کمپیوٹر، مائیکرو چپس اور سمارٹ فون کیمرے: چاند پر جانے کے لیے بنائی گئی پانچ اشیا جو عام انسانوں کے کام آئیں

بی بی سی اردو  |  Aug 24, 2023

BBC

آخرکار انڈیا نے چندریان 3 کو چاند پر کامیابی سے اتار کر تاریخ رقم کر دی ہے۔ امریکہ، روس اور چین کے بعد انڈیا وہ چوتھا ملک بن گیا ہے جس نے چاند کی سطح پر کامیابی کے ساتھ سافٹ لینڈنگ کی ہے۔

اس کے ساتھ انڈیا چاند کے جنوبی قطب کے قریب خلائی جہاز اتارنے والا دنیا کا پہلا ملک بھی بن گیا ہے۔

مگر یہ سوالات بھی پوچھے جا رہے ہیں کہ کوئی ملک چاند تک کیوں پہنچنا چاہتا ہے؟ کیا وہاں انسانی بستیاں بنانے کا ارادہ ہے؟ حکومت خلائی تحقیق پر رقم خرچ کرنے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر کیوں خرچ نہیں کرتی؟

چندریان جیسے مشن ہمیں صرف چاند کے بارے میں ہی معلومات فراہم نہیں کرتے۔

چاند پر مشنز بھیجنے کی وجہ سے انسانوں کو بہت سارے فائدے ہوئے ہیں اور ان کی مدد سے ہماری زندگیاں مزید آرم دہ ہوئی ہیں۔ اس دوران ہمیں چند ایسی چیزیں ملیں یا دریافت ہوئی ہیں جس کی مدد سے ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی ہے۔

آئیے ایسی ہی پانچ چیزوں کو دیکھتے ہیں۔

ڈیجیٹل فلائٹ کنٹرول

ایک وقت تھا جب کمپیوٹر بہت بڑے ہوا کرتے تھے وہ ابتدائی ایام میں ایک کمپیوٹر پورے کمرے یا ہال کی جگہ لے لیتے تھے۔

کتاب ’ڈیجیٹل اپالو‘ کے مصنف ڈیوڈ منڈیل کہتے ہیں ’لیکن سنہ 1960 کی دہائی کا قمری مشن وہ دور تھا جب لوگوں نے اس بارے میں بات کرنا شروع کی کہ ان کے کمپیوٹر کتنے چھوٹے اور کمپیکٹ ہو سکتے ہیں۔‘

کمپیوٹر کو سب سے پہلے ناسا کے اپالو مشن کے دوران ایک سوٹ کیس میں فٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اس میں ایک سکرین، ایک ان پٹ کِی بورڈ تھا جس کے ذریعے انسان زمین سے تقریباً 3.8 لاکھ کلومیٹر دور ایک بڑے خلائی جہاز کو کنٹرول کر سکتا تھا۔ بنیادی طور پر یہ کمپیوٹر پہلا ڈیجیٹل سٹیئرنگ کنٹرولر تھا۔

اس ٹیکنالوجی نے ڈیجیٹل فلائی بائی وائر کو جنم دیا، جو آج ہر ہوائی جہاز میں پایا جاتا ہے۔

پہلے ہائیڈرولک آلات ہوتے تھے جنھیں الیکٹرانک کنٹرول ڈیوائس سے بدلا دیا گیا تھا اور یہ پہلا ڈیجیٹل فلائٹ کنٹرول تھا۔

کمپیوٹر، مائیکرو چپس اور سمارٹ فونزGetty Images

اب جہاں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی آئی وہاں کمپیوٹر آ گئے۔ سنہ 1969 کے ناسا کے قمری مشن میں اپالو 11 خلائی جہاز پر ایک کمپیوٹر موجود تھا، جس کی مدد سے نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن نے چاند پر پہلا قدم رکھا تھا۔

اور اس کمپیوٹر کی خصوصیات سُن کر آپ تھوڑے حیران ہوں گے کہ اس میں تقریباً 74 کلوبائٹ روم اور 4 کلو بائٹ ریم میموری تھی۔

ہم یہاں کلو بائٹ کی بات کر رہے ہیں آج آپ کے فون میں جی بی یعنی گیگا بائٹس کی میموری ہوتی ہے جو کلو بائٹ سے لاکھوں گنا زیادہ ہے۔

امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ اور خلائی دوڑ کے پیش نظر امریکہ اپنے خلائی مشن کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے ملک میں انٹیگریٹڈ سرکٹ کی کل پیداوار کا 60 فیصد حصہ اپولو مشن کو جا رہا تھا۔

مصنف ڈیوڈ منڈیل کہتے ہیں ’اس وقت، سلیکون چپس اور انٹیگریٹڈ سرکٹس جدید ٹیکنالوجی تھی اور ناسا بھی انھیں خلائی جہاز میں استعمال کر رہا تھا۔ یہ خبر پھیل گئی کہ ملک میں سلیکون انقلاب شروع ہو گیا ہے۔ یہ اپالو مشن ہی تھے جنھوں نے دنیا کو اس ٹیکنالوجی کی افادیت کا قائل کیا اور اسے پھیلانا شروع کیا۔

اس کی وجہ سے یہ چپس زیادہ سے زیادہ طاقتور اور چھوٹی ہوتی گئیں، اتنی چھوٹی کہ آج ہمارے ہاتھوں میں سمارٹ فونز میں موجود ہیں۔‘

ریچارج ایبل بیٹریاںGetty Images

مہنگی ہیوی ڈیوٹی لینڈ لائنز سے لے کر جدید دور کے سمارٹ فونز تک کا سفر بہت طویل رہا۔ اور اس میں سب سے اہم کردار بیٹری کی ٹیکنالوجی نے ادا کیا ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی بھی خلائی مشنوں سے آئی ہے؟

ناسا کی طرف سے چاند پر بھیجے گئے کمانڈ موڈیول میں چاندی کی زنک بیٹری تھی جو اس وقت کی سب سے ہلکی بیٹری تھی۔ لیکن یہ بیٹری ریچارج نہیں ہوتی تھی۔ ناسا نے طویل عرصے تک اس پر تحقیق کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

آخر کار سنہ 1996 میں قائم ہونے والی ایک نجی کمپنی نے اس ٹیکنالوجی پر مزید تحقیق شروع کی۔ وہ ریچارج ایبل بیٹریاں سماعت کے آلات میں ڈالنا چاہتے تھے۔ لیکن لیتھیم آئن بیٹریز جو ہمارے موبائل فونز، لیپ ٹاپ اور اب کاروں میں بھی ہیں زیادہ جلدی گرم ہو جاتی ہیں۔

آخر کار یہ کمپنی سلور زنک بیٹری تیار کرنے میں کامیاب ہو گئی جسے تقریباً 1000 بار ریچارج کیا جا سکتا ہے۔ ان بیٹریوں کی مدد سے پہلی ریچارج ایبل ہیئرنگ ایڈ سال 1999 میں بننا شروع ہوئیں۔

خلائی کمبل

جب لوگوں کو سیلاب، ڈوبنے یا برفانی تودے سے بچایا جاتا ہے، تو انھیں سب سے پہلے اوڑھنے کے لیے سلور شیٹ دی جاتی ہے۔

اسے خلائی کمبل کہتے ہیں۔ ناسا نے محسوس کیا کہ مائیلار (Mylar) ، ہلکی پھلکی پلاسٹک اور دھاتی مرکب، کی ایک سے زیادہ تہیںاتنی’انسولیشن‘ فراہم کرتی ہیں جتنا کوئی اور میٹریل فراہم نہیں کر سکتا۔ ناسا نے بعدازاں اس ٹیکنالوجی کو تیار کیا اور ساےاور اسے خلابازوں کے سپیس سوٹس کے لیے استعمال کیا۔

اور آج یہی ’مائیلار‘ فیشن انڈسٹری، فائر فائٹنگ، کیمپنگ اور کولڈ سٹوریج جیسے شعبوں میں بھی بکثرت استعمال ہوتا ہے۔

سمارٹ فون میں کیمرہ

ابتدائی دور کے کمپیوٹرز ہی کی طرح ابتدا میں بنائے گئے کیمرے بھی بہت زیادہ جگہ گھیرتے تھے مگر آج صورتحال یہ ہے کہ آپ کے فون میں کم از کم تین کیمرے موجود ہو سکتے ہیں۔

پہلا ڈیجیٹل کیمرہ ’کوڈک‘ کمپنینے سنہ 1975 میں تیار کیا تھا لیکن ڈیجیٹل فوٹو گرافی پر تحقیق سنہ 1960 کی دہائی میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری (جے پی ایل) میں شروع ہو چکی تھی۔

تصویر کھینچتے وقت، فریم کو کئی باریک ٹکڑوں میں تقسیم کیا جاتا ہے اور ہر ٹکڑا مختلف فوٹو سینسرز سے ٹکراتا ہے، جنھیں ملا کر ایک ڈیجیٹل امیج بنتا ہے۔ ان میں سے ہر ایک ٹکڑے کو فریڈرک بلنگسلے نے سنہ 1965 میں پکسل کا نام دیا تھا۔

بعد میں ایرک فوسم کی قیادت میں جے پی ایل میں اسی ٹیکنالوجی کو مائیکرو پروسیسرز اور چپ ٹیکنالوجی کے ساتھ مزید بہتر اور چھوٹا بنایا گیا اور آج ہمارے ہاتھوں میں فٹ ہونے کے لیے اتنے چھوٹے ڈیجیٹل کیمرے وجود میں آ گئے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More