Getty Images
ڈائٹ کرنے کے رجحان کو دنیا بھر میں اکثر اچھا سمجھا جاتا ہے اور بہت سی مشہور شخصیات بھی اس کی تائید اور توثیق کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اسے صحت مند زندگی اور تندرست زندگی کا ذریعہ کہا جاتا ہے اور اس نے دنیا میں تیزی سے بڑھتی ہوئی 250 بلین ڈالر کی صنعت کی بنیاد رکھی ہے۔
لیکن اس کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ ڈائٹنگ نقصاندہ بھی ہو سکتی ہے۔
تقریباً 2،000 زیادہ وزن والے اور موٹے افراد جو وزن کم کرنا چاہتے تھے، پر کی گئی ایک تحقیق میں یہ پتہ چلا کہ جو لوگ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے ان میں ڈپریشن کی علامات دوسرے لوگوں کے مقابلے میں تقریباً 80 فیصد زیادہ تھیں۔
کیلوریز کو کم کرنے کے لیے یہ شاید ایک زبردست سیلز پچ ہے، لیکن بھوکا رہنا ہمارے ذہنوں کو کئی طرح سے متاثر کر سکتا ہے، کم از کم ہمیں ’ہنگری‘ بنا کر، یعنی ہم کھانے کے وقت کے درمیان طویل وقفے کے باعث غصے کی کیفیت میں آ سکتے ہیں۔
درحقیقت، تحقیق سے ثابت ہو رہا ہے کہ بھوکا رہنا یا فاقہ کرنا ہمارے جذبات سے لے کر ہماری فیصلہ کرنے کی صلاحیت تک ہر چیز کو کم از کم مختصر مدت کے لیے منفی طور پر متاثر کر سکتا ہے۔ یہ تمام چیزیں بالآخر اس بات پر اثر انداز ہوتی ہیں کہ ہم کتنی اچھی طرح سے سوچتے ہیں اور فیصلے کرتے ہیں۔
یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو ڈائٹنگ سے کہیں زیادہ سنجیدہ ہے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت سے لوگ اپنا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں، یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھوک عدم مساوات کو بڑھا سکتی ہے۔
ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انڈیا کے سکولوں میں سکول کے کھانے کی فراہمی نے طلبہ کی علمی کارکردگی کو 13 فیصد سے 16 فیصد تک بہتر بنایا ہے۔
Getty Images
مناسب غذائیت اور کیلوریز کے بغیر ہمارے دماغ کی نشوونما اور اس کے کام کرنے کا طریقہ متاثر ہو سکتا ہے۔ لیکن روزمرہ کی بھوک ہماری سوچ کو کیسے متاثر کر سکتی ہے؟
ہمارے سوچنے کے طریقے پر جذبات کا گہرا اثر ہوتا ہے، خاص طور پر جب ہم انھیں سمجھ نہیں پاتے۔ لیکن جب ہم یہ جان جائیں کہ وہ ہماری سوچ اور فیصلہ سازی پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں تو اپنے جذبات کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا ہے۔
برا موڈ اکثر ہمیں زیادہ مایوسی کا شکار بناتا ہے، مثال کے طور پر یہ ہماری سوچ کو زیادہ منفی کرتا ہے۔
تحقیق یہ ظاہرکرتی ہے کہ اگر آپ پریشان نہیں ہیں تو آپ کوئی بھی مالی معاملات طے کرتے وقت نقصان کے خطرے میں نہیں ہوں گے لیکن اگر آپ نے ایک ایسی فلم دیکھی ہے اجس نے آپ کو اداس کر دیا ہے تو اس کے بعد اگر آپ ایک جیکٹ آن لائن فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو امکان ہے کہ آپ اسے کم قیمت پر بیچیں گے۔
لیکن اس سب کا ہمارے کھانے سے کیا لینا دینا ہے؟
Getty Images
بھوک منفی جذبات اور خراب مزاج کا ایک عنصر لگتا ہے۔ 2022 کی ایک تحقیق میں، ماہر نفسیات نینکے جونکر اور نیدرلینڈز کی یونیورسٹی آف گروننگن کے محقیقن نے 129 خواتین جن میں سے نصف کو 14 گھنٹے بھوکا رہنے کے لیے کہا گیا تھا سے ان کی بھوک کی شدت، کھانے کی عادات اور مزاج کے بارے میں سوالات کیے گئے۔
ان محققین نے جانا کہ بھوکی خواتین میں زیادہ منفی جذبات سامنے آئے جن میں تناؤ، غصہ، ڈپریشن، تھکاوٹ اور الجھن شامل ہیں۔
محقق جونکر کہتے ہیں کہ ’ان خواتین میں یہ معمولی اثرات نہیں تھے۔ بلکہ بھوکی خواتین نے بتایا کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں دوگنا غصہ کرتی تھیں۔ وہ بالکل بھوک کے باعث غصے میں کیفیت میں تھیں۔‘
خراب مزاج دنیا کو دیکھنے کے نظریے کو یکسر بدل سکتا ہے۔ اگر آپ کا مزاج خراب ہے تو آپ کو سب منفی باتیں یاد آئیں گی جو آپ کے مزاج کو مزید خراب کر دیں گی۔
یہ منفی مزاج ہمیں صورتحال کو سمجھنے اور فیصلوں میں غلطیاں کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے ہم دنیا کو سیاہ اور سفید کے انداز میں دیکھتے ہیں اور تمام اہم باتوں سے محروم رہتے ہیں۔
جب ہم مایوسی محسوس کرتے ہیں، تو ہم مثبت باتوں کے بجائے منفی باتوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جو ہمیں اپنے بارے میں برا محسوس کروا سکتی ہیں۔
تحقیق اور تجربات کے ایک اور سلسلے میں امریکی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا کے ماہر نفسیات اور نیورو سائنسدان کرسٹن لِنڈکوئسٹ اور دیگر محققین نے پایا کہ بھوک لوگوں میں منفی جذبات کے رجحان کو بڑھاتی ہے۔
انھوں نے 218 افراد (جن میں سے کچھ بھوکے تھے) کو غیر جانبدار، مثبت اور منفی تصاویر دکھائیں (جیسے کہ ایک غصیلا کتا)، اور پھر ان سے کہا کہ وہ اپنی آنتوں کے احساس کو یہ تعین کرنے کے لیے استعمال کریں کہ آیا زیادہ مبہم تصویر مثبت ہے یا منفی۔ .
جن لوگوں کو پہلے منفی تصویر دکھائی گئی تھی وہ تصویر کو منفی قرار دینے کا زیادہ امکان رکھتے تھے، حالانکہ انھیں پچھلی تصویروں سے متاثر نہ ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جن شرکا نے ٹیسٹ دینے سے پہلے خود کو بھوکا بتایا تھا، ان میں اس طرح کی ہیرا پھیری کا امکان زیادہ تھا۔
تاہم بھوک سے صرف ہمارا مزاج خراب یا سوچ ہی منفی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمیں جذباتی بھی بنا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ دوپہر کے کھانے سے پہلے اپنا استعفیٰ کا خط لکھ رہے ہیں تو یہ کافی سخت ہو گا۔
اس کی مثال 2011 کی ایک تحقیق سے دی جا سکتی ہے کہ اسرائیلی پیرول ججز مقدموں کی سماعت کرتے ہوئے دن کے آغاز پر نرم جبکہ کھانے کے بعد یا دن کے آخری حصے میں اپنے فیصلوں میں زیادہ سخت ہو جاتے تھے۔
Getty Images
اگرچہ اس تحقیق پر بہت تنقید ہوئی کہ اس میں ججوں کی بھوک کی شدت کی بجائے مقدمات کے شیڈول کا بھی عنصر ہے کیونکہ سائنس اس نظریے کو ثابت نہیں کرتی کہ جب ہم بھوکے ہوتے ہیں تو زیادہ سخت ہو جاتے ہیں۔
لنڈ کوئسٹ کے مطابق حقیقی دنیا کے حالات، جیسا کہ پیرول بورڈ کی سماعت کے دوران کی گئی تحقیق میں پائے جانے والے اثرات کی وجہ کا تعین کرنا مشکل ہے۔ اس کی ہمیشہ متبادل، ممکنہ وضاحتیں ہوتی ہیں۔ لیکن آپ اکثر لیبارٹری کے حالات میں ان پر قابو پا سکتے ہیں۔
یہ جانچنے کے لیے کہ آیا لوگ بھوک کی حالت میں واقعی دوسروں کے لیے سخت تھے لِنڈکوِسٹ نے 236 لوگوں کو اپنی لیبارٹری میں مدعو کیا۔
ان میں سے تقریباً نصف نے کم از کم پانچ گھنٹے کا فاقہ کر رکھا تھا جبکہ باقی افراد نے کچھ دیر قبل کھانا کھایا تھا۔ اس کے بعد ان سے کمپیوٹر پر جیومیٹرک اشکال بنانے کے مشکل کام کو کہا گیا اور پھر اچانک سسٹم کریش ہو گیا اور انھیں دوبارہ سے کرنے کو کہا گیا۔
اس مشکل مشق کے اختتام پر شرکا سے کہا گیا کہ وہ محقق کے بارے میں ممکنہ طور پر تھوڑی سخت رائے دیں۔
لنڈ کوئسٹ کہتے ہیں کہ ’وہ لوگ جو بھوکے تھے اور اپنے جذبات پر توجہ نہیں دے رہے تھے یا اپنی جسمانی حالت کے بارے میں آگاہ نہیں تھے، نے محقق کے بارے میں فیصلہ کن رائے دی۔‘
بھوک ہمیں اس طرح محسوس کرنے اور برتاؤ کرنے پر مجبور کیوں کرتی ہے اس کی وجوہات پیچیدہ ہیں۔
یہ خود پر قابو پانے میں ناکامی کی وجہ سے ہو سکتا ہے جو اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فاقے سے خون میں گلوکوز کی سطح کم ہوجاتی ہے۔ یہ نظریہ یہ بتاتا ہے کہ ہم سب دنیا کے بارے میں منفی خیالات کا شکار ہیں، لیکن یہ کہ ہم ان کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔ جب تک کہ بھوک ہماری ایسا کرنے کی صلاحیت کو ختم نہ کر دے۔
تاہم اس نظریے پر تنقید کی گئی ہے اور دیگر نظریات تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر لِنڈکوئسٹ کا خیال ہے کہ ’ہنگر‘ جیسے احساسات دراصل جسمانی حالت کی جذباتی حالت کے طور پر غلط تشریح ہیں۔
Getty Images
لنڈ کوئسٹ اس کے حق میں کہتے ہیں کہ بھوکے لوگ جو اپنے جذبات کی عکاسی نہیں کرتے ہیں انھیں غلط سمجھنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں ان میں زیادہ غصہ اور سختی ہو سکتی ہے۔
لِنڈکوئسٹ کہتے ہیں کہ ’جو احساسات آپ کے جسم میں پیدا ہوتے ہیں وہ بھوک لگنے سے دوگنا ہو جاتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ممکن ہے کہ آپ عام طور پر اپنے ساتھی کارکن سے ناراض نہ ہوں، لیکن جب آپ کو بھوک لگتی ہے تو آپ کو لگتا ہے کہ یہ بہت برا ہے۔‘
یہ نظریہ ڈائٹ کرنے والے لوگوں کے لیے ایک گیم چینجر ہو سکتا ہے۔ اگر بھوک محسوس کرنے کے منفی ذہنی پہلو جسمانی احساس کی غلط تشریح کرنے کی وجہ سے ہوتے ہیں، تو ہم شاید اس جسمانی احساس کی بہتر انداز میں تشریح کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
یہ کوگنیٹو بیہورل تھراپی کی طرح کام کر سکتا ہے، جو ہمارے خیالات اور احساسات کو دوبارہ ترتیب دینے میں ہماری مدد کرتی ہے۔
بھوکی خواتین کے جذبات کے حوالے سے جونکر کی تحقیق اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ خوراک یا کھانے کی عادات میں خرابی کی علامات والی خواتین ایسی علامات والی خواتین کے مقابلے میں بھوکے ہونے پر زیادہ مثبت احساسات ظاہر کرتی ہیں۔ اگرچہ کھانے کی عادات کی خرابی ذہنی صحت کی پیچیدہ صورتحال ہے لیکن نتائج بتاتے ہیں کہ ان خواتین نے بھوک کو ایک منفی تجربے کے طور پر سیکھا ہے۔
البتہ جب آپ کو کھانے کی عادات میں خرابی کے مسائل ہو تو اس طرح کی ذہنی حالت انتہائی خطرناک اور غیر فائدہ مند ہوتی ہے۔
یہ سب ارتقائی وجوہات کے باعث ہے کہ ہم بھوک کو شدید ناخوشگوار چیز کے طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ بہر حال، جب ہمارے جسم میں غذائیت کی کمی ہوتی ہے، تو ہمارا دماغ ہمیں اس پر ردعمل دینے پر مجبور کرتا ہے۔
لنڈکوئسٹ کہتے ہیں کہ ’ ارتقائی نقطہ نظر سے، یہ سمجھ آتا ہے کہ بھوک جذبات کے ساتھ مل کر ہمارے ردعمل ہو ترتیب دیتی ہے اور ہم طویل مدتی فوائد کی بجائے فوری فوائد پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔‘
برطانیہ کی ڈنڈی یونیورسٹی کی ایک تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جب لوگ بھوکے ہوتے ہیں تو وہ موجودہ وقت کی طرف متعصب ہو جاتے ہیں اور تسکین حاصل کرنے میں تاخیر کر دیتے ہیں۔
Getty Images
اس تحقیق میں محققین نے شرکا کو فوری طور پر 20 پاؤنڈ نقد یا 20 گانے ڈاؤن لوڈ کرنے یا مستقبل میں اس رقم کو دوگنا کرنے کی پیشکش کی۔
جو شرکا بھوکے نہیں تھے تو وہ بڑے انعام کے لیے بالترتیب 90 یا 20 دن انتظار کرنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن بھوکے شرکا میں سے زیادہ تر 40 سے 12 دن تک انتظار کرنے پر آمادہ تھے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھوک ہمیں مستقبل کی منصوبہ بندی کی بجائے فوری عمل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
خوراک کی پابندی بھی ہمارے ادراک کو براہ راست متاثر کرتی ہے۔ بھوک یا فاقے سے ادراک کے اثرات کی تحقیق کے 2021 کے جائزے سے معلوم ہوا کہ بھوکے رہنے سے ایک وقت میں مختلف کاموں پر توجہ دینے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ جانتے ہوں گے کہ جب ہمیں بھوک لگتی ہے تو ہمیں چاکلیٹ کیک، گرما گرم کرارے چپس، یا مسالہ دار نوڈلز کے مسلسل خیالات آتے ہیں۔ اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہت عام بات ہے۔
بھوک کھانے کے بارے میں ہماری توجہ بڑھاتی ہے۔ جو اس نظریے کو تقویت دیتا ہے کہ بھوک جسم کو کھانا کھانے یا تلاش کرنے پر مجبور کرتی ہے اور یہ کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں اس سے ہماری توجہ ہٹانا اس عمل کا پہلا مرحلہ ہے۔
جدید دنیا میں اور خاص طور پر مغرب میں اگرچہ خوراک حاصل کرنا مشکل نہیں ہے لہذا بھوک کے باعث توجہ ہٹانا فائدے سے زیادہ نقصانات پیدا کر سکتا ہے۔
جرمنی کی ہائیڈلبرگ یونیورسٹی کے علمی نفسیات کے ماہر جان رومل اور ساتھیوں نے تحقیق کی کہ آیا بھوکا رہنے سے لوگوں کے ذہنی طور پر بھٹکنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جیسے کہ کھانے کے بارے میں تصور کرنا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر اگر آپ لوگوں کو ذہنی طور پر بھٹکتے ہوئے پاتے ہیں، تو ان کی اپنے کام میں کارکردگی کم ہو جاتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ یہ اثر صرف اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کام کافی پیچیدہ ہو، جیسے پڑھنا۔
’اگر ہم استری کر رہے ہیں یا کچھ اور تو مجھے لگتا ہے کہ ہمارا ذہن بھٹک سکتا ہے اور اس سے کام کی کارکردگی متاثر نہیں ہوتی ہے کیونکہ یہ کام کافی آسان ہے۔‘
انھوں نے اس بارے میں تحقیق کی کہ بھوکے افراد ایک پیچیدہ کام میں دماغ کے بھٹکنے سے کس حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
انھوں نے شرکا کو مشہور ناول ’وار اینڈ پیس‘ کے 27 صفحات کو پڑھنے کو کہا اور اس کے بعد اسے سمجھنے کا امتحان لیا۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا اس دوران ان کا دماغ بھٹک رہا تھا اور اگر ایسا تھا تو وہ کیا سوچ رہے تھے۔
اس تحقیق میں 39 افراد کو پانچ گھنٹے تک کھائے بغیر لیبارٹری میں آنے کو کہا گیا، جبکہ 91 کو پیٹ بھر کر لیبارٹری میں آنے کو کہا گیا۔
پھر دونوں گروپوں میں سے 46 لوگوں کو ایک شہوت انگیز کہانی کی ریکارڈنگ سنائی گئی اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا ان کے دماغ کے بھٹکنے میں اضافہ ہوتا ہے۔
Getty Images
محققین نے دریافت کیا کہ جن لوگوں کے دماغ بھٹک رہے تھے، انھوں نے اتنا ہی برا کام کیا اور بھوکا گروپ ذہنی طور پر بھٹکنے کا سب سے زیادہ شکار تھا۔
یہ افراد دوسروں کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ غیر متوجہ تھے اور وہ بنیادی طور پر کھانے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھوکا ہونا، جنسی خواہش پر بھی حاوی ہوتی ہے۔
برطانیہ کی بنگور یونیورسٹی کے ماہر نفسیات جان پارکنسن نے یہ ثابت کیا ہے کہ بھوکے لوگ جو کھانے کے بارے میں سوچ کر پریشان ہوتے ہیں ان میں باریکی کے کرنے والے کام میں غلطیوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
پارکنسن بتاتے ہیں کہ ’یہاں خوف اور اضطراب کے احساسات ملے ہوئے ہیں۔‘
’اگر میں آپ کو سانپوں کی تصویر یا کچھ ایسا دکھا کر آپ کو پریشان کرتا ہوں تو آپ اپنی توجہ کو کم کر دیتے ہیں۔ اور آپ اس بات پر توجہ مرکوز کریں گے کہ سانپ سے کیسے نجات حاصل کی جائے۔‘
پارکنسن کہتے ہیں کہ ’اسی طرح، جب ہم بھوکے ہوتے ہیں اور احساس سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہماری سوچ نمایاں طور پر خراب ہو سکتی ہے۔‘
پارکنسن کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایسے وقت میں مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، تو آپ ’طویل مدتی پیچیدہ حل کے بجائے آسان، فوری حل کا انتخاب کر سکتے ہیں۔‘
سادہ فیصلوں کے لیے بھی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جیسے کہ کیا کھانا ہے۔ اگر ہم ڈائٹ پر ہیں تو کیا ہمیں چربی والی، کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور غذائیں کھانے کی شدید خواہش کو روکنے کے لیے ادراک کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر ہم اس طرح سے بھوکے اور ذہنی طور پر بھٹکے ہوئے خریداری کرنے جاتے ہیں، تو ہم بہت ساری بے کار چیزیں خریدتے ہیں۔‘
بھوک ایک طاقتور جسمانی سگنل ہے کیونکہ یہ ہمیں زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے۔ لیکن، یہ ہماری سوچ میں مداخلت کر سکتی ہے۔ جب ہم بھوکے ہوں گے، تو ہم ممکنہ طور پر پیچیدہ کام کرنے میں مشکل کا سامنا کریں گے اور سوچنے کے آسان طریقوں کا انتخاب کریں گے۔ چڑچڑاپن، جذباتی، سخت مزاجی اور اپنی موجودہ حالت کو برا کہنا یہ احساسات صرف بھوک کی وجہ سے ہیںاور یہ ہمارے ذہنوں کو مزید الجھا دیتے ہیں۔
لیکن بھوک سے آگاہ ہونا بہت مفید ہو سکتا ہے۔ اگلی بار جب آپ غصے میں ہوں یا مزاج خراب ہو تو خود سے سوال کریں کہ کیا آپ بھوکے تو نہیں ہیں۔
اگر آپ یہ جان گئے ہیں کہ آپ کے جذبات کہاں سے آرہے ہیں، تو آپ کا ان کے ہاتھوں بیوقوف بننے کا امکان کم ہے۔ اور اگر آپ کا کوئی اہم کام آنے والا ہے جیسے کہ کام کی کارکردگی کی رپورٹ لکھنا، سرمایہ کاری کا فیصلہ کرنا یا اپنے تعلقات میں کسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے بات چیت کرناتو یہ آپ نے بھوکے پیٹ نہیں کرنا ہے۔ مگر احتیاط کیجیے گا زیادہ کھانا بھی آپ کو متاثر کر سکتا ہے۔