فروخت کرنے سے لے کر نوادرات کو پگھلانے تک کا ہو سکتا ہے۔

ان کے مطابق بعض اوقات یہ قیمتی اشیا کہیں زیادہ کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔

میوزیم میں چوری کتنی بار ہوتی ہے؟

آرٹ ریکوری انٹرنیشنل کی وکیل اور بانی کرسٹوفر مارینیلو کے مطابق نوادرات کی چوری ’دنیا بھر میں ہر ایک دن‘ ہوتی ہے۔

ان کی تنظیم دنیا بھر میں آرٹ کے چوری شدہ نمونوں کو تلاش کرنے اور بازیاب کرنے میں مہارت رکھتی ہے۔

لیکن کرسٹوفر کا کہنا ہے کہ یہ ’حیران کن‘ ہے جب برٹش میوزیم جیسے ادارے بھی اس طرح کی وارداتوں سے محفوظ نہیں رہتے۔

برٹش میوزیم میں اس سے پہلے بھی چوری کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔

سنہ 2002 میں اس میوزیم نے 2500 سال پرانے یونانی مجسمے کو ایک عام آدمی کی طرف سے چوری کرنے کے بعد حفاظتی جائزے کا ایک پروگرام شروع کیا۔

اس واقعے میں ملوث چور 12 سینٹی میٹر اونچا (4.7 انچ) ماربل کا مجسمہ لے کر چلا گیا اور اس کا پتہ نہ چل سکا۔

اس وقت میوزیم نے کہا تھا کہ یونانی آثار قدیمہ کی گیلری میں کوئی مستقل گارڈ ڈیوٹی پر نہیں تھا۔ میوزیم کی انتظامیہ نے یہ بھی کہا کہ اس نے ان قیمتی نوادرات کو بچانے کے لیے اپنے حفاظتی اقدامات پر نظرثانی کی ہے اور 950,000 ڈالر کے مالیت کی ’کارٹئیر‘ کی انگوٹھی اس کے ورثے سے غائب ہونے کے بعد نمایاں سرمایہ کاری کی ہے۔

یہ انگوٹھی عوامی نمائش کے لیے نہیں رکھی گئی تھی۔ پولیس کو اس انگوٹھی کی گمشدگی کی اطلاع سنہ 2011 میں کر دی گئی تھی مگر سنہ 2017 تک اس کی تفصیلات عوامی سطح پر سامنے نہیں آئیں۔

میوزیم اپنے قیمتی اثاثے کی حفاظت کیسے کرتے ہیں؟

ان عجائب گھروں میں قیمتی ورثے کا بڑا حصہ شیشوں میں نظر آنے والی اشیا کے بجائے بند دروازوں کے پیچھے محفوظ طور پر رکھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر نیچرل ہسٹری میوزیم کے پاس 80 ملین نوادرات ہیں اور سائنسدان ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں اہم سوالات کے جوابات دینے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔ میوزیم نے اپنی ویب سائٹ پر کہا ہے کہ ان میں سے صرف ایک ’چھوٹا حصہ‘ عوامی نمائش کے لیے پیش کیا گیا ہے۔

سنہ 2019 میں میوزیم کی طرف سے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق برٹش میوزیم کا مجموعہ کم از کم 80 لاکھ اشیا پر مشتمل ہے، جن میں سے تقریباً 80,000 عوامی نمائش کے لیے ہیں۔

کرمنالوجی کی پروفیسر ایملین ٹیلر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’بہت زیادہ توجہ عوام کے سامنے ڈسپلے والی اشیا کی حفاظتی اقدامات پر مرکوز کی جاتی ہے بجائے کہ ان اشیا کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے جو بند دروازوں کے پیچھے رکھی گئی ہیں۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ برطانیہ میں عجائب گھروں اور گیلریوں کو کچھ حفاظتی تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو کہ آرٹس کونسل، تخلیقی صلاحیتوں اور ثقافت کے لیے قومی ترقی کے ادارے سے تسلیم شدہ ہوں۔

Reuters

وہ کہتی ہیں کہ لیکن یہ سسٹم صرف اس صورت میں کام کرتے ہیں جب سکیورٹی ٹیمیں ان کی نگرانی کرتی ہیں اور تضادات کی نشاندہی کو اٹھاتی ہیں۔

فارن بریڈلی نے خبردار کیا کہ عجائب گھر کے عملے کے ملوث ہونے یا اس سے چوری کی ایسی مثالیں ہوسکتی ہیں جن کے بارے میں عجائب گھر بھی واقف نہیں ہیں، کیونکہ اشیاء کے غائب ہونے کا احساس ہونے میں مہینوں یا سال لگ سکتے ہیں۔

انھوں نے ایسے حالات دیکھے ہیں جہاں عجائب گھر کے عملے کا فرد نہ صرف نوادرات کو ہٹا رہا ہے بلکہ ریکارڈ میں ترمیم کر رہا ہے تاکہ اگر کوئی سسٹم کو چیک کرتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ آئٹم قرض پر ہے، یا وہ کبھی بھی عجائب گھر کے ریکارڈ میں درج کرنے کا حصہ نہیں تھی۔

اور وہ ایک ایسے معاملے سے واقف ہیں جہاں کوئی آئٹمز کو کیسز سے نکال رہا تھا، اور ڈسپلے کو دوبارہ ترتیب دے رہا تھا تاکہ یہ فوری طور پر واضح نہ ہو کہ کوئی چیزغائب کی گئی ہے۔

عجائب گھر کے دیگر حفاظتی اقدامات کے بارے میں پوچھے جانے پر، وہ کہتی ہیں کہ کچھ کے پاس بیگ کی جانچ پڑتال، دھات کا پتہ لگانے والے آلات اور عملے اور آنے والوں کے لیے ایکسرے مشینیں ہیں۔

دوسروں کے پاس سیٹی بجانے کا نظام ہے جہاں کسی بھی سطح پر اہلکار تشویش کا اظہار کر سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’عجائب گھروں کو ایک ایسی پالیسی یا نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو لوگوں کے خدشات کو سن سکے، کیونکہ زیادہ تر وقت انسانی رویہ کسی نہ کسی مسئلے کا بہترین پتہ لگانے والا ہوتا ہے۔‘

لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔وہ کہتی ہیں کہ عجائب گھروں کو بھی اس طرح کی رپورٹوں کی چھان بین کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے، جس میں سکیورٹی فنڈنگ شامل ہوتی ہے۔

میوزیم سے چرائی گئی چیزوں سے منافع حاصل کرنا ممکن؟

آرٹ لوس رجسٹر، جو دنیا بھر کے عجائب گھروں سے گمشدہ، چوری شدہ اور لوٹے گئے آرٹ، نوادرات کا سب سے بڑا نجی ڈیٹا بیس سمجھا جاتا ہے اس کی فہرست کے مطابق دنیا بھر کے عجائب گھروں سے اس وقت تقریباً 700,000 اشیا غائب ہیں۔

لندن میں قائم یہ تنظیم لوگوں کو اشیاء خریدنے یا ہینڈل کرنے سے پہلے ان کی اصلیت کی جانچ کرنے میں مدد کرتی ہے۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ملکی ریاستوں کو بھی مفت مدد فراہم کرتی ہے۔

حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، نیلام گھروں، آرٹ میلوں، ڈیلرز، بینکوں اور قرض دہندگان، عجائب گھروں، آرٹ گیلریوں، پاون بروکرز اور نجی افراد کی جانب سے ہر سال تقریباً 450,000 شکایات صرف فروخت کے لیے رکھی جانے والی اشیا پر کی جاتی ہیں۔

آرٹ ریکوری انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والے مارینیلو کہتے ہیں کہ ان کی تنظیم کو انوینٹری قائم ہونے کے بعد گیلریوں اور عجائب گھروں سے چوری کی اطلاع دی جاتی ہے۔ جس میں گمشدہ اشیاء کی فہرست ہوتی ہے۔

پروفیسر ٹیلر کا کہنا ہے کہ ایک بار جب نایاب اشیا چوری ہو جاتی ہیں، تو یہ ان لوگوں کے لیے ’کم وقت مقابلہ سخت‘ والا معاملہ بن جاتا ہے جو اسے بیچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

بعض اوقات، قیمتی اشیاء نسبتاً کم قیمت پر فروخت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر، 2005 میں، ہنری مور کا ایک مجسمہ جس کی مالیت تین ملین پاؤنڈز تھی چوری ہو گیا اور پولیس کا خیال ہے کہ اسے پگھلا کر15 پاؤنڈز سے کم میں فروخت کر دیا گیا تھا۔

معروف نیلام گھر ایسی اشیاء فروخت نہیں کریں گے جن کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ چوری شدہ ہیں۔ لیکن کچھ نیلام گھرکمیشن کمانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ’جب کوئی اپنے سیل روم میں چوری ہونے کی اطلاع دیتا ہے تو مایوس ہو جاتے ہیں۔‘

اور پھر بلیک مارکیٹ ہے۔ مارینیلو کہتے ہیں کہ جو لوگ وہاں تجارت کرتے ہیں وہ ’کلیکٹرز اور ڈیلرز کو سخت رعایت پر اشیا فروخت کریں گے جو کسی کی پرواہ نہیں کرتے۔‘

سٹی یونیورسٹی لندن کے ایک ماہر تعلیم پروفیسر ٹیلر جو عملے کی بے ایمانی کو پکڑنے میں مہارت رکھتے ہیں، کہتے ہیں کہ ایک بار جب چور کوئی چیز حاصل کر لیتے ہیں تو انھیں ’جلد سے جلد ملک سے باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ انھیں’ایک خریدار کو بھی تیار کرنا ہوتا ہے کیونکہ دنیا بھر کے حکام ان اشیا کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھتے ہیں۔

لوگ فن پارے کیوں چُراتے ہیں؟

پروفیسر ٹیلر نے بی بی سی کو بتایا کہ اندرون ملک چوری کے پیچھے تین ممکنہ محرکات ہیں:

ایک فرد چوری کے ارادے سے عجائب گھر میں نوکری کرتا ہے۔

ایک بار کسی ادارے میں کام کرنے کے بعد انھیں احساس ہوتا ہے کہ ’واقعی کوئی بھی اس کی نگرانی نہیں کر رہا ہے، میں کچھ لے سکتا ہوں۔‘

متبادل طور پر، ایک فرد سے رابطہ کیا جاتا ہے یا بیرونی خریداروں کے ذریعے اسے چوری شروع کرنے کے لیے قائل کیا جاتا ہے۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’عام طور پر عملے کی بے ایمانی بہت چھوٹی چیز سے شروع ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی۔۔۔اور عجائب گھر کا ملازم ہر بار تھوڑا سا دلیر ہوتا جاتا ہے۔‘

لیکن فیرن بریڈلی کہتی ہیں کہ نوادرات کی چوری ہمیشہ مالی فائدہ سے متاثر نہیں ہوتی۔

کچھ لوگ اشیا چوری کر کے کبھی فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔‘ اس طرح کی اشیا ان کے گھروں میں محفوظ ہو جاتی ہیں جبکپہ وہ ان عجائب گھروں سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتی ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More