عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں کس بنیاد پر ریلیف مل سکتا ہے اور کیا وہ گھر جا سکیں گے؟

بی بی سی اردو  |  Aug 24, 2023

EPA

اٹک جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگی جس سے قبل ان کے وکلا پُرامید دکھائی دیتے ہیں کہ وہ جلد ہی رہائی پا سکتے ہیں۔

یہ امکان بظاہر اسی وقت پیدا ہوا جب بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اس میں خامیوں کی نشاندہی کی۔

ایک چیز واضح ہے کہ جیل میں قید عمران خان کو درپیش قانونی چیلنجز میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً بدھ کو لاہور کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ پر درج مقدمے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو عمران خان کی گرفتاری اور تفتیش کی اجازت دی تھی۔

رواں ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائفر گمشدگی کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا۔

اس دوران دیگر کئی مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جا چکی ہے۔ جیسے اسلام آباد کی احتساب عدالت اسلام آباد نے 190ملین پاؤنڈ سکینڈل میں ان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج کی تھی۔

EPAوہ پریس کانفرنس جس کے بعد شاہ محمود قریشی کو سائفر گمشدگی کیس میں گرفتار کیا گیاسپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کے فیصلے پر کیا اعتراض اٹھایا؟

5 اگست کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا عمران خان نے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے جس سے ان کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔

تاہم تحریک انصاف کے وکلا کا الزام ہے کہ جج ہمایوں دلاور نے جلد بازی میں یہ فیصلہ دیا اور گواہان کو نہ سن کر حق دفاع سے محروم کیا گیا۔

انھوں نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے حق دفاع نہ دیے جانے اور کیس کی کارروائی پر اعتراضات اٹھائے۔

بدھ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں۔‘

ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کے فیصلے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جو درست نہیں تھا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بادی النظر میں خامیاں ہیں۔‘

بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ ’اگر ملزم کوئی گواہ خود پیش نہیں کرتا تو عدالت گواہان کو طلب کرسکتی ہے۔ (اس کیس میں) گواہان پیش کرنے کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔‘

سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ ’ٹرائل کورٹ نے فیصلے سے قبل تین بار ملزم کو موقع دیا تھا۔ ملزم کی عدم حاضری پر ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیا۔‘

بینچ میں شامل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ ’ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیسے کر دیا؟ ملک کی کسی بھی عدالت میں کرمنل کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی اتنی جلدی کیا تھی؟‘

تاہم چیف جسٹس کے کہا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے تک بینچ معاملے میں مداخلت نہیں کرے گا۔

عمران خان کو کس بنیاد پر ریلیف مل سکتا ہے اور کیا وہ رہا ہو سکتے ہیں؟

اگر ہائیکورٹ جمعرات کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتی ہے تو کیا وہ رہا ہو سکتے ہیں، اس سوال پر صحافی و تجزیہ کار نسیم زہرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید عمران خان کو اس کیس میں ریلیف مل جائے۔

تاہم وہ کہتی ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف دیگر کیسز بھی موجود ہیں۔ ’کل نو مئی کے کیس میں اے ٹی سی نے ان کی گرفتاری منظور کی، اسی طرح سائفر کا معاملہ بھی موجود ہے۔‘

ایڈووکیٹ شاہ خاور نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر کسی سزا کی مدت کم ہو تو ضمانت ملنا قدرے آسان ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان کا کیس یہ بنتا ہے کہ انھیں سنا نہیں گیا، عدالت میں ڈیو پراسس نہیں ہوا جبکہ گواہان پیش نہیں ہوئے۔ اس بنیاد پر استدعا کی جائے گی کہ سزا کم ہے لہذا اسے معطل کر دیا جائے اور انھیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے۔‘

تاہم ان کی رائے میں سزا معطلی کے باوجود عمران خان کا جیل سے باہر آنا بظاہر مشکل ہے کیونکہ ایف آئی اے نے اٹک جیل میں ان کی گرفتاری ڈال کر انھیں شامل تفتیش کر رکھا ہے۔

خیال رہے کہ نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ اور سائفر گمشدگی کے دونوں کیسز میں قانون نافذ کرنے والوں ادارے نے عمران خان کو شامل تفتیش کر لیا ہے جبکہ دیگر کئی کیسز میں ان کی حفاظتی ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر منسوخ ہوچکی ہے۔

شاہ خاور کہتے ہیں کہ ’اگر توشہ خانہ کیس میں ان کی رہائی عمل میں آتی ہے تو اس کے باوجود وہ دوسرے مقدمات میں گرفتار رہیں گے۔‘

نسیم زہرہ کا بھی یہی خیال ہے کہ بظاہر اس کیس میں تو ریلیف مل سکتا ہے مگر اٹک جیل سے رہائی ممکن نہیں۔

ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا عمران خان اٹک جیل میں ہی قید رہیں گے یا انھیں دوسرے ٹرائلز کے دوران کسی اور جیل میں منتقل کیا جائے گا۔

اس پر قانونی ماہر شاہ خاور نے بتایا کہ اس کا فیصلہ محکمہ داخلہ کرے گا کہ آیا عمران خان کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اٹک جیل میں ہی قید رکھا جائے گا یا کسی دوسری جیل منتقل کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ ایک سزا یافتہ شخص کو کسی بھی جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’سزا معطلی کی صورت میں چونکہ ایف آئی اے کا کیس اسلام آباد میں درج ہے لہذا انھیں راولپنڈی کے اڈیالہ جیل لایا جاسکتا ہے یا دوسری صورت میں ان کا جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘

شاہ خاور نے بتایا کہ اس کے بھی امکان موجود ہیں کہ سائفر کیس میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان کا جیل ٹرائل اٹک جیل میں ہی کیا جائے۔

تاہم سابق صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن شعیب شاہین کی رائے میں سزا معطلی کی صورت میں عمران خان کو رہا ہونا چاہیے۔

انھوں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمران خان توشہ خانہ کیس کی وجہ سے جیل گئے اور باقی کیسز میں عدم پیروی کی بنیاد پر ان کی ضمانتیں خارج ہوئیں۔

’اصولی طور پر جب اس کیس میں رہائی ملتی ہے تو انھیں وقت دیا جائے گا کہ دوسرے کیسز میں بھی اپنی ضمانت کروا لیں۔ مگر اس ملک میں حکومت کیا کرتی ہے، ہمیں اگلے لمحے کا نہیں پتا ہوتا۔‘

دوسری طرف سابق معاون خصوصی برائے قانون عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ عمران خان توشہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود رہا ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ انھوں نے کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر بعد میں ہوئی جبکہ عمران خان کے وکلا نے ان کی ہدایت پر انھی دنوں میں ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان اس کیس میں 30 اگست تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔

ادھر عمران خان کی وکلا کی ٹیم میں شامل بیرسٹر گوہر خان پُرامید ہیں کہ ہائیکورٹ سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ معطل کرے گی اور انھیں رہا کرے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف کیسز میں ان کی گرفتاری ڈالنا سیاسی انتقام سے زیادہ کچھ نہیں۔

عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر خان نے کہا کہ دیگر کیسز میں ضمانت ’ایک، ایک دن کی بات ہوگی۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More