یوٹیوب ویڈیوز دیکھ کر گھر پر زچگی کی کوشش میں خاتون ہلاک: گھر پر ڈیلیوری کتنی خطرناک ہو سکتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 24, 2023

Getty Imagesمنگل کی صبح لوکانائیکی کو درد آئے اور انھوں نے گھر پر ہی زچگی کی تاہم، نال باہر نہ آنے پر خون بہنے لگا

انڈیا کی ریاست تامل ناڈو میں ایک خاتون گھر میں بچے کو جنم دینے کے بعد بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے چل بسیں۔

ضلع کرشنا گری میں یہ واقعہ یوٹیوب پر ڈیلیوری کی ویڈیوز دیکھنے کے بعد گھر پر ہی زچگی کی کوشش کرنے والی ایک خاتون کے ساتھ پیش آیا۔

دونوں میاں بیوی نے ہسپتال جانے کے بجائے گھر میں زچگی کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

دستیاب تفصیلات کے مطابق خاتون متیش کی شادی 2021 میں ہوئی تھی۔ دو روز قبل یعنی منگل کی صبح خاتون کو لیبر پین ہوا اور انھوں نے گھر پر ہی زچگی کی۔

تاہم حکام کے مطابق اس عمل کے دوران خاتون کا بہت زیادہ خون بہہ گیا۔ خاتون نال باہر نہ آنے پر خون بہہ رہا تھا۔ صورتحال کے پیش نظر انھیں ہسپتال لے جایا گیا لیکن ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دے دیا۔

اس سلسلے میں ضلعی محکمہ صحت اور پولیس کو مطلع کر دیا گیا ہے۔ حکام کے مطابق مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور معاملے کی تفتیش جاری ہے۔

گھروں میں زچگیاں اور اموات

صرف تمل ناڈو میں ہی گذشتہ چند برسوں میں گھر میں بچوں کو جنم دینے کی کوشش کے دوران ماؤں کے مرنے، یا ان کے نوزائیدہ بچوں کی موت، یا دونوں کے واقعات کی ایک قابل ذکر تعداد سامنے آئی ہے۔

جولائی 2008 میں کریتیکا نامی خاتون نے اپنے شوہر اور شوہر کے دوست کی مدد سے یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے کے بعد گھر ہی میں بچے کو جنم دیا۔ تاہم پیدائش کے بعد خاتون دم توڑ گئیں۔ اس کیس کا مقدمہ درج کر کے خاتون کے شوہر کو گرفتار کر لیا گیا۔

رواں برس اگست میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا گھر پر زچگی کے دوران اور بچے کی پیدائش کے بعد ماں اور بچے میں موجود خوراک کی نال کو باقاعدہ انداز میں نہیں ہٹایا گیا تاہم بعدازاں یہ کام ڈاکٹروں نے کیا اور شوہر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔

اسی طرح جولائی 2021 میں مونیشا حاملہ ہوئیں اور اپنی ماں کے گھر رہیں اور انھوں نے گھر پر بچے کو جنم دیا۔ تاہم زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث بچہ مر گیا جبکہ بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے ماں کو تشویشناک حالت میں ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔

ریاست میں اسی نوعیت کے واقعات گذشتہ کچھ عرصے میں تواتر سے پیش آئے ہیں۔

کیا ہسپتال میں جو کچھ ہوتا ہے وہ قدرتی پیدائش نہیں ہے؟Getty Imagesفائل فوٹو

تامل ناڈو حکومت کی جانب سے گھر میں بچوں کی پیدائش اور ان سے منسلک خطرات کو روکنے کے لیے متعدد اقدامات کیے جانے کے بعد بھی اس نوعیت کے واقعات پیش آنے کا سلسلہ جاری ہے۔

پراجیکٹ کمیٹی کے ایک رکن ڈاکٹر امولولپاوناتھن جوزف کا کہنا ہے کہ ایک اچھی حکومت کو خواتین کی فلاح کے لیے سب کچھ کرنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’شادی کے بعد اور حمل کے آغاز سے ہی حکومت عورت کی نگرانی کرتی ہے۔ فوری طور پر عورت کے حمل کو رجسٹر کیا جاتا ہے اور اسے رجسٹریشن نمبر دیا جاتا ہے۔ عورت کو ہر تین ماہ بعد سکین کیا جاتا ہے۔ پہلے سکین کے بعد 8,000 روپے کی مالی امداد دی جاتی ہے۔ اگر خاتون ہیلتھ ورکرز کو بتائے بغیر ڈلیوری کے لیے اپنی والدہ کے گھر جاتی ہے تو وہاں موجود ہیلتھ ورکرز کو آگاہ کیا جاتا ہے اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے۔ پہلی ویکسینیشن کے بعد، باقی فنڈنگ فراہم کی جاتی ہے۔‘

’اس کے بعد پہلے ہزار دن تک علاقے کے ہیلتھ ورکرز بچے کی نگرانی کرتے رہیں گے۔ وہ حفاظتی ٹیکوں کو یقینی بناتے ہیں۔ اس دوران 20 فیصد خواتین نے کہا کہ وہ پرائیویٹ ہسپتال میں بچے کو جنم دیں گے۔ لیکن اگر آپ پرائیویٹ ہسپتال جاتے ہیں تو بھی وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ حمل حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہے۔ وہاں ڈیلیوری کے بعد بھی ہیلتھ ورکرز جا کر جانچ کرتے ہیں اور اسے شماریاتی ڈیٹا بیس میں لوڈ کرتے ہیں۔‘

حکومت کی اتنی نگرانی کے باوجود کچھ یوٹیوبرز کی بات سُن کر لوگ گھر میں زچگی کا خطرہ مول لیتے ہیں۔

ڈاکٹر امالوپاوناتھن جوزفکہتے ہیں کہ ’حکومت کی جانب سے طے شدہ طریقوں کے برعکس جو بھی اس طرح کی پراپیگنڈہ کرتا ہے، جس سے جانوں کو خطرہ لاحق ہو، اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جانی چاہیے۔ پبلک ہیلتھ ایکٹ میں ایسا کرنے کا ایک طریقہ موجود ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ ایک قتل جیسا ہے۔ جب تک سخت اقدامات نہیں کیے جاتے اس کو روکا نہیں جا سکتا۔ بیوی اکیلے یہ فیصلہ نہیں کرتی۔ اس فیصلے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے۔‘

گھریلو زچگی کے حامیوں کی ایک دلیل یہ ہے کہ برسوں پہلے گھروں میں ہی زچگیاں ہوتی تھیں۔

امالوپاوناتھن اس دلیل کا جواب دیتےہوئے کہتے ہیں ’کتنی مائیں گھروں میں مریں؟ 100 میں سے دس یا بیس مر جائیں گی۔ اب یہ تعداد کم ہو کر ہر ایک لاکھ میں سے صرف 50 پر آ گئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ زچگیاں ہسپتالوں میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ قدرتی زچگی نہیں ہے، لیکن وہاں ڈاکٹر کی نگرانی ہو گی، اگر اچانک کوئی مسئلہ ہو تو ڈاکٹر مداخلت کرے گا، اسی لیے ہم ہسپتال میں داخل ہوتے ہیں، زچگیکوئی بیماری نہیں ہے، لیکن پیچیدگیاں ہو سکتی ہیں۔‘

Getty Imagesبعض اوقات اس نال کو نکالنے کی کوشش کے دوران بچہ دانی کے نیچے کھنچ جانے کا خطرہ ہوتا ہےیوٹیوب اور زچگیاں

ماہرین کا مشورہ ہے کہ تمام زچگیاں ایک جیسی نہیں ہوتیں اس لیے اسے یوٹیوب پر کھانا پکانے یا باغبانی جیسی ویڈیوز کی طرح نہ آزمائیں۔

ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سارتھا سکتیراجن کہتی ہیں ’ہر حاملہ عورت منفرد ہوتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ سب مناسب طبی تربیت، تجربے یا سیاق و سباق کے بغیر کیا جا رہا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیبر کے دوران کس قسم کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے یہ ہر ایک کے لیے مختلف ہوتا ہے۔ مثلاً لیبر کے دوران، ماں کے دل کی دھڑکن، بلڈ پریشر، ہائیڈریشن کی حالت، بچے کے دل کی دھڑکن وغیرہ۔‘

ڈاکٹر سارتھا بتاتی ہیں ’خواہ یہ صحت مند ڈیلیوری ہی کیوں نہ ہو، بہت زیادہ خون بہنا، جنسی اعضا پر چوٹ لگنا اور دم گھٹنا جیسے مسائل زچگی کے دوران صرف اس صورت میں حل کیے جا سکتے ہیں جب ماں اور بچہ ٹھیک ہوں۔‘

ڈاکٹر سارتھا سکتیراجن کہتی ہیں ’اس کے علاوہ، ڈلیوری کے دوران صرف زچگی کے ماہر کافی نہیں ہوتے۔ یہ ایک مشترکہ کوشش ہے۔ ماہر اطفال، اینستھیزایسٹ، ہنر مند نرسیں، بلڈ بینک سب ضروری ہیں۔ یہ صرف ہسپتال میں ہی ممکن ہے۔‘

وہ مزید کہتی ہیں ’بعض اوقات بچہ آسانی سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن آسان ڈیلیوری کے بعد نال کچھ دیر کے لیے بچہ دانی میں پھنس سکتی ہے، بہت زیادہ خون بہہ سکتا ہے اور بعض اوقات اس نال کو نکالنے کی کوشش کے دوران بچہ دانی کے نیچے کھنچ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایسی وجوہات کی وجہ سے، انتہائی درد یا بہت زیادہ خون بہنے کی وجہ سے، نیوروجینک شاک، ہیمرجک شاک وغیرہ ہو سکتے ہیں اور ماں کی زندگی کو خطر ہ ہو سکتا۔‘

ڈاکٹر سارتھانے خبردار کیا کہ ’یہ بہت خطرناک ہے۔ ہم یوٹیوب پر کھانا پکانے یا گھر کی دیکھ بھال کے طریقے سیکھ سکتے ہیں، لیکن ہمیں ڈیلیوری کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More