منگل کی صبح پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع آلائی میں جانگری اور بٹنگی نامی دو پہاڑی دیہات کے درمیان موجود فاصلے کو طے کرنے کے لیے چھ طلبا سمیت آٹھ افراد چیئرلفٹ پر بیٹھنے کے لیے پہنچے۔
صبح سکول جانے سے قبل موجود ایک مخصوص احساس یقیناً ان طلبا میں بھی موجود ہو گا اور وہ اپنی معصوم سی پریشانیاں لیے معمول کا سفر کرنے والے تھے۔
لیکن یہ طلبا اس بات سے بالکل انجان ہو کر اس ڈولی یعنی دیسی ساختہ کیبل کار میں بیٹھ رہے تھے کہ چند لمحوں بعد ان کے لیے سب سے بڑا سوال یہ ہو گا کہ آیا وہ آج گھر زندہ لوٹ بھی پائیں گے یا نہیں۔
یہ ڈولی دو رسیوں کی مدد سے آپریٹ کی جاتی ہے۔ صبح تقریباً سات بج کر 45 منٹ پر اچانک اس ڈولی کی ایک کیبل ٹوٹی اور ڈولی زمین سے 900 فٹ کی بلندی پر فضا میں صرف ایک کیبل کی مدد سے معلق ہو گئی۔
دیکھتے ہی دیکھتے یہ بات مقامی ٹی وی چینلز تک پہنچی اور پھر اس واقعے کی لمحہ بہ لمحہ کوریج شروع ہوئی اور پھر یہ واقعہ پوری دنیا میں بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے پہنچایا جانے لگا۔
آغاز میں تو یہ پہاڑی علاقوں میں پیش آنے والا ایک معمول کا واقعہ معلوم ہو رہا تھا لیکن وقت کے ساتھ اس حوالے سے موجود دشواری کے بارے میں ماہرین اور مقامی افراد کی جانب سے معلومات سامنے آنا شروع ہوئیں تو حالات کی سنگینی کا علم ہوا۔
جب ڈولی میں پھنسے گلفراز نامی شخص نے نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ کو فون پر بتایا کہ ’اس ڈولی میں موجود بچوں کی عمریں 10 سے 15 سال کے درمیان ہیں، جن میں سے ایک طالبعلم بے ہوش بھی ہو گیا ہے۔ خدا کے لیے ہماری مدد کریں‘، تو اس بارے میں تشویش اور بھی بڑھنے لگی۔
پاکستان بھر میں شاید ہی کوئی شخص ایسا ہو جو ان آٹھ افراد کے جلد از جلد ریسکیو کے لیے دعاگو دکھائی نہ دیا ہو۔
مقامی انتظامیہ کی جانب سے جب تک فوج سے مدد طلب کی گئی اور ایک ہیلی کاپٹر بالآخر موقع پر آیا تو ان آٹھ افراد کو اس ڈولی میں اس وقت تک چار گھنٹے گزر چکے تھے۔
آغاز میں ہیلی کاپٹر کی مدد سے ایک ایس ایس جی کمانڈو کو چیئرلفٹ کے قریب لے جانے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش دن ڈھلنے تک ناکام رہی۔
تیز ہواؤں کی وجہ سے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے کیے جانے والے سلنگ آپریشن میں ابتدا میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تھی۔ ہیلی کاپٹر سے رسی کی مدد سے لٹکے ہوئے کمانڈو جب ڈولی کے قریب آتے تو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ڈولی جھولنا شروع ہو جاتی۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر قبل ہیلی کاپٹر کی مدد سے صرف ایک بچے کو بچایا جا سکا تاہم روشنی ختم ہوتے ہی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے ڈولی میں موجود افراد کو ریسکیو کرنے کا کام ختم کیا گیا اور پھر مقامی ماہرین سے مدد مانگی گئی۔
آغاز میں یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اندھیرا ہوتے ہی اس آپریشن میں مزید دشواری پیش آ سکتی ہے لیکن صورتحال اس کے برعکس ثابت ہوئی اور وقت کے ساتھ مزید افراد کو ریسکیو کرنے کا عمل جاری رہا اور بالآخر تمام افراد کو ریسکیو کر لیا گیا۔
ریسکیو ترجمان کے مطابق فضائی آپریشن معطل ہونے کے بعد ’ایک چھوٹی ڈولی لگا دی گئی، جس کے ذریعے مقامی لوگ متاثرہ بچوں تک پہنچے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کیبل کار میں پھنسے افراد کو ایک، ایک کر کے واپس لایا گیا۔‘
کیا گراؤنڈ آپریشن کو شروع کرنے میں تاخیر کی گئی؟
گذشتہ روز سے یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ کیا گراؤنڈ آپریشن کو شروع کرنے میں تاخیر کی گئی؟
اسی سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے الائی میں متعلقہ حکام سے بات کرنے کی کوشش کی ہے۔
تحصیل الائی کے ناظم مولانا غلام اللہ کا کہنا ہے کہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ ریسکیو آپریشن میں کوئی وقت ضائع کیا گیا۔ ’وہ علاقہ بہت دور دراز ہے جہاں ریسیکو اہلکاروں کو بھی پہنچنے میں چار گھنٹے لگ گئے تھے۔ وہ جب پہنچے، انھوں نے صورتحال کا جائزہ لیا، اپنی سفارشات دیں جس کے بعد ان کی سفارشات کو آگے متعلقہ اداروں تک بھیجا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ دوپہر کے وقت فوج کے اہلکار بھی مدد کے لیے پہنچ گئے۔ ’ایک آپریشن ترتیب دیا گیا جس اسی وقت کام شروع ہو گیا۔ فوج نے ابتدائی طور پر پھنسے ہوئےدو لوگوں کو مدد بھی فراہم کیمگر اس کے بعد موسمی حالات ناموافق ہوگئے تھے۔ ہوا تیز چل رہی تھی اور ہیلی کاپیٹر جب لفٹ کے پاس جاتا تو اس کے پنکھوں کی ہوا سے لفٹ بہت زیادہ حرکت کرتی تھی جس سے اس کے ٹوٹ کر گرنے کا خطرہ تھا۔‘
مولانا غلام علی کا کہنا تھا کہ ’آپریشن احتیاط سے کیا گیا تاکہ کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ ہیلی کاپٹر آپریشن کے بعد ہونے والے گراؤنڈ آپریشن میں بھی فوج کی مدد شامل تھی۔‘
ایک سوال کے جواب میں مولانا غلام اللہ کا کہنا تھا کہ زمینی آپریشن میں اس لیے تاخیر ہوئی کیونکہ سب کو لگ رہا تھا کہ فضا سے یہ آپریشن آسان ہو گا مگر فضا وقت کے ساتھ ثابت ہوا کہ فضا سے یہآپریشن مشکل اور خطرناک ثابت ہو رہا تھا۔
’تمام ادارے زیادہ سے زیادہ احتیاط کرنا چاہتے تھے، اس لیے پہلے یہ ہی کوشش تھی کہ جدید طریقے سے آپریشن ہو جاتا مگر جب شام ہونے لگی تو پھر ہم نے فیصلہ کیا اور صاحب خان کو اجازت دی کہ وہ یہ آپریشن کرے جس کے ساتھ کمپنی والے، ریسیکو اور فوج والے بھی شامل تھے۔‘
اس آپریشن میں حصہ لینے والے علی سواتی کا کہنا ہے کہ انھیں جائے حادثہ پر آرمی ہیلی کاپٹر نے ساڑھے چھ بجے پہنچایا تھا۔ ’پہلے یہ لگتا تھا کہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے یہ آپریشن آسان ہو گا مگر ہوا کے دباؤ اور دیگر وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔‘
اس ضمن میں ڈپٹی کمشنر بٹگرام، کمشنر ہزارہ اور ریسکیو 1122 کے بٹگرام ڈسٹرکٹ انچارج سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
BBC’مشن امپاسیبل کو مقامی ہیروز نے چار گھنٹے میں مکمل کر لیا‘
مقامی افراد کی دلیری کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کل شام سے ہی بات ہونا شروع ہو گئی تھی اور لوگ اپنی جان جوکھوں میں ڈالنے والے نوجوان زپ لائن آپریٹرز اور ریسکیو ورکرز کو خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
حمزہ اظہر سلیم نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستانی کبھی ہمت نہ ہارنے والی قوم ہیں جو مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔‘
ایک صارف نے ٹویٹ کیا کہ اندھیرا چھانے کے بعد جب آرمی ہیلی کاپٹرز کو آپریشن روکنا پڑا تو مقامی لوگوں نے اپنے طریقے سے آپریشن کر کے اپنے لوگوں کو بچانا شروع کر دیا۔
https://twitter.com/ZunairaInam/status/1694053948028518744?s=20
زنیرا امام نامی صارف نے ٹویٹ کیا کہ اصل ہیرو مقامی افراد ہیں جنھوں نے اپنی زندگی داؤ پر لگا کر چیئر لفٹ کے مسافروں کو بچایا۔ اس حوالے سے اچھی خبر سن کر اچھا محسوس ہوا ہے کیونکہ اب ہم مقامی افراد کی جانب سے آمدورفت کے ناقص ذرائع استعمال کرنے پر بات کر سکتے ہیں۔‘
ایک صارف نے انھیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام محکموں کی جانب سے مل کر کی جانے والی کوشش تھی جس پر سب کو سراہنا چاہیے۔
ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ ’مشن امپاسیبل کو مقامی ہیروز نے چار گھنٹے میں مکمل کر لیا۔‘
https://twitter.com/justujuuu/status/1694060608281268713?s=20