ڈولی میں پھنسے افراد تک پہنچنے والے ریسکیو ورکرز: ’وہ میرے ساتھ ایسے لپٹے جیسے بچے ماں سے لپٹتے ہیں‘

بی بی سی اردو  |  Aug 23, 2023

صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع الائی میں گذشتہ شام ایک دیسی ساختہ چیئر لفٹ کو 900 فٹ کی بلندی پر پھنسے ہوئے اب 13 گھنٹے سے زیادہ کا وقت گزر چکا تھا۔

پہاڑوں میں میں گھری اس چیئرلفٹ کے گرد روشنی تیزی سے کم ہونے لگی تھی اور رفتہ رفتہ اس میں موجود بقیہ افراد کو ریسکیو کرنے کی امید بھی۔

فوج اور ایئرفورس کی جانب سے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کیے گئے سلنگ آپریشن میں صرف ایک بچہ ریسکیو کیا جا سکا تھا اور اب ان کے لیے مزید آپریشن جاری رکھنا ممکن نہیں تھا۔

ایسے میں اچانک ٹی وی سکرینز اور سوشل میڈیا پر ایک نوجوان کی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہونا شروع ہوئیں جنھوں نے اب اس آپریشن کا بیڑا مقامی افراد کی درخواست پر اٹھا لیا تھا۔

یہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع بشام کے رہائشی صاحب خان تھے جنھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک عارضی ڈولی تیار کر کے بچوں کو ریسکیو کرنے کی ٹھانی۔

انھوں نے بی بی سی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے گذشتہ شام کی ڈرامائی صورتحال کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’شام کو جب اندھیرا چھا گیا اور ہیلی کاپٹر چلے گئے تو اس وقت آلائی کی جن خواتین نے مجھے فون کر کے بلایا تھا نے کہا کہ اب میں آپریشن کروں۔

’مغرب کے بعد میں نے اپنا آپریشن تقریباً سات بجے شروع کیا تھا اور پہلا بچہ واپس کنارے پر پہنچا دیا تھا۔‘

صاحب خان اور ان کا خاندان پشت در پشت لفٹ بنانے کا کام کرتا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک چھوٹی سے کمپنی بنا رکھی ہے جس کو یہ کوکھا اینڈ انجینیئرنگ کمپنی کہتے ہیں۔

یہ کمپنی رجسٹرڈ تو نہیں لیکن لفٹ لگانے اور بنانے کے علاوہ دشوار گزار مقامات پر سامان پہنچانے اور تعمیراتی کام میں لفٹ کا استعمال کرنے میں معاونت دینا ان کا پیشہ ہے جس کو یہ اپنی ’مزدوری‘ کہتے ہیں۔

تاہم جب بھی کسی بھی جگہ پر کوئی ایسا حادثہ رونما ہو تو یہ خدمتِ خلق اور انسانی جان بچانے کے لیے اپنی خدمات پیش کر دیتے ہیں۔

’کیوں مرنے کے لیے آئے ہو‘

صاحب خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس ڈرامائی مکالمے کی تفصیلات بتائی ہیں جو ان کے اور ڈولی میں موجود افراد کے درمیان ہوا۔

صاحب خان جب زپ لائن کے ذریعے متاثرہ ڈولی تک پہنچے تو ان کے لیے سب سے بڑی مشکل ان افراد کو اپنے ساتھ آنے کے لیے منانا تھا۔ 900 فٹ کی بلندی پر ایک چھوٹی سی غلطی بھی ان کی جان خطرے میں ڈال سکتی تھی۔

صاحب بتاتے ہیں کہ جب وہ پھنسے ہوئے افراد کے پاس پہنچے تو ڈولی میں موجود افراد انھیں دیکھ کر حیران رہ گئے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’کم عمر بچے تو بالکل چپ تھے۔ ایک ان میں سے تھوڑا بڑا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ تم کدھر سے پہنچے ہو، زمین سے آئے ہو یا آسمان سے؟‘

انھوں نے کہا کہ ’اس کو میں نے بتایا کہ میں نے چھوٹی لفٹ لگائی ہے اس کے ذریعے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ کیوں مرنے کے لیے آ گئے ہو۔‘

صاحب خان اس ڈرامائی گفتگو کے بارے میں بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اس بچے کو پہلے لانا چاہتا تھا جس کی طبعیت زیادہ خراب تھی لیکن یہاں ایک مسئلہ یہ تھا کہ یہ بچے بہت ڈر رہے تھے۔

صاحب خان بتاتے ہیں کہ اس سے قبل جب ہیلی کاپٹر فضا میں چکر لگا رہا تھا تو اس کی تیز ہوا سے بھی جب لفٹ حرکت کرتی تھی تو یہ بچے خاصے خوفزدہ ہو جاتے تھے۔

صاحب خان جس چھوٹی سی لفٹ میں وہاں آئے تھے یہ بچے اس میں بیٹھنے سے بھی ڈر رہے تھے۔ ’وہ کہہ رہے تھے کہ ہم اس لفٹ پر نہیں بیٹھتے یہ گر جائے گی۔ اس پر میں نے ان کو حوصلہ دیا اور ان سے کہا میں ان کے ساتھ ہوں۔

’اگر اس میں خطرہ ہوتا تو میں کیوں لفٹ میں آتا اور اس طرح اپنی جان کو خطرے میں کیوں ڈالتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بس تھوڑی سی کوشش کے بعد جس بچے کی طبیعت سب سے زیادہ خراب تھی اس کو لفٹ کے ساتھ باندھا اور واپس پہنچا دیا تھا۔

’کبھی کسی کی جان بچانے کا معاوضہ نہیں لیا‘

صاحب خان اپنے کام کے حوالے سے مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’حادثہ تو کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔ میں اور میرے باپ، دادا اور ان کے باپ دادا بھی یہ کام کرتے تھے۔ میرے بچے بھی یہ کام سیکھ رہے ہیں۔ میں نے اور میرے بھائیوں نے سکول میں نہیں پڑھا تھا بس یہ ہی کام سیکھا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کشمیر سے لے کر تقریباً سارے خیبر پختونخوا میں اس طرح کے آپریشن کیے ہیں۔ لفٹیں بنانے والے تو بہت ہیں مگر ریسیکو آپریشن کوئی نہیں کرتا۔

’اکثر اوقات ایسے واقعات اور حادثات رونما ہو جاتے ہیں۔ مجھے اب یاد نہیں کہ میں نے کتنے آپریشن کیے ہوں گے۔‘

صاحب خان کا کہنا تھا کہ ’مگر ایک چیز اچھے سے یاد ہے کہ کبھی بھی کسی کی جان بچانے کا معاوضہ طلب نہیں کیا اور نہ ہی توقع رکھی۔‘

’فی سبیل اللہ یہ کام کرتے ہیں۔ ہاں اس آپریشن میں ہمیں آرمی والوں نے انعام کے طور پر پیسے دیے ہیں اور ہم نے ان ہی کا سامان استعمال کیا تھا۔‘

صاحب خان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ہمارے باپ دادا نے یہ نصیحت کی تھی کہ جہاں بھی جس جگہ بھی ایسا معاملہ ہو پہنچ جائیں اور ان لوگوں کی مدد کریں۔

’اس لیے ہمیں جہاں سے بھی بلاوا آتا ہے، ہم چل پڑتے ہیں اور جو ممکن ہوتا ہے کرتے ہیں۔ یہ ہمارا فرض ہے۔ اس طرح انسانیت کی خدمت کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔

’وہ میرے ساتھ ایسے لپٹے جیسے ماں کے ساتھ بچے لپٹ جاتے ہیں‘

ایک طرف صاحب خان ریسکیو کر رہے تھے تو دوسری جانب ہیونز وے کمپنی کے مالک محمد علی مسکین کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے کال موصول ہوئی کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ لفٹ کی جگہ پر پہنچیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اس آپریشن میں پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ جب وہ کیبل کار کے پاس پہنچے تو وہاں پھنسے بچے اور بڑے نہایت پریشانی کے عالم میں تھے۔

’جب میں وہاں پہنچا تو ان لوگوں کے لیے ایک فرشتے جیسا تھا اور وہ میری ہر بات ایسے مان رہے تھے جیسے وہ چھوٹے بچے ہوں اور انھیں کسی چیز کی لالچ دی جائے۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں اپنی کیفیت بیان نہیں کر سکتا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ منگل کی شام کے وقت مانسہرہ کے ڈپٹی کمشنر نے ان سے رابطہ کیا اور بتایا کہ آلائی میں دس گھنٹے سے آپریشن جاری ہے مگر اب تک صرف ایک بچہ محفوظ مقام تک پہنچایا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’تیز ہوا کی وجہ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو مشکل ہے۔ تم بتاؤ کہ کیا یہ زپ لائن کی مدد سے ہو سکتا ہے؟ میں نے انھیں بتایا کہ آپ ہمیں ایئرلفٹ کروائیں ہم ریسکیو کر لیں گے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’آرمی ہیلی کاپٹر نے ہمیں ایئرلفٹ کیا اور تین لوگوں کی ٹیم کو پاشتو گاؤں میں لینڈ کروایا۔ وہاں سے لفٹ کے مقام تک تیس منٹ کی مصافت تھی جو ہم نے بھاگتے ہوئے دس منٹ میں پوری کی۔‘

ان کے ہمراہ دو مزید لوگ الیاس اور عماد بھی ٹیم کا حصہ تھے اور انھیں بعد میں ایئر فورس کے ایس ایس ڈبلیو کے ایک جوان احسن نے جوائن کر لیا تھا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب وہ کیبل کار کے پاس پہنچے تو ان لوگوں کو وہاں بیٹھے کئی گھنٹےگزر چکے تھے۔‘

’ان میں سے کچھ نیم بیہوش تھے، وہاں کار کے فرش پر پڑے تھے، کوئی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ ان کی حالت غیر تھی۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو ان میں کچھ جان آئی کہ چلو کچھ کوشش تو ہو رہی ہے۔‘

’وہ میرے ساتھ ایسے لپٹے جیسے ایک ماں کے ساتھ بچے لپٹ جاتے ہیں۔ ان کی حالت خراب تھی، ان کے چہروں سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ سوچ کر بیٹھے تھے کہ وہ بچ نہیں سکتے۔‘

میں نے اپنے ساتھی الیاس کو ڈولی کے اندر بھیجا اور سب سے پہلے اس کو سیفٹی بیلٹ وغیرہ ڈالی اور باقی لوگوں کو بھی۔ ایسا ہم نے اس لیے کیا تاکہ اگر لفٹ گر بھی جائے تو ہمارا لوڈ اوپر رسی پر شفٹ ہو جائے اور نیچے کوئی نہ گرے۔

اس کے بعد میرے پاس الفاظ نہیں، اب بھی لوگوں کا پیار یاد آتا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’سب سے پہلے جب وہ پہنچے تو وہ ڈر رہے تھے۔ انھوں نے چیختے ہوئے کہا کہ رسی کو مت ہلانا یہ گر جائے گی۔

’ہم نے انھیں سمجھایا کہ خدا پر بھروسہ رکھیں، کچھ نہیں ہو گا۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آپ کی جان خود ہم سے بھی زیادہ قیمتی ہے۔‘

علی کہتے ہیں کہ ’انھیں میں نے دو تین منٹ میں ریلیکس کیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ سب پشتو بولتے تھے اور میری پوری ٹیم اردو۔ ان میں سے صرف ایک بندہ تھا جس کو اردو سمجھ آتی تھی۔ میں نے اس سے بات کی اور کہا کہ آپ سب کو سمجھاتے جائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’پھر ہم نے ایک ایک بندے کو اوزار پہنچائے۔ ہم نے اس کی پُلیز کو استعمال کرتے ہوئے اس میں ہُک کیا۔

’ہمارے پیچھے ایک حفاظتی رسی بندھی ہوئی تھی جس کو فوجی جوان اور سویلینز کھینچنے میں مدد دے رہے تھے کیونکہ یہاں گریڈیئینٹ تھا۔‘

’میں تقریبا چار سو فٹ تک ہاتھوں سے گیا جہاں تک میری ہمت تھی۔ جب میرے بازو بالکل جیم ہو گئے تو خدا نے مدد کی اور وہ رسیاں جو پھنسی ہوئی تھیں وہ کھل گئیں۔‘

’میرے لیے یہ بہت مشکل تھا کیونکہ میرا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔ رسی کا بل پڑ گیا تھا۔ جو لوگ رسی کھینچ رہے تھے انہیں ہماری آواز نہیں آ رہی تھی۔ بہت مشکلات تھیں مگر خدا نے مجھے ہمت دو گنا دے دی تھی۔‘

وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ انھوں نے جب اس کیبل کار کو دیکھا تو یہ نہایت خستہ حالت میں استعمال شدہ مقامی پارٹس سے بنی ہوئی تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سات سے آٹھ سال پرانی ہو گی اور اس کی کوئی منٹیننس وغیرہ نہیں ہوئی تھی۔ ڈولی ایک تار پر لٹکی ہوئی تھی اور اور وہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی تھی۔

’ہم نے اس کے سروں کو مضبوط کیا اور خدا پر توکل کرتے ہوئے رسک لے لیا، یہی آخری آپشن تھا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More