Getty Images
سابق وزیراعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد پشاور میں تحصیل چیئرمین کی نشست کے انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی جیت کو پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا پر پارٹی کی مقبولیت کے بیانیے کے طور پر استعمال کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
پانچ اگست کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کارکنوں اور رہنماؤں کی جانب سے آنے والے ردعمل کو، جس میں نہ تو کوئی بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا اور نہ ہی رہنماؤں کی جانب سے واضح انداز میں احتجاج کی کال دی گئی، دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کے ناقدین نے اسے پارٹی کی مقبولیت میں کمی کا مظہر قرار دیا۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟
پی ٹی آئی کہ حامی کہتے ہیں کہ ایک خاموش حمایت ہے جو اب بھی پی ٹی آئی کے لیے موجود ہے جو احتجاج اور دھرنوں میں تو نظر نہیں آتی لیکن ووٹ کی شکل میں ظاہر ہوئی ہے۔
تحریکِ انصاف کی حامی ایک خاتون نے بی بی سی کو اس سوال کے جواب میں پشاور میں بلدیاتی نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار کی کامیابی کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’آپ نے دیکھا نہیں، دو روز قبل کیسے لوگوں نےپی ٹی آئی کے ایک عام ورکر کو ووٹ دیے اور وہ کتنی اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اور کیا ہوتی ہے محبت یا سپورٹ؟‘
خیال رہے کہ عموماً بلدیاتی سطح پر ہونے والے ضمنی انتخاب کو نہ تو کسی سیاسی پارٹی کی مقبولیت کا آئینہ دار قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کی بنیاد پر مستقبل میں ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے کوئی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کیونکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں پارٹی ووٹ بینک سے زیادہ انتخاب میں حصہ لینے والی شخصیات اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد اگرچہ پاکستان بھر میں کچھ لوگ نکلے ضرور اور کہیں گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن ان مظاہرین کی تعداد بہت کم تھی۔
سینیئر صحافی عرفان خان کا کہنا ہے کہ ریاستی دباؤ اور جبر سے کسی بھی سیاسی جماعت کو کمزور نہیں کیا جا سکتا۔
انعام خان: بنی گالہ میں سکیورٹی کیمرہ انچارج سے تحصیل چیئرمین تک کا سفر
پشاور اور ایبٹ آباد میں اتوار کے روز بلدیاتی انتخابات کی تحصیل سطح کی دو نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ یہ نشستیں پشاور کی تحصیل متھرا اور ایبٹ آباد کی تحصیل حویلیاں کی تھیں۔
پشاور متھرا میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار انعام خان کامیاب ہوئے ہیں جبکہ حویلیاں میں آزاد امیدوار عزیر شیر کامیاب ہوئے اور پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار دوسرے نمبر پر آئے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل عزیر شیر کے کزن عاطف منصف اس نشست پر آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔ ان کے قتل کے بعد یہ نشست خالی ہوئی تھی۔
پشاور متھرا کی بلدیاتی نشست پر اس مرتبہ تحریک انصاف کے ایک ایسے کارکن کو ٹکٹ دیا گیا جس نے اپنی سیاست کا آغاز سن 2008 میں انصاف سٹوڈنٹ فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے کیا اور پھر وہ آئی ایس ایف کے صدر رہے اور اس کے بعد وہ انصاف یوتھ ونگ کے ساتھ وابستہ رہے اور یوتھ ونگ کی پشاور میں قیادت بھی کی۔
انعام خان نے بتایا کہ وہ بنی گالہ میں سکیورٹی کیمرہ انچارج رہے تھے اور اس کے بعد زمان پارک میں بھی وہ ڈیوٹی کرتے رہے ہیں۔
ان کے بقول انھیں ٹکٹ دینا ان پر تحریک انصاف کے قائدین کا اعتماد ظاہر کرتا ہے اور وہ ان کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مشکل الیکشن تھا کیونکہ حکومت کی جانب سے ان پر سختیاں تھیں ’رہنما گرفتار تھے، کارکنوں کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی اگر کوئی باہر آتا تو اسے گرفتار کیا جاتا۔‘
ایسے میں ان کے لیے انتخابی مہم چلانا بڑا مشکل تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب عمران خان اور پی ٹی آئی سے محبت کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ لوگوں کے دلوں میں عمران خان کی محبت قائم ہے اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔‘
پشاور متھرا تحصیل کے چیئرمین کی نشست پر انعام خان نے غیر حتمی نتائج کے مطابق 20333 ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے قریب ترین مخالف جمعیت علماء اسلام کے امیدوار نے 13564 ووٹ حاصل کیے۔
عام انتخابات میں اس نشست پر پی ٹی آئی چوتھے نمبر پر آئی تھی اور پی ٹی آئی کا امیدوار 8000 ووٹ ہی حاصل کر سکا تھا۔ جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیدوار فریداللہ خان اس نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔
Getty Imagesریاستی دباؤ کا الٹا نتیجہ
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی گرفتاریاں اور بیشتر رہنماؤں کا سیاست کو ہی خیرباد کہہ دینا یا دیگر جماعتوں میں شامل ہوجانا یہ سب دیکھ کر مخالفین کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی کے غبارے سے ہوا نکال دی گئی ہے۔‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں یہ ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ لوگوں میں مقبول رہا ہے۔
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عرفان خان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت پاکستان تحریک انصاف کا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ لوگوں میں مقبول ہے جبکہ ماضی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا یہی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کامیاب رہا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور میں ضمنی انتخابات میں پی ایم ایل نوشہرہ سمیت دیگر علاقوں میں زیادہ نشستوں پر اسی لیے کامیاب ہوئی تھی کہ ان کا بیانیہ اس وقت بِک رہا تھا۔‘
عرفان خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اپنے دورِ اقتدار کے آخری دنوں میں مقبلولیت کھو رہی تھی لیکن ’جبر اور دباؤ کے واقعات نے اسے دوبارہ مقبولیت نواز دی۔‘
پاکستان تحریک انصاف سنہ 2018 کے انتخابات میں مرکز اور صوبہ پنجاب میں بمشکل حکومت بنا پائی تھی تاہم خیبر پختونخوا میں انھیں اکثریت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کو پی ٹی آئی کا گڑھ کہا جانے لگا۔
پی ٹی آئی واحد جماعت تھی جس نے خیبر پختونخوا میں مسلسل دوسری مرتبہ حکومت قائم کی۔ صوبہ سندھ میں بھی پی ٹی آئی چند نشستیں لینے میں کامیاب ہوئی تھی لیکن بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کوئی خاص نمائندگی حاصل نہیں کر پائی تھی۔
Getty Imagesنو مئی کو عمران خان کی گرفتاری پر کارکنوں کی جانب سے شدید ردِ عمل سامنے آیا تھا پی ٹی آئی کے خلاف کارروائیاں
نو مئی اور پانچ اگست کو عمران خان کی گرفتاریوں پر کارکنوں کی جانب سے ردِ عمل کے واضح فرق کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا لوگ پی ٹی آئی کی حمایت سے پیچھے ہٹے ہیں یا انھوں نے سیاسی سرگرمیاں ہی چھوڑ دی ہیں۔
اس بارے میں ہم نے پی ٹی آئی کے کارکنوں اور حامیوں سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور دیگر ادارے جتنی بھی سختیاں کر لیں عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کی محبت ان کے دلوں سے کوئی نہیں نکال سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں اور حامیوں کا کہنا تھا کہ خوف اتنا ہے کہ دو بندے گھر سے نہیں نکل سکتے۔ ہر وقت پولیس اور نامعلوم افراد کا خوف رہتا ہے۔
وہ کہتے ہیں انھیں اپنی پرواہ نہیں ہوتی لیکن وہ ’اپنی عزت اور گھر والوں کی وجہ سے باہر نہیں نکل سکتے مگر پی ٹی آئی کی حمایت وہ کرتے رہیں گے۔‘
ناہید (فرضی نام) ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کا تعلق ایک ایسے شہر سے ہے جہاں خواتین گھروں سے کم ہی نکلتی ہیں لیکن وہ پاکستان تحریک انصاف کے جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرتی رہی ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی عہدیدار نہیں ہیں لیکن وہ پی ٹی آئی کی حمایت کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے لیے حالات انتہائی مشکل ہیں کہ گھر سے باہر نکلنا محال ہو گیا ہے۔ گھر والے بھی اب منع کرتے ہیں کہ باہر نہیں جانا، کسی قسم کی سرگرمی میں شرکت نہیں کرنی لیکن وہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی حمایت کرنا نہیں چھوڑ سکتیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما، کارکنوں اور یہاں تک کہ ان کی حمایت کرنے والے افراد کے خلاف بھی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ گرفتار کیے گئے افراد کو ایک مقدمے سے اگر ضمانت ملتی ہے تو دوسرے مقدمے میں انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
’ٹویٹ کرنا چھوڑا ہے حمایت نہیں‘
گذشتہ سال اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کی حمایت کرتی ہیں اور وہ پہلے سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک تھیں۔
وہ پی ٹی آئی کی پالیسوں اور جماعت کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں پر اکثر ٹویٹ کیا کرتی تھیں۔ پھر ایک دو مرتبہ انھیں نا معلوم نمبروں سے فون کال موصول ہوئیں جن میں، بقول ان کے، ان سے کہا گیا کہ ’آئندہ ایسی ٹویٹ نہیں کرنا اور اس بارے میں خاموش رہو۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس کے بعد میں گھبرا گئی اور میں نے ٹویٹ کرنا ہی چھوڑ دیا، والدین نے بھی منع کیا کہ عورت ذات ہو، اگر خدانخواستہ پولیس گرفتار کر لے تو کیا کرو گی، کون بچانے آئے گا، اس لیے میں خاموش ہو گئی لیکن سیاسی وابستگی تو جماعت کے ساتھ ہے۔‘
پشاور یونیوسٹی کی سابق طالبہ جویریہ نے بتایا کہ ’یہ سب کو معلوم ہے کہ 9 مئی کا واقعہ کیسے پیش آیا جب عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ ابھی مکمل ہوا نہیں تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔ تو کیا 9 مئی کو یہ سب کو روک نہیں سکتے تھے اور یہ اب سب کو معلوم ہے کہ سارا کھیل بنایا گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ سوشل میڈیا پر لوگوں نے پی ٹی آئی کی حمایت کرنا چھوڑ دی ہے ’لیکن ہاں لوگ محتاط ضرور ہو گئے ہیں اور پوسٹس بڑے احتیاط سے کر رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جو حکومت ہے اس کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کہ کب کس وقت کس کے گھر چھاپہ مار دیں، اس لیے لوگ اپنی بےعزتی سے ڈرتے ہیں۔‘
جویریہ کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی غیر مقبول ہو گئی ہے تو حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر انتخابات کرا دے اور اگر آزاد انتخابات ہوئے تو پی ٹی آئی ہی کامیاب ہو گی۔‘
Getty Images’لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے کارکن نہیں نکلے‘
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اس مرتبہ گرفتاری پر کارکنوں اور عوام کے سڑکوں پر نہ نکلنے کی ایک وجہ قائدین کا رویہ بھی بتایا گیا ہے۔
جاوید (فرضی نام) کا تعلق تخت بھائی سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو وہ قائدین کے کہنے پر سڑکوں پر نکل آئے تھے لیکن وہاں جو کچھ ہوا وہ نا قابل برداشت تھا۔ ’وہ جو توڑ پھوڑ کی گئی اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں تھا اور ناں ہی ہم چاہتے تھے کہ اس طرح کی توڑ پھوڑ ہو۔ اس لیے ہم اس مرتبہ کسی احتجاج کے لیے نہیں نکلے۔‘
کچھ شہریوں نے کہا کہ 9 مئی کو قائدین تو گھروں میں رہے اور کارکنوں کو انھوں نے مشکل میں ڈال دیا تھا۔ اب کچھ قائدین تو گرفتار ہیں اور کچھ کے خلاف مقدمات درج ہیں اور لیکن کارکنوں کی بڑی تعداد گرفتار ہوئی اور اب انھیں کچہریوں کے چکر لگانے پڑ رہے ہیں۔ والدین کی پریشانی الگ، اس لیے اس مرتبہ تو کسی کو گھر سے باہر نکلنے ہی نہیں دیا گیا۔
سینیئر صحافی اور ڈان ٹی وی کے بیورو چیف علی اکبر نے بتایا کہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کے کارکنوں کے نہ نکلنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس طرح کے جلسے جلوسوں میں نکلنے سے آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج ہو سکتے ہیں یا گرفتاریاں ہو سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ ’جماعت کے بیشتر قائدین یا تو جماعت چھوڑ چکے ہیں یا وہ خود روپوش ہیں اس لیے وہ کارکنوں کو نہیں نکال سکے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بڑے بڑے لیڈر اب جماعت میں نہیں تھے اس لیے کارکن بھی متحرک نہیں تھے اور لیڈر شپ نہ ہونے کی وجہ سے کارکن باہر نہیں نکلے۔‘
سیاسی کارکن اور قائدین کی مشکلات
عمران سالارزئی یونین کونسل حیات آباد کے چیئرمین ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ حالات جتنے بھی مشکل ہوں ہوں وہ اپنی کوشیش جاری رکھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پر امن احتجاج کرنے پر انھیں گرفتار کیا گیا تھا اور وہ چھ دن جیل میں رہے، پھر ضمات پر ان کی رہائی ہوئی۔ وہ اپنی جماعت کے لیے کام کر رہے ہیں اور ان کے ساتھ بڑی تعداد میں کارکن ہیں لیکن ان کے بقول حکومت نے انھیں ان کے ’قانونی اور آئینی حق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘۔
’ہمیں احتجاج کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی تو ایسے میں کارکنوں اور اپنے لوگوں کو کیسے خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک جماعت کی حمایت اور مقبولیت کی بات ہے تو پشاور متھرا کے انتخابات میں سب نے دیکھ لیا ہے۔ حکومت جتنا دباؤ ڈال رہی ہے جماعت کی حمایت اور مقبولیت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘