Getty Images
آج کل یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کوئی خاتون حاملہ ہے یا نہیں، ایک سادہ سا ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ یہ ہوم کٹس پہلی بار 1960 میں مارکیٹ میں آئی تھیں جو پیشاب میں موجود ایک ہارمون کو شناخت کر کے بتا دیتی ہیں کہ خاتون حاملہ ہیں یا نہیں۔
خون کا ٹیسٹ حمل ٹھہر جانے کے صرف 11 دن بعد ہی جواب فراہم کر سکتا ہے جبکہ پیشاب کی مدد سے کیا جانے والا ٹیسٹ اس کے چند دن بعد مددگار ہو سکتا ہے۔
تاہم مثبت ٹیسٹ بھی اس بات کی ضمانت نہیں ہوتا کہ حمل کے نتیجے میں بچہ پیدا ہو گا کیوں کہ ہر پانچ میں سے ایک حاملہ خاتون کا حمل ضائع ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔
لیکن مثبت حمل ٹیسٹ عام طور پر اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اب یہ خاتون ماں بننے والی ہیں۔ تاہم کیا ماضی میں بھی یہ جاننا اتنا ہی آسان تھا؟
ماہواری نہ ہونا یا پھر زیادہ بھوک لگنا بھی اس بات کے شواہد سمجھے جاتے ہیں کہ خاتون حاملہ ہو چکی ہیں لیکن یہ امکان بھی موجود ہوتا ہے کہ یہ علامات کسی بیماری کی وجہ سے نہیں۔
چھاتیاں ڈھلک جانا بھی حاملہ ہونے کی نشانی سمجھا جاتا Getty Images
قدیم یونان میں یہ مانا جاتا تھا کہ خواتین کو جسمانی تبدیلی سے علم ہو جاتا تھا کہ حمل ٹھہر چکا ہے۔ چوتھی صدی قبل از مسیح میں یہ تجویز دی جاتی تھی کہ سونے سے پہلے شراب اور شہد کی آمیزش والا پانی پیا جائے اور اگر خاتون حاملہ ہو گی تو اس کے پیٹ میں درد ہو گا۔
آکلینڈ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر کم فلپس نے تیرہویں صدی کے ایک طبی مقالے کا جائزہ لیا جس کا عنوان ’خواتین کے راز‘ ہے۔ اس میں بتایا گیا کہ اگر کسی لڑکی کی چھاتیاں نیچے کی طرف ڈھلک جائیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ حاملہ ہو چکی ہے۔
یہ گمان کیا جاتا تھا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل ٹھہر جانے کے بعد خاتون کا خون چھاتیوں کی جانب منتقل ہوتا ہے۔
حمل کی تصدیق میں پیشاب کا کردارGetty Images
آج کی دنیا میں اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں پیشاب مددگار ہوتا ہے۔ یہ ایک جدید طریقہ معلوم ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں۔ حقیقت میں قدیم مصر کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریقہ ساڑھے چار ہزار سال قبل بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔
قدیم مصری تحاریر سے علم ہوتا ہے کہ جب کوئی خاتون یہ جاننا چاہتی تھی کہ آیا وہ حاملہ ہے تو اسے کہا جاتا تھا کہ وہ گندم یا جو کے بیج پر پیشاب کرے اور ایسا کئی دن تک کرنا ہوتا تھا۔
اگر جو کے دانے سے پودا پھوٹ پڑتا تو اس کا مطلب تھا کہ لڑکا ہو گا لیکن اگر گندم پہلے پھوٹتی تو پھر لڑکی۔ اگر دونوں میں سے ایک بھی نہ ہوتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ خاتون حاملہ نہیں ہے۔
انسانی تاریخ میں حمل کی جانچ کے لیے کئی اور ٹیسٹ بھی کیے جاتے رہے ہیں۔
قدیم طبی تحاریر سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ عورت کے پیشاب میں سوئی رکھی جاتی جو لال یا کالے رنگ کی ہیئت لیتی اگر حمل ٹھہر چکا ہوتا۔
حمل کی تصدیق کے لیے سولہویں صدی میں سوئی کے لفظ کی غلط تشریح کی گئی۔ انگریزی میں سوئی کو نیڈل کہا جاتا ہے جبکہ نیٹل ادویات میں استعمال ہونے والا طبی صلاحیتوں کا حامل ایسا پودا ہوتا ہے جس کے پتے نوکیلے ہوتے ہیں۔
اس غلط فہمی کی بنا پر یہ سمجھا گیا کہ عورت اگر رات بھر اس پتے کو اپنے پیشاب میں بھگو کے رکھے اور صبح کے وقت اس پر سرخ دھبےنمودار ہو جائیں تو یہ اس عورت کے حاملہ ہونے کا ایک اشارہ سمجھا جاتا تھا۔
یہ تمامٹیسٹ ڈاکٹر کی نگرانی میں یا اس کے بغیر کیے جاتے تھے اور ان پر لوگوں کا اعتماد تھا۔
1518 میں جبلندن میں رائل کالج آف فزیشنز قائم ہوا تو اس نے خواتین کے علاج کرنے والے طبی ماہرین کو ایسی دواؤں کی مشق سے روک دیا جس میںیوروسکوپیز(پیشاب کا طبی معائنہ)بھی شامل تھا، لیکن کچھ خواتین نے ایسا کرنا جاری رکھا۔
17ویں صدی کے اوائل میں، ’مسز فلپس‘کے نام سے جانی جانے والی ایکممکنہ دائی کو حمل کا پتہ لگانے کے لیے یوروسکوپی استعمال کرنے پر عدالت میں بھیطلب کر لیا گیا تھا۔
1590 کی دہائی میں لندن میں کیتھرین چیئر نامی ایک خاتون نے غیر قانونی طور پر طبی مشق کرنا شروع کی۔ ان کا دعویٰتھا کہوہ ’صابن اور سرخ گلاب کے پانی سے خاتون کے کپڑے دھو کر ان کے حمل کی تشخیص کر سکتی ہیں۔‘
پیشاب ابالنے سے سفید لکیریں ظاہر ہوں تو عورت حاملہ سمجھی جاتی
17 ویں صدی کی مختلف طبی تحریروں میں پیشاب پر مبنی ٹیسٹوں کی مختلف حالتیں پائی جاتی ہیں۔
1656 کی کتاب ’دائیوں کے لیے مکمل مشق‘ میں کہا گیا ہے ’اگر کسی عورت کے پیشاب کو چند دنوں کے لیے ایک سیل بند ڈبے میں رکھا جائے تو اس کے اندر ’مخصوص جاندار چیزیں‘ دیکھی جا سکتی ہیں۔
اس وقت ایک اور ایک طریقہ پیشاب کو ابالنا تھا۔ اس دوران اگر سفید لکیریں ظاہر ہوں توسمجھا جاتا تھا کہ عورت حاملہ ہے۔
یہ 1930 کی دہائی تھی جب پہلی بار قدیم مصر میں حملجانچنےکے لیے جادوئی صلاحیتوں کے حامل سمجھے جانے والے ’سِیڈ ٹیسٹ‘ پر کوئی رعایت نہ برتنے کی تجاویز سامنے آئیں۔
اس نظریے کو جانچنے کے لیے کی جانے والی تحقیق سے پتہ چلاکہ 70 فیصد حاملہ خواتین کے پیشاب میں سیڈز (بیج) پائے جاتے ہیں تاہم اس کا بچے کی جنس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس دوران جب حاملہ نہ ہونے والی خواتین حتی کے مردوں کے پیشاب کے نمونوں پر اس عمل کا کوئی اثر نہیں دیکھا گیا جبکہ حاملہ خواتین کے پیشاب میں ایک منفرد مادہ موجود تھا۔
20 ویں صدی کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ بیج اور سوئیاں دراصل گلاب کے پانی میں کپڑے دھونے، یا چھاتیوں کی جانچ سے کہیں زیادہ قابل اعتماد پائی گئی ہیں۔
چوہے، خرگوش اور مینڈک پر تجرباتGetty Images
حمل کی تصدیق کےلیے پیشاب کو استعمال کرنے کا ایک اور طریقہ 1920 اور 1930 کی دہائی میں سامنے آیا۔
سب سے پہلے چوہوں اور خرگوشوں کو حاملہ عورت کے پیشاب کا انجکشن لگایا گیا اور پھر انھیں یہ دیکھنے کے لیے مارا گیا کہ آیا ان کے اووریز(بیضہ دانی) میں تبدیلی آئی ہے یا نہیں۔
بعد میں یہ تجربہ کیا گیا جس میں یہ جانچا گیا کہ حاملہ خاتون کے پیشاب کا انجیکشن لگانے سے مادہ مینڈک بھی انڈے دینے پر آ گئی جبکہ غیر حاملہ خاتون کے پیشاب سے کچھ نہ ہوا۔
اس موضوع پر تحقیق 1950 کی دہائی تک جاری رہی لیکن یہ تمام طریقے مہنگے بھی تھے اور 100 فیصد قابل اعتبار نہیں تھی دوسری جانب چوہوں اور مینڈکوں پر بھی اس کے اثرات کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔
اور پھر 1960 کی دہائی میں اینٹی باڈیز پر ہونے والی نئی تحقیق کی وجہ سے ان ٹیسٹوں کا آغاز ہوا جس سے آج ہم سب واقف ہیں۔
خواتین کی تاریخ میں حمل ٹھہرنا ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔
خاندانوں میں وراثت اور جانشینی کے معاملاتمیں عورت کا حاملہ ہونا لازمی عمل رہا۔
حمل کے ٹیسٹوں کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب تک حمل کے نتائج کا یقین کرنے کے لیے آلات وجود میں نہیں آئے، لوگ حمل جاننے کے لیے دراصل درست سمت میں قدم بڑھانا شروع ہو گئے تھے۔