پراسرار حالات میں گاؤں کے 20 بچوں کی موت: ’اب بچے نہیں چاہییں، ہم مرنے کے لیے بچوں کو کیوں جنم دیں؟‘

بی بی سی اردو  |  Aug 23, 2023

BBC

اشوک ایک وین ڈرائیور ہیں وہ 11 اگست 2021 کو رات 12 بجے اپنے تین ماہ کی بیٹی کے ساتھ کھیل رہے تھا۔ کھیلنے کے بعد دونوں باپ بیٹی سو گئے۔

سونے کے دوران اُن کی بیٹی نے اپنی مٹھیاں بھینچنی شروع کر دیں، اپنا سر پیچھے کیا اور زور زور سے رونے لگی۔ انھیں ہسپتال پہنچنے کا بھی وقت نہیں ملا اور ان کی بیٹی نے سانسیں کھو دیں۔ یہ دوسرا موقع تھا جب اشوک نے اس طریقے سے اپنی اولاد کو کھویا۔

یہ واقعہ پیش آنے سے ایک دن پہلے ایک اور انڈین شہری ارون کی اہلیہ نے اپنی بچی کو دودھ پلایا۔ اور اسی طرح کے پراسرار حالات میں وہ بھی موت کا شکار ہو گئی۔

گذشتہ کچھ عرصے میں ان دونوں بچوں کی طرح انڈیا کی ریاست آندھرا پردیش کے رودھکوٹا گاؤں میں 20 بچوں کی اموات ہوئی ہیں۔

طبی ٹیمیں موت کی وجہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن تاحال اس کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔

اس گاؤں میں مرنے والے تمام بچوں کی عمریں تین سے چھ ماہ کے درمیان تھیں۔

BBC’ہمیں اب بچے نہیں چاہییں‘

’ہم مرنے کے لیے بچوں کو کیوں جنم دیں؟ ہمیں اب بچے نہیں چاہیں۔ ہم بچے کو تب ہی جنم دیں گے جب گاؤں کے حالات بہتر ہوں گے، ورنہ ہمیں بچہ نہیں چاہیے۔‘

یہ کہنا ہے بلو اور سندھیرانی کا جنھوں نے تین ماہ قبل اپنا بچہ انہی حالات میں کھو دیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سندھیرانی کہتی ہیں کہ ’میں پہلے ہی دو بچے کھو چکی ہوں۔ اس کی وجوہات معلوم نہیں ہیں۔ بچے موت کے لمحے تک بالکل ٹھیک ٹھاک تھے۔ وہ ہم سے خوب باتیں کر رہے تھے۔ لیکن ہم نہیں جانتے کہ اچانک کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنی مٹھیاں دباتے ہیں، اپنی گردنیں گرا دیتے ہیں اور ایک ہی لمحے میں مر جاتے ہیں۔ پرائمری ہیلتھ سینٹر قریب ہی ہے۔ لیکن وہاں تک جانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ ہم کیا کریں؟‘

ان کا کہنا تھا اگر ’میں اب حاملہ بھی ہو گئی تو میں اس گاؤں میں نہیں رہوں گی۔‘

اس گاؤں میں چھ ماہ سے کوئی بھی حاملہ نہیں ہوا

سنہ 2019 اور مئی 2022 کے درمیان اس گاؤں میں 17 نوزائیدہ بچوں کی موت ہوئی مگر مئی 2022 کے بعد اگلے چھ ماہ میں وہاں ایک بچہ بھی نہیں مرا۔

مگر پھر رواں سال جنوری، مئی اور اگست کے مہینوں میں تین بچوں کی اموات ہوئیں۔

گاؤں کے بنیادی مرکز صحت کے اہلکار ستیہ راؤ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک اس گاؤں میں 20 بچے مر چکے ہیں، چاہے وہ اس گاؤں میں پیدا ہوئے ہوں، چاہے وہ گاؤں سے باہر پیدا ہوئے ہوں۔

ڈاکٹر ستیہ راؤ نے کہا کہ اس کی وجوہات واضح نہیں ہیں۔

رودھ کوٹ سے تعلق رکھنے والے سبھدرا راؤ نے بی بی سی کو بتایا ’ہم ایک کے بعد ایک بچے کی موت کی وجہ سے یہاں بچوں کو جنم دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مئی اور جون 2022 کے بعد اس گاؤں میں کوئی خاتون بھی حاملہ نہیں ہوئی۔ مجھے خوشی ہے کہ پچھلے چھ ماہ میں کوئی بچہ نہیں مرا۔ مگر جنوری 2023 میں یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔‘

اس گاؤں کی رہائشی راؤ ملامہ کی عمر 64 سال ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے کبھی اتنے بچوں کو مرتے نہیں دیکھا۔

BBCحکومتی کمیٹی کا کیا فیصلہ تھا؟

بی بی سی نے 2021 میں گاؤں کا دورہ کیا اور اس پر مضامین کی ایک سیریز کی۔ یہ معاملہ حکومت کی توجہ میں بھی آیا تھا۔

اس گاؤں میں کل 970 لوگ رہتے ہیں جن میں سے زیادہ تر غیر تعلیم یافتہ ہیں۔

حکومت کی جانب سے جنوری 2022 کے پہلے ہفتے میں ایک کمیٹی کا تقرر کیا گیا تھا۔ اس کمیٹی نے 12 جنوری 2022 کو یہاں کا دورہ کیا۔

اس کمیٹی کی دی گئی رپورٹ کے مطابق بچے قے کے مرض کا شکار ہوتے ہیں اور ان کا وزن اپنی عمر کے حساب سے کم تھا۔ کمیٹی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ تمام بچے مقامی طور پر تیار کی جانے والی ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔

وقت پر دودھ نہ ملنا، مقررہ مقدار سے کم ملنا، سانس لینے میں دشواری اور اسہال ان بچوں کی اموات کی وجوہات ہیں۔

حکومتی کمیٹی کو بھی موت کی وجوہات ٹھیک سے معلوم نہیں ہو سکی تھیں۔

آندھرا میں بچوں کی اموات کی شرح کم ہے

خواتین اور بچوں کی ترقی کی مرکزی وزارت کی ایک رپورٹ کے مطابق ریاست میں بچوں کی اموات کی شرح میں زبردست کمی آئی ہے۔ دیگر ریاستوں کے مقابلے آندھرا پردیش میں اموات کی شرح بہت کم ہے۔

رودھا کوٹ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین سال سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے لیکن انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی۔

رودھا کوٹ میں ہونے والی اموات کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی ہے۔ ایک قبائلی رہنما نے بی بی سی کو بتایا، ’ہم نے ہمیشہ مطالبہ کیا ہے کہ ان دیہاتوں میں صحت ایمرجنسی نافذ کی جائے۔‘

BBC’تفتیش جاری ہے‘

بی بی سی نے رودھ کوٹ میں حکام سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ اس گاؤں میں اموات کی شرح کی جانچ کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اس گاؤں کے میڈیکل آفیسر اس گاؤں کی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں۔

گاؤں میں صاف پانی مہیا کیا گیا ہے اور ایک مناسب میٹرنٹی ہاؤس بنایا گیا ہے۔ گاؤں میں ایک پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ منشیات اور شراب کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

حکومتی اہلکار بار بار کہہ رہے ہیں کہ ان بچوں کی موت کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے۔

اب جب حال ہی میں بی بی سی نے گاؤں کا دورہ کیا تو قصبے میں حاملہ خواتین نظر آئیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ دو خواتین ڈیلیوری کے لیے کسی اور گاؤں گئی تھیں۔

جو لوگ اپنے بچے کھو چکے ہیں وہ موبائل فون پر ان کی تصاویر دیکھ کر یاد کر رہے ہیں۔

اب یہاں کے نوجوان جوڑوں کا کہنا ہے کہ وہ تب ہی بچوں کو جنم دیں گے جب میڈیکل آفیسرز مناسب طریقے سے ڈیلیوری کریں گے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More