تحریک عدم اعتماد: کیا نریندر مودی ’چُپ کا روزہ‘ توڑیں گے؟

اردو نیوز  |  Aug 10, 2023

انڈین وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر حکمراں اور اپوزیشن کے درمیان بحث آخری مرحلے میں ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی آج لوک سبھا میں ایوان سے خطاب کریں گے۔

ہندوستان ٹائمز کے مطابق امکان ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی آج شام چار بجے کے بعد ایوان سے خطاب کریں گے۔

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے تصدیق کی ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا جواب دینے کے لیے وزیر اعظم آج (جمعرات کو) ایوان میں موجود ہوں گے۔

اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس نے گذشتہ مہینے جولائی میں مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی جس پر منگل سے بحث کا آغاز ہوا۔

 گذشتہ دو دن سے فریقین کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔ اپوزیشن نے حکومت پر منی پور میں تقسیم پیدا کرنے کا الزام لگایا جبکہ حکمراں اتحاد نے حکومت کے فلاحی کاموں کو روک کر اپنا دفاع کیا۔

بحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے رکن پارلیمنٹ گورو گوگوئی نے کہا کہ منی پور تشدد پر وزیر اعظم نریندر مودی کے 'مون ورت' (چُپ کا روزہ) توڑنے کے لیے آئی این ڈی آئی اے  بلاک حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر مجبور ہوئی۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ایک ایسی حکومت جو ’ایک انڈیا‘ کی بات کرتی ہے اس نے دو منی پور بنائے ہیں: ایک پہاڑیوں میں اور دوسرا وادی میں۔‘

مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے اپوزیشن پر تنقید کی کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرکے ’کنفیوژن‘ پیدا کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ’تحریک عدم اعتماد کا مقصد صرف انتشار پھیلانا ہے۔ وہ نہ تو کسان دوست ہیں، نہ غریب دوست ہیں۔ انہیں اپنے خاندان کے علاوہ کسی کی فکر نہیں ہے۔‘

حکومت نے اس سے قبل مانسون اجلاس کے آخری دن 11 اگست کو منی پور تشدد سے متعلق معاملے پر بات چیت کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

بحث کے اختتام پر ووٹنگ بھی ہو گی۔  ایوان زیریں میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس این ڈی اے کے 331 ارکان ہیں جن میں سے 303 بی جے پی کے ہیں جو 272 کی اکثریت سے کہیں زیادہ ہے۔

اس کے برعکس آئی این ڈی اے بلاک کے 144 ایم پی ہیں۔ اگر اسے بی آر ایس کی حمایت ملتی ہے تو یہ تعداد 152 تک جا سکتی ہے۔ اب تک، نوین پٹنائک کی بی جے ڈی جس کے 70 ایم پی ہیں، تحریک کی حمایت سے پیچھے ہٹ گئی ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More