Getty Images
جب آپ سب سے اچھے صفائی کے سامان کے بارے میں سوچتے ہیں تو شاید ذہن میں پہلا نام ٹک ٹاک کا نہیں آتا لیکن اب لوگ پراڈکٹ ڈھونڈھنے کے لیے سوشل میڈیا کا رُخ کر رہے ہیں۔ وہ بڑے انفلوئنسرز اور کونٹینٹ بنانے والوں کی تجویزات کی بنیاد پر چیزیں خرید رہے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر آپ ہیش ٹیگ بُک ٹاک (#booktok) کے ساتھ شائع کی گئی ویڈیوز کو دیکھیں تو ویڈویز بنانے والے لوگ کتابوں پر ریویو دے رہے ہی اور لوگوں کو تجاویز دے رہے ہیں۔
اعداد و شمار دکھاتے ہیں کہ جن مخصوص کتابوں کی ان ویڈیوز کے ذریعے تشہیر کی جاتی ہے ان کی فروخت پر اثر پڑتا ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ فقط ویڈیو بنانے والے کی طرف سے توثیق کرنے پر ہی لوگ خریداری نہیں شروع کر دیتے۔
سکرین پر چہرے کے ساتھ ایک نازک نفسیاتی تعلق کے ساتھ ساتھ ٹک ٹاک کے بنیادی میکانزم دونوں ہی صارفین کو اپنی فیڈز میں نظر آنے والی کوئی چیز خریدنے کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تجویز دینے والے پُراعتماد
امریکہ کی ناردرن الینوائے یونیورسٹی میں مارکیٹنگ کی اسسٹنٹ پروفیسر والیریا پینٹینن کہتی ہیں کہ ’ٹک ٹاک اور انسٹاگرام جیسے ویڈیوز پر مبنی پلیٹ فارمز نے ہم صارفین کی استعمال اور خریداری سے متعلق فیصلے کرنے کے طریقے کو بہت زیادہ تبدیل کر دیا ہے۔‘
اہم بات یہ ہے کہ یہ پلیٹ فارم صارفین کو تھوڑے وقت میں بہت ساری مصنوعات اور سروسز دکھا دیتے ہیں، جب وہ کانٹینٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ اپنے آپ میں ایک مثال چیز ہے۔
امریکہ میں جنوبی کیرولائنا کی کلیمسن یونیورسٹی کے ولبر او اینڈ این پاورز کالج آف بزنس کی مارکیٹنگ کی پروفیسر اینجلین شیبنام کہتی ہیں کہ اگر لوگوں کو ڈیجیٹل مواد بنانے والا قابل بھروسہ محسوس ہو تو ان کی سکرین پر آنے والی چیزوں کی خریداری کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔
انٹرنیٹ کلچر پر نظر رکھنے والی صحافی کیٹ لنڈزی ایک گھر میں رہنے والی ماں کی مثال دیتی ہیں جو صفائی کی پراڈکٹ استعمال کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ وہ ایک ماں ہیں، وہ تھک گئی ہیں اور یہ صفائی کا حل پورے دن ان کی مدد کرتا ہے۔۔۔ ایک درجے کا تعلق اور اعتبار بن جاتا ہے جہاں آپ سوچتے ہیں ’آپ میری جیسی نظر آتی ہیں اور یہ آپ کے لیے مددگار ہے تو یہ میرے لیے بھی مددگار ہو گا۔‘
جب ایک کیریٹر کی تجویز آر گینک ہو یعنی اس کے لیے پیسے نہ دیے گئے ہوں تو ان کی ساکھ آسمان چھو جاتی ہے۔ ’آرگینک انفلواینسرز زیادہ مستند ہوتے ہیں۔۔۔ ان کی ترغیب حقیقی طور پر ایسا مال یا سروس کو شیئر کرنا ہے جس سے ان کی زندگی میں خوشی یا سہولت آئی ہو۔‘
پروفیسر اینجلین شیبنام کہتی ہیں کہ کیریٹرز کا قابل بروسہ ہونا ایک مخصوص مارکیٹ کے خاص پروڈکٹس کی خریداری بھڑہانے میں خاص طور پر طاقتور ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کانٹینٹ کیریٹرز ان چیزوں میں مہارت حاصل کرتے ہیں جن کا انھیں جنون ہوتا ہے اور بہت کم لوگ اس میں مہارت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ’ان مائکرو انفلواینسرز کے ساتھ، صارف کو زیادہ اعتماد ہوتا ہے کہ وہ اس سےخریداری کر رہے ہیں جو خود پراڈکٹ کو استعمال کرتے ہیں۔۔۔ ان کا تھوڑا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔‘
تصویر اور تحریر کے مقابلے میں ویڈیو پوسٹ ناظرین کی نظر میں ساکھ کو مزید بہتر کرتی ہے۔ پروفیسر والیریا پینٹینن کہتی ہیںکہ ویڈیو ’ذاتی انکشاف‘ کا ایک مخصوص ماحول بناتی ہے جو صارفین کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کیریٹر کا صرف چہرہ، ہاتھ یا بولنے کا انداز انھیں صارف کے لیے زیادہ قابل اعتماد بنا دیتا ہے۔
کچھ تحقیقات کے مطابق یوٹیوب انفلواینسرز جب کسی چیز کا ریویو دے رہے ہوتے ہیں تو اس میں اپنی ذاتی زندگی کے متعلق معلومات بھی دیتے ہیں تاکہ دیکھنے والے کو ایسا محسوس ہو کہ وہ ایک قریبی دوست یا گھر کا فرد ہے۔ دیکھنے والے کو جتنا زیادہ محسوس ہو کہ وہ کیریٹر کو ’جانتا‘ ہے وہ اتنا ہی ان پر اعتبار کرتے ہیں۔
پروفیسر اینجلین شیبنام کہتی ہیں کہ ایسی پوسٹس جس میں کچھ ہوتا ہوئے دیکھا جائے اور اور بولتے ہوئے بتایا بھی جائے کیا ہو رہا ہے ایسی ویڈیوز قائل کرنے میں خاص طور پر موثر ہوتی ہیں۔ خصوصاً وہ ٹک ٹاک ویڈیوز جن میں چیزوں کی نمائش اور ان کا استعمال اور اس کی وجہ سے آنے والی تبدیلی دکھائی جاتی ہیں یہ 30 سے 60 سیکنڈ کے دورانیے کی ہوتی ہیں۔
’پیرا سوشل افیکٹ‘ کیا ہے؟
صارفین کو خریدنے کی ترغیب دینے والے سب سے بڑے عناصر میں سے ایک کیریٹرز کے ساتھ جذباتی تعلق ہے۔
اس رجحان کو ’پیرا سوشل ریلیشنشپ‘ کہتے ہیں جس کی وجہ سے ناظرین کو لگتا ہے کہ ایک شخصیت کے ساتھ ان کا قریبی تعلق یا دوستی بھی ہوتی ہے جبکہ یہ تعلق اصل میں یکطرفہ ہوتا ہے۔ اکثر کانٹینٹ بنانے والے کو یہ بھی نہیں پتا ہوتا کہ اس کا ویوور وجود بھی رکھتا ہے۔
انفلوئنسرز اور مشہور شخصیات کے ساتھ یہ غیر باہمی تعلقات اکثر سوشل میڈیا پر بنتے ہیں خاص طور پر تب جب صارف ان کا زیادہ مواد دیکھتے ہیں۔
یہ رجحان صارفین کے رویے میں بھی ایک کردار ادا کرتا ہے ۔انفلواینسرز چاہے اسپانسر شدہ مصنوعات کی تشہیر کر رہا ہو اور آرگینک کیریٹر کی اپنی پسندیدہ ذاتی اشیاء شیئر کر رہا ہو۔ پروفیسر اینجلین شیبنام کا کہنا ہے کہ ’پیراسوشل تعلقات اتنے مضبوط ہیں کہ لوگ خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘
پروفیسر والیریا پینٹینن سمجھاتی ہیں جیسے ہی صارفین کو ویڈیوز بنانے والی کی ترجیحات اور اقدار کے بارے میں معلومات ملنا شروع ہوتی ہیں اور وہ انھیں اپنی ذاتی معلومات دیتے ہوئے دیکھتے ہیں وہ ان کی تجویزات کو اپنے اصلی دوستوں کی تجویز کی طرح لیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ان پیرا سوشل تعلقات صارف کو بار بار خریداری کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ خاص طور پر ٹک ٹاک پر ہوتا ہے جہاں پلیٹ فارم کا الگورتھم ایک ہی اکاؤنٹ کا کونٹینٹ کافی مرتبہ دکھاتا ہے اور بار بار ایسی ویڈیوز دیکھنے کی وجہ سے یک طرفہ تعلق قائم ہو جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک پر پیرا سوشل تعلقات کوئی ویڈیو نہ دیکھنے کا ڈر بھی پیدا کر سکتی ہے، جس کی وجہ سے خریداری کے رویے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ’جب ان لوگوں سے آپ کی محبت بڑھتی جاتی ہے تو یہ ڈر پیدا ہو جاتا ہے کہ آپ اس راستے پر نہیں چل رہے جو اس کی جانب سے دکھایا جا رہا ہے۔‘
شاپنگ یا گیم؟
لنڈزی کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک پر پراڈکٹس کی ویڈیوز میں ایک قسم کا جذبہ بھی ہوتا ہے جس سے صارفین قائل ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ٹک ٹاک شاپنگ کو گیم کی طری بنا دیتا ہے۔۔۔ آپ بس ایک پراڈکٹ نہیں خرید رہے ہوتے آپ اس بڑے طرز زندگی کے تعاقب میں کچھ خرید رہے ہیں۔‘
یہ صارف کو ان رجحانات کا حصہ بننے یا گفتگو میں شامل ہونے کی طرف راغب کر سکتا ہے۔ اس میں پروڈکٹ کو آزمانے کا عمل بھی شامل ہو سکتا ہے۔
Getty Images
لنڈزی کہتی ہیں مخصوص قسم (یانرا) کا ٹک ٹاک کانٹنٹ بہت زیادہ قائل کر سکتا ہے۔ وہ مثال دیتی ہیں کہ ایسی ویڈیوز جن میں لکھا ہوتا ہے یا کہا جاتا ہے ’ایسی چیزیں جو آپ کو پتا ہی نہیں تھا کہ آپ کو چاہیں‘۔
’سکرول کرتے ہوئے جب آپ کو جب یہ چیز نظر آتی ہے جو آپ کو چاہیے اور آپ کو معلوم ہی نہیں تھا وجود بھی رکھتی ہے تو تھوڑا سرپارئز اور خوشی ہوتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ چھوٹی اور بے تکلف دوستانہ ویڈیوز کی وجہ سے ٹک ٹاک کی تجویزات زیادہ قدرتی محسوس ہوتی ہیں اور یہ صارفین اور ویڈیوز بنانے والوں کے درمیاں اعتبار کی راہ ہموار کرتی ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ انسٹاگرام کے چمکتے ہوئے انفلواینسرزکے مقابلے میں جتنی ویڈیوز کم پیچیدہ (پالشڈ) ہوں صارفین کو لگتا ہے وہ تجویزات میں سے اپنی مرضی سے خریدنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔
خریدار ہوشیار ہو جائیں
پروفیسر اینجلین شیبنام کہتی ہیں کہ اس کے باوجود صارفین جزباتی خریداری کر کے نقصان میں ہوتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بعض صورتوں میں پیرا سوشل اثر اور اس کے نتیجے میں قربت جو سوشل میڈیا جنم دیتی ہے اس قدر مضبوط ہو سکتی ہے کہ صارفین یہ تحقیق بھی نہیں کرتے کہ آیا توثیق (انڈورسمنٹ) اسپانسر ہوئی ہے یا نہیں۔
کم عمر صارفین یا کم علم رکھنے والے صارفین کو خاص طور پر اشتہار اور آرگینک تجویز کے درمیان فرق نہیں پتا ہوتا۔
وہ کہتی ہیں کہ جلدی میں استعمال کرنے والے صارفین بھی اس معاملے میں کمزور ہوسکتے ہیں۔ لنڈزی کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک کے تیز، تیز کلپس کی نوعیت اشتہارات کی شناخت کرنا مشکل بنا سکتی ہے۔
پروفیسر والیریا پینٹینن کا کہنا ہے کہ جزباتی تعلقات جن کی وجہ سے خریداری ہوتی ہے لوگوں کو شاید حس سے زیادہ خرچہ کروا سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹک ٹاک پر بہت سارے پراڈکٹس مہنگے نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگ کو یہ کم خطرے والی خریداری محسوس ہوتی ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہو سکتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے جو ایک پراڈکٹ ویڈیو بنانے والے کو اپنے لیے اچھا لگے وہ ضروری نہیں کہ صارف کے لیے بھی اچھا ہو۔
صارفین کو ایسا محسوس نہیں ہونا چاہیے کے انھیں ٹک ٹاک کے ذریعے ہر خریداری کی جان پڑتال کرنی چاہیے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ پلیٹ فارم صارفین کو کیوں پیسے خرچ کرنے پر قائل کر لیتے ہیں خاض طور پر ’چیک آؤٹ‘ کا بٹن دبانے سے پہلے۔