آئرن 14 سو ملین ٹن، کوپر چھ ہزار ملین ٹن، سونا اعشاریہ 134 ملین ٹن، چاندی 618 ملین ٹن، ٹنگسٹن تین اعشاریہ ایک ملین ٹن، میگنی سائٹ اعشاریہ 597 ملین ٹن، لیڈ زِنک 23 ملین ٹن، کرومائٹ دو اعشاریہ پانچ ملین ٹن ۔یہ پاک سرزمین کی مٹی میں دفن وہ معدنیات ہیں جن کی مالیت کا اندازہ 6 کھرب ڈالر لگایا گیا ہے۔
پاکستان پر قرضہ تقریباً 140 ارب ڈالر کے قریب ہے اور اگر پاکستان یہ 6 کھرب ڈالر کی معدنیات نکالنا شروع کردے تو قرضے منٹوں میں ادا ہوسکتے ہیں، پاکستان عرب ممالک سے زیادہ امیر ہوسکتا ہے، عوام خوشحال ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے پاس کون کون سی معدنیات ہیں اور ان معدنیات سے پاکستان کیسے قرضوں سے نجات حاصل کرسکتا ہے لیکن وہ کون کون سے لیکن ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اتنے بڑے بڑے خزانوں کا مالک ہونے کے باوجود آج تک مشکلات سے دوچار ہم آپ کو بتائینگے۔
ہم بچپن سے مطالعہ پاکستان میں پڑھتے اور سنتے بھی آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہمارے پاس معدنیات کے خزانے ہیں لیکن افسوس گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان گندم کے بحران کا شکار ہے اور ہم یوکرین اور دیگر ممالک سے گندم منگواکر کھانے پر مجبور ہیں۔پاکستان کے پاس سونے کے بڑے بڑے ذخائرہیں لیکن ہم دنیا سے بھیک مانگ مانگ کر گزارا کررہے ہیں۔
اب حکومت نے پاکستان کےپاس 6 کھرب ڈالر کے معدنی ذخائر کا دعویٰ کیا ہے، یہ اتنی رقم ہے کہ پاکستان اگر ان ذخائر کو نکال کر دنیا کو بیچنا شروع کردے تو ہمارے قرضے دنوں یا مہینوں میں نہیں بلکہ منٹوں میں اتر جائیں۔
پاکستان پر اس وقت مجموعی قرضے تقریباً 140 ارب ڈالر کے قریب ہیں، اگر ہم 6 کھرب ڈالر میں سے 140 ارب ڈالر نکال بھی دینگے تو شائد کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا لیکن اس کا عوام کی زندگیوں پر بہت گہرا اثر ہوگا۔
قرضے ختم ہونے کے ساتھ ٹیکس کاانبار کم ہوجائے گا، عوام کو بجلی، گیس اور دیگر اشیا سستی ملیں گی، پیٹرول سستا ہوجائیگا اور غریب عوام کا خون نچوڑنے کا سلسلہ بھی تھم جائے گالیکن دوستو یہ لیکن ہماری زندگیوں کیلئے بڑا عذاب بن چکا ہے کیونکہ جہاں بات عوام کی زندگیوں میں بہتری کی ہو وہاں یہ لیکن پتا نہیں کیوں آجاتا ہے۔
ہم برسوں سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان کے پاس نمک اور کوئلے کے بڑے ذخائر ہیںسونے کے پہاڑاور معدنیات کی کہانیاں بھی برسوں سے سننے میں آرہی ہیں اور اب حکومت نے بڑے بڑے ذخائر کا دعویٰ کردیا ہے۔
جیولوجیکل سروے کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں چھ کھرب ڈالر سے زائد مالیت کی معدنیات پائی جاتی ہیں۔ آئرن 14 سو ملین ٹن۔۔۔۔کوپر چھ ہزار ملین ٹن۔۔۔ سونا اعشاریہ 134 ملین ٹن۔۔۔۔ چاندی 618 ملین ٹن۔۔۔ ٹنگسٹن تین اعشاریہ ایک ملین ٹن۔۔۔ میگنی سائٹ اعشاریہ 597 ملین ٹن۔۔۔ لیڈ زِنک 23 ملین ٹن۔۔۔ کرومائٹ دو اعشاریہ پانچ ملین ٹن۔
نان مٹیلک معدنیات میں ماربل اور گرینائٹ کی مقدار چار ہزار 298 ملین ٹن۔۔۔ اونیکس دو ملین ٹن۔۔ کوئلہ ایک لاکھ 86 ہزار ملین ٹن ہے۔صنعتی استعمال کی معدنیات میں برائٹ۔۔ ڈولومائٹ۔۔فیلڈپار۔۔۔روک سالٹ۔۔ فاسفیٹ۔۔۔سلیکا سینڈ۔۔ جپسم اور سوپ سٹون پائے جاتے ہیں۔ جپسم کی مجموعی مقدار چار ہزار 850 ملین ٹن بتائی گئی ہے۔
وزیرمملکت مصدق ملک نے دعویٰ کیا ہے کہ جو معدنیات اور مٹی ہم بیچیں گے اس سے ملک لاکھوں ڈالر کمائے گا، سونا اور تانبا ملک کی تقدیر بدلے گا۔ان کا کہنا ہے کہ 100ٹن مٹی میں سے 1ٹن میٹل بیچیں تو 5ہزار ڈالر کماتے ہیں۔
اس وقت دنیا میں کاپر کی بہت زیادہ مانگ ہے۔۔ آج کے ریٹ کے مطابق ایک کلو کاپر کی قیمت 25 سو روپے کے قریب ہے اب آپ اندازہ لگائیں گے ہمارے پاس 6 ہزار ملین ٹن کاپر ہے اور اگر 6 ہزار ملین ٹن کو 25سو سے ضرب دیں تو یقیناً نتیجہ دیکھ کر آپ کے ہوش اڑ جائینگے۔
جس طرح دنیا کے کئی ممالک تیل بیچ کر معاشی میدان میں ترقی کرتے جارہے ہیں اسی طرح اگر پاکستان 6 ہزار ملین ٹن کاپر زمین سے نکال کر دنیا کو بیچنا شروع کردے تو ہمارے قرضے لمحوں میں ختم ہوسکتے ہیں اور آپ کی۔۔ میری۔۔ اور ہماری نسلوں کی زندگیاں خوشحال ہوسکتی ہیں لیکن یہاں پھر لیکن آگیا۔
پاکستان کو سب سے زیادہ زرمبادلہ تیل خریدنے کیلئے خرچ کرنا پڑتا ہے لیکن یہاں بھی لیکن ہے کیونکہ پاکستان کی اپنی زمینوں میں تیل موجود ہے اور دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کئی ایسی جگہیں ہیں جہاں سے بھارت اور پاکستان کی حدود ساتھ ساتھ ہیں لیکن بھارت تو تیل نکال رہا ہے لیکن پاکستان کو تیل نہیں مل رہا۔
اگر پاکستان کے حکمران لیکن ویکن اگر مگر ایک طرف رکھ کر سب سے پہلے پاکستان کا سوچنا شروع کردیں تو کوئی لیکن ہمارے مستقبل پر سوالیہ نشان نہیں لگاسکتا۔پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹیں دور کرنے اسپیشل انویسٹمنٹ فیسی لیٹیشن کونسل قائم کی جاچکی ہے، معدنیات کی دولت سے فائدہ اٹھانے کیلئے منرل سمٹ کا انعقاد بھی کیا گیا ہے ۔
یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ سرمایہ کاری میں حائل دہشت گردی اور دیگر رکاوٹوں کو بھی جلد دور کیا جائے اور معدنی منصوبوں کو جلد سے جلد آگے بڑھایا جائے تاکہ ہمارا اور ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل قرضوں کے بوجھ سے آزاد ہو اور پھر کوئی لیکن یا اگر مگر ہمارے لیے مشکلات پیدا کرنے کی وجہ نہ بن سکیں۔