انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی سنیچر کے روز بنگلور میں چندریان تھری مشن میں شامل سائنسدانوں کو مبارکباد دینے کے لیے پہنچے اور چاند کی سطح پر جہاں چندریان 3 کا لینڈر کامیابی کے ساتھ اترا تھا، اس مقام کو انھوں نے ’شیو شکتی‘ قرار دیا۔
انڈیا نے گذشتہ ہفتے بدھ کے روز چاند کے جنوبی قطب پر کامیابی کے ساتھ اپنا چندریان 3 مشن اتار کر تاریخ رقم کی اور اس وقت سے پورا ملک جشن میں ڈوبا نظر آتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی مودی نے چندریان 2 کے لینڈر کے اترنے کی جگہ کو ’ترنگا‘ کا نام دیا۔ خیال رہے کہ انڈیا کا یہ مشن ناکام ہو گیا تھا۔
دوسری جانب انڈیا میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس پارٹی نے جب اس مقام کے نام پر اعتراض کیا توانڈین میڈیا میں انھیں ’جواہر پوائنٹ‘ کی یاد دلائی گئی جہاں چاند پر بھیجا جانے والا پہلا مشن کریش ہوا تھا۔
کانگریس رہنما کا کہنا ہے کہ انڈین خلائی تنظیم ’اسرو‘ کی بنیاد چونکہ انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے ڈالی تھی اور یہ اسرو کی ہی بدولت ہے کہ انڈیا آج خلائی سائنس میں اس مقام تک پہنچا ہے، اس لیے اس مقام کا نام ’جواہر پوائنٹ‘ ہونے کا جواز ہے۔
سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمان شفیق الرحمان برق نے ’شیو شکتی‘ نام دیے جانے پر اعتراض کیا اور ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’وہ ہر چیز کو فرقہ وارانہ رنگ کیوں دینا چاہتے ہیں؟‘
ان کے خیال میں اس جگہ کا نام جہاں لینڈر اترا، ’اے پی جے عبدالکلام‘ ہونا چاہیے۔
خیال رہے کہ عبدالکلام کو انڈیا کا ’میزائل مین‘ کہا جاتا ہے اور وہ انڈیا کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اسے ’ہندو مسلم رنگ‘ نہیں دیا جانا چاہیے۔
’انڈیا کو نام رکھنے کا حق‘
حکومت ہند کے ٹوئٹر ہینڈل پر اسرو کے چیئرمین ایس سومناتھ کا بیان شیئر کیا گیا، جس میں انھوں نے کہا کہ ’آج وزیر اعظم ہمارے کنٹرول روم میں ہم سب کو مبارکباد دینے کے لیے آئے۔ وہ اس تاریخی واقعے کے متعلق جذباتی تھے۔ ہم بہت خوش ہیں کہ انھوں نے چندریان-3 کے اترنے کی جگہ کا نام ’شیو شکتی پوائنٹ‘ جبکہ چندریان-2 کے اترنے کے مقام کا نام ’ترنگا‘ رکھا ہے۔'
https://twitter.com/mygovindia/status/1695333631018053753
انڈیا میں حزب اختلاف کی رہنما اور ترنمول کانگریس پارٹی کی رکن پارلیمان مہوا موئترا نے وزیر اعظم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ٹویٹ کی اور لکھا کہ ’مودی جی نے چاند کے کچھ حصے کا نام ترنگا اور شیو شکتی رکھا ہے۔ اب اڈانی ریئل سٹیٹ کے شعبے میں داخل ہوں گے اور بغیر ٹینڈر کے چاند پر زمین کے رخ کے فلیٹس بنانے کے خصوص حقوق حاصل کریں گے۔ وہاں کسی مسلم کو اجازت نہیں ہو گی۔‘
https://twitter.com/MahuaMoitra/status/1695635273919672707
انڈیا ٹوڈے کی خبر کے مطابق آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے قومی صدر سوامی چکرپانی مہاراج نے چاند کو ’ہندو راشٹر‘ قرار دیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انھوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ ’انڈیا پارلیمنٹ میں ایک قرارداد لائے اور چاند کو ہندو راشٹر (ہندو ریاست) قرار دے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’چاند کو پارلیمنٹ کے ذریعے ہندو راشٹر قرار دیا جائے، چندریان 3 کے لینڈنگ کے مقام شیو شکتی پوائنٹ کو اس کا دارالحکومت بنایا جائے۔‘
بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر ان ناموں کے حوالے سے بات کر رہے ہیں اور اسے ملک و قوم کی عزت افزائی قرار دے رہیں جبکہ بہت سے لوگ اسے مذہبی رنگ دے رہے ہیں۔
BBCچاند پر کامیاب لینڈنگ کے مقاماتنام رکھنے کی روایت
انڈین خلائی تنظیم اسرو کے سربراہ ایس سومناتھ نے اتوار کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ’ملک (انڈیا) کو لینڈنگ سائٹ کو ایک نام دینے کا پورا حق ہے۔ لینڈنگ سائٹ کے نام رکھنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ چاند پر کئی انڈین نام پہلے سے ہی موجود ہیں۔ دوسرے ممالک نے بھی اپنے سائنسی کارناموں سے متعلق وہاں کے مقامات کے نام رکھے ہیں۔ جہاں معمولی تجربات کیے گئے ہیں ان مقامات کا بھی نام رکھا جائے گا۔ یہ روایت ہے۔‘
خیال رہے کہ دوسرے سیاروں اور ستاروں کی طرح چاند بھی کسی ملک کی ملکیت نہیں لیکن چاند پر یا کسی دوسرے سیارے یا فلکی اجسام پر مقامات کا نام دینے کا ایک طریقہ کار رائج رہا ہے۔
بین الاقوامی فلکیات یونین (International Astronomical Union) کی ویب سائٹ کے مطابق اس یونین میں پلینٹری سسٹم نامنکلیچر (نام دینے کا مروجہ طریقہ) کے لیے ایک ورکنگ گروپ (ڈبلیو جی پی ایس این) ہے اور کسی بھی جگہ کے نام کے لیے اس کی باقاعدہ منظوری درکار ہوتی ہے۔
اس یونین نے نام رکھنے کے رہنما اصول وضع کر رکھے ہیں۔ اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ یہ آسان، واضح اور غیر مبہم ہوں۔
اس میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ 100 میٹر سے کم کے رقبے والے حصے کو نام نہیں دیا جائے گا البتہ اگر بہت زیادہ سائنسی اہمیت اور دلچسپی کی بات ہو تو اس صورت میں استثنی حاصل ہوگا۔
رہنما اصول میں جو بات انڈیا کی جانب سے نام دیے جانے کے معاملے میں انتہائی اہم نظر آتی ہے وہ یہ کہ ایسا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا جو سیاسی، عسکری یا مذہبی اہمیت کا حامل ہو۔ صرف ان سیاسی شخصیات کا نام دیا جا سکتا ہے جو 19ویں صدی سے پہلے کی ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ’شیو شکتی‘ نام ہندو مذہب سے مخصوص ہے اور یہ ہندو دیوتا کی قوت کا مظہر ہے جبکہ ’ترنگا‘ سیاسی اہمیت کا حامل ہے اور یہ انڈیا کے پرچم کا نام ہے۔
دوسری جانب اگر کانگریس پارٹی کی جانب سے تجویز کیے گئے یا سماج وادی پارٹی کے رہنما کی جانب سے تجویز کیے گئے ناموں پر غور کیا جائے تو جواہر لعل نہرو انیسویں صدی سے پہلے کی شخصیت نہیں اور نہ ہی عبدالکلام 19 ویں صدی سے پہلے کے ہیں اس طرح یہ نام بظاہر آئی اے یو کے ورکنگ گروپ میں قابل قبول نہیں ہوں گے۔
Getty Imagesکوئی ملک چاند کا مالک کیوں نہیں ہو سکتا؟
کانگریس رہنما اور ترجمان راشد علوی نے چاند پر مقامات کے نام دیے جانے کو بے تکا کام قرار دیا۔
انڈیا ٹوڈے کے مطابق انھوں نے کہا کہ ’ساری دنیا ہنسے گی۔۔۔ ہم وہاں اترے ہیں، ہمیں اس پر فخر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہم چاند کے مالک نہیں اور نہ ہی اس مقام کے مالک ہیں۔‘
بہرحال ایک زمانہ تھا جب امریکہ اور روس (سویت یونین) کے درمیان خلائی مقابلہ جاری تھا۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ فوجی اور معاشی برتری کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ممالک خلائی سائنس میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے میں لگے تھے۔
اسی مسابقت کے تناظر میں سنہ 1966 میں اقوام متحدہ کا دفتر برائے بیرونی خلائی امور ’آؤٹر سپیس معاہدہ‘ کے ساتھ سامنے آیا۔
اقوام متحدہ نے خلائی تحقیق کے لیے کچھ مشترکہ اصول طے کرتے ہوئے معاہدے کے آرٹیکل دوم میں کہا کہ ’خلائی حصہ، بشمول چاند اور دیگر آسمانی اجسام، خودمختاری کے دعوے، استعمال یا قبضے کے ذریعے، یا کسی دوسرے ذریعے سے قومی اختصاص کے تابع نہیں۔‘
اس کا مطلب بس اتنا تھا کہ دنیا کے تمام ممالک اپنی خلائی ریسرچ سرگرمیوں میں تعاون کریں اور وہ اس پر کوئی دعویٰ نہیں کر سکتے۔
یورپی خلائی ایجنسی میں پبلک انٹرنیشنل لا کے سربراہ الیگزینڈر سوسک نے ڈی ڈبلیو کی ایک رپورٹ میں کہا کہ ’کوئی ملک چاند پر اپنا پرچم لگا سکتا ہے لیکن اس کا کوئی قانونی معنی یا نتیجہ نہیں ہوگا۔۔۔‘ تاہم معاہدے میں چاند پر سائٹس کے نام رکھے جانے کے بارے میں وضاحت سے کوئی بات نہیں کہی گئی۔