بیرون ملک رہتے ہوئے آزادی کی جنگ لڑنے والے کرشنا مینن جیسے بیشترانڈین لیڈر گوا کو انڈیا کے چہرے پر ایک ’پھوڑا‘ کہتے تھے۔ وہ اکثر نہرو سے کہا کرتے تھے کہ ’گوا کو گھر لانا ہے۔‘
گوا کے بارے میں نہرو کو ایک طرح کا ’مینٹل بلاک‘ تھا۔ انھوں نے مغربی ممالک کو یقین دلایا تھا کہ وہ زبردستی گوا کو انڈیا کے ساتھ ضم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے، لیکن کرشنا مینن انھیں یہ باور کرانے میں کامیاب رہے کہ وہ پرتگال کی اس کالونی کے حوالے سے دوہرا معیار نہیں اپنا سکتے۔
ایک طرف تو وہ نسل پرستی کے حامی ممالک کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور دوسری طرف انڈیا سے ملحقہ گوا پر پرتگالی قبضے کے بارے میں بالکل خاموش ہیں۔
جب پرتگالیوں کو گوا سے باہر نکالنے کی تمام کوششیں پرامن طریقے سے ناکام ہوئیں تو نہرو نے فوج بھیج کر گوا کو آزاد کرانے کے منصوبے کو ہری جھنڈی دکھا دی۔
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’گوا، 1961 دی کمپلیٹ سٹوری آف نیشنلزم اینڈ انٹیگریشن‘ کے مصنف والمیکی فلیرو لکھتے ہیں: ’انڈین فوجیوں کی نقل و حرکت دو دسمبر سنہ 1961 کو شروع ہوئی تھی۔ 50 ویں پیراشوٹ بریگیڈ کو آگرہ، حیدرآباد اور مدراس سے بیلگاؤں لایا گیا۔‘
’شمالی، مغربی اور جنوبی انڈیا میں 100 سے زیادہ مسافر ٹرینوں کے راستے بدل کر بریگیڈ کے دستوں کو بیلگاؤں پہنچایا گیا۔ مسافر ٹرینوں کے علاوہ، کئی مال گاڑیوں کو بھی فوجی ساز و سامان بیلگاؤں تک پہنچانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جس کی وجہ سے احمد آباد کی بہت سی ملوں کو نقصان پہنچا کیونکہ کوئلے کی قلت کی وجہ سے انھیں بند کرنا پڑا۔‘
پرتگال نے اپنا جنگی بیڑا گوا بھیجا
پرتگال نے بھی انڈین کارروائی سے نمٹنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ اس نے اپنے ایک بحری جہاز ’انڈیا‘ کو گوا بھیجا تاکہ ’باکو نیشنل الٹرمارینو‘ میں پرتگالی شہریوں کا سونا اور ان کے بیویوں اور بچوں کو لزبن بھیجا جا سکے۔
پی این کھیڑا اپنی کتاب ’آپریشن وجے، دی لبریشن آف گوا اینڈ ادر پرتگیز کالونیز ان انڈیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’9 دسمبر 1961 کو پرتگالی جہاز لزبن سے مورموگاؤں پہنچا۔ جہاز نے 12 دسمبر کو لزبن کے لیے واپسی کا سفر شروع کیا۔ جہاز میں 380 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی لیکن اس پر 700 خواتین اور بچوں کو بھیجا گیا، جہاز میں اتنے لوگ تھے کہ کچھ لوگ بیت الخلا میں بھی بیٹھے ہوئے تھے۔‘
دسمبر 1961 میں انڈیا میں امریکی سفیر جان کینتھ گالبریتھ نے کئی بار انڈین وزیر اعظم جواہر لعل نہرو سے ملاقات کی تاکہ ان پر گوا میں فوجی کارروائی کا فیصلہ ملتوی کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
گوا میں فوجی کارروائی کا پہلے سے طے شدہ دن 14 دسمبر تھا جسے مزید بڑھا کر 16 دسمبر کر دیا گیا۔ 15 دسمبر کو گالبریتھ نے نہرو کے ساتھ ان کے وزیر خزانہ مرارجی ڈیسائی سے بھی ملاقات کی۔
اڈیلا گائتونڈے اپنی کتاب ’ان سرچ آف ٹومارو‘ میں لکھتی ہیں: ’مرار جی گوا میں تشدد کے استعمال کے خلاف تھے کیونکہ وہ ذاتی طور پر نوآبادیاتی مسائل کے حل کے لیے عدم تشدد کے استعمال کے حامی تھے۔‘
’پرتگالی امریکہ کی آخری ڈپلومیسی کے کامیاب ہونے کے بارے میں اس قدر پر اعتماد تھے کہ 16 دسمبر کی رات پرتگالی گورنر جنرل اور ان کی فوج کے کمانڈر ان چیف نے ایک دوست کی بیٹی کی شادی کی ضیافت میں شرکت کی۔‘
17 دسمبر کو امریکی سفیر نے نہرو سے ملاقات کی اور تجویز پیش کی کہ انڈیا گوا کے خلاف فوجی کارروائی چھ ماہ کے لیے ملتوی کر دے۔ اس میٹنگ میں موجود کرشنا مینن نے نہرو اور گالبریتھ سے کہا کہ ’اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ انڈین فوجی گوا میں داخل ہو چکے ہیں اور انھیں واپس نہیں بلایا جا سکتا۔‘
کئی سال بعد کرشنا مینن نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ وہ بات سچ نہیں تھی۔ انڈین فوجیوں نے اس وقت تک گوا کی سرحد پار نہیں کی تھی۔
اسی رات کرشنا مینن نے گوا کی سرحد پر پہنچ کر انڈین فوجیوں کا معائنہ کیا۔ اس سے پہلے کہ مینن نہرو کو فوجی کارروائی کا وقت بتاتے انڈین فوج گوا میں داخل ہو چکی تھی۔
BBCمرارجی دیسائیانڈین فوج کو معمولی مزاحمت کا سامنا
انڈین فوج نے 17-18 دسمبر کی درمیانی رات کو گوا کی سرحد عبور کی۔ ٹائمز آف انڈیا نے 19 دسمبرسنہ 1961 کے اپنے اخبار میں ایک بینر والی سرخی شائع کی کہ ’آور ٹروپس انٹر گوا، دمن اینڈ دیو ایٹ لاسٹ۔‘
انڈین فوج کو گوا میں داخل ہونے کے لیے معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ گوا پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری میجر جنرل کینڈتھ کی قیادت میں 17 انفنٹری ڈویژن کو دی گئی۔
مورخ رام چندر گوہا اپنی کتاب ’انڈیا آفٹر گاندھی‘ میں لکھتے ہیں: ’18 دسمبر کی صبح انڈین فوجیں شمال میں ساونت واڑی، جنوب میں کاروار اور مشرق میں بیلگاؤں سے گوا میں داخل ہوئیں۔‘
’اس دوران، انڈین طیاروں نے پورے گوا میں کتابچے گرائے جس میں گوا والوں کو پرسکون اور ہمت کے ساتھ رہنے کو کہا گیا تھا۔ کتابچے میں کہا گیا تھا کہ اپنی آزادی پر خوش ہوں اور اسے مضبوط کریں۔ 18 دسمبر کی شام تک دارالحکومت پنجی کو گھیر لیا گیا تھا، مقامی لوگ انڈین فوجیوں کی مدد کر رہے تھے۔ اور انھیں ان جگہوں کے بارے میں بتا رہے تھے جہاں پرتگالیوں نے بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں۔‘
آپریشن کے آغاز کے 36 گھنٹوں کے اندر پرتگالی گورنر جنرل نے غیر مشروط ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کر دیے تھے۔
جب پنجاب رجمنٹ کے سپاہی پنجی میں داخل ہوئے تو انھوں نے پرتگالی افسران اور ان کے سپاہیوں کو صرف زیر جامہ میں پایا۔
جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انھوں نے بتایا کہ انھیں یہ بتایا گیا تھا کہ انڈین فوجی اتنے ظالم ہیں کہ اگر وہ کسی پرتگالی فوجی کو وردی میں دیکھ لیں تو اسے اسی وقت گولی مار دیں گے۔
BBCانڈیا کے سابق وزیر دفاع کرشنا میننبریگیڈیئر سگت سنگھ کا اہم کردار
بریگیڈیئر سگت سنگھ کی قیادت میں 50ویں پیرا شوٹ بریگیڈ نے ذمہ داری سے بڑھ کر کام کیا اور اتنی تیزی سے پنجی پہنچے کہ ہر کوئی دنگ رہ گیا۔
بریگیڈیئر سگت سنگھ کی سوانح عمری لکھنے والے جنرل وی کے سنگھ کہتے ہیں کہ ’چوبیس گھنٹے کے اندر ان کی بٹالین پنجی پہنچ گئی۔ وہاں سگت سنگھ نے اپنی بٹالین کو یہ کہہ کر روک دیا کہ رات ہو گئی ہے۔ پنجی ایک گھنی آبادی والا علاقہ ہے۔ رات کے وقت حملے سے عام شہری مارے جا سکتے ہیں۔ صبح کے وقت انھوں نے دریا پار کیا۔ پرتگالی حکومت نے انڈین سپاہیوں کو روکنے کے لیے پل توڑ دیے تھے۔ سگت سنگھ کے سپاہی ایک طرح سے تیر کر دریا پار کر گئے۔‘
جون 1962 تک انڈین فوجی گوا میں اپنا آپریشن مکمل کر کے آگرہ واپس آ چکے تھے۔
آگرہ کے مشہور کلارک شیراز ہوٹل میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ میجر جنرل وی کے سنگھ بتاتے ہیں: ’بریگیڈیئر سگت سنگھ سول ڈریس میں وہاں گئے تھے۔ وہاں کچھ امریکی سیاح بھی تھے جو انھیں بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ان میں سے ایک نے آکر پوچھا، کیا آپ بریگیڈیئر سگت سنگھ ہیں؟‘
’انھوں نے کہا آپ یہ کیوں پوچھ رہے ہیں؟ آدمی نے کہا ہم ابھی پرتگال سے آرہے ہیں۔ ہر طرف تمہارے پوسٹر لگے ہوئے ہیں، ان پر لکھا ہے کہ جو تمہیں پکڑے گا اسے دس ہزار ڈالر ملیں گے۔ بریگیڈیئر سگت سنگھ نے ہنستے ہوئے کہا کہ ’اگر آپ کہین تو میں آپ کے ساتھ چلوں‘۔ امریکی سیاح نے ہنستے ہوئے کہا، ’اب ہم پرتگال واپس نہیں جا رہے ہیں۔‘
پرتگال نے گوا پر قبضے کی خبروں کو سینسر کیا
دوسری جانب پرتگال کے دارالحکومت لزبن میں سینسر کے تحت کام کرنے والا پریس وہاں کے لوگوں کو گوا میں پرتگالی فوجیوں کی سخت مزاحمت اور انڈین فوجیوں کے ساتھ جنگ کی خبریں دے رہا تھا۔
یہ جھوٹی خبر بھی شائع کی جا رہی تھی کہ پرتگالی فوجیوں نے انڈین فوجیوں کو قیدی بنا لیا ہے۔
پرتگال کے لوگوں کو یہ نہیں بتایا گیا کہ گوا میں بہت کم پرتگالی فوجی موجود ہیں۔ ان کے پاس نہ تو جنگی تجربہ ہے اور نہ ہی انھیں ایسی کارروائیوں کے لیے تربیت دی گئی ہے۔
اگر وہ علامتی طور پر احتجاج کرنا چاہتے تو بھی ان کے پاس اس کے لیے کافی ذرائع نہیں تھے۔ جب پرتگال نے سلامتی کونسل میں یہ معاملہ اٹھایا تو اس دن تک پرتگالی پریس بڑھا چڑھا کر یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ اب تک انڈیا کے 1500 فوجی مارے جا چکے ہیں۔
18 دسمبر کو دن بھر گوا ریڈیو جنگ کی موسیقی بجاتا رہا لیکن اس نے انڈین فوجیوں کے گوا میں داخل ہونے کی کوئی خبر نہیں دی۔
جیسے ہی انڈین طیاروں نے دیبولم ایئرپورٹ پر بمباری شروع کی سکول جانے والے بچوں کو کہا گیا کہ وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔
ہنٹر طیاروں کی ڈیبولم ہوائی پٹی پر بمباری
18 دسمبر کو صبح سات بجے سکواڈرن لیڈر جےونت سنگھ کی قیادت میں چھ ہنٹر طیاروں نے پونے کے ایئر فورس بیس سے ٹیک آف کیا۔ انھوں نے بمبولم کے ریڈیو سٹیشن پر راکٹوں اور توپوں سے حملہ کیا اور اسے 10 منٹ میں تباہ کر دیا۔
گوا کا بیرونی دنیا سے رابطہ ٹوٹ گیا۔ گوا ریڈیو کا وہ مشہور اعلان ’یہ پرتگال ہے، آپ ریڈیو گوا سن رہے ہیں‘ ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔
اسی دوران 12 کینبرا اور 4 ہنٹر طیارے پونا سے گوا کے لیے روانہ ہوئے۔ اس نے گوا کے دیبولم رن وے پر 1000 پاؤنڈ کے 63 بم گرائے۔
یہ بھی پڑھیے
جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی
گوا: دوپہر میں کام نہیں صرف آرام، گوا کے لوگوں کی خوشی کا پرانا راز
والمیکی فلیرو لکھتے ہیں: ’پہلے راؤنڈ میں 63 پاؤنڈ بم گرانے کے باوجود، انڈین فضائیہ خاموش نہیں بیٹھا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد انھوں نے وہاں دوبارہ حملہ کیا اور اس بار کل 48،000 پاؤنڈ بم گرائے۔
’آدھے گھنٹے بعد، فلائٹ لیفٹیننٹ ویوین گڈون کو دیبولم فضائی پٹی پر بمباری سے ہونے والے نقصان کی تصویر بنانے کے لیے بھیجا گیا۔ تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فضائی پٹی کو نسبتاً کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ اس کے بعد 11 بج کر 40 منٹ پر تیسرا حملہ کیا گیا۔‘
خواتین اور بچوں کو لزبن بھیجا گيا
انڈین فضائیہ کی جانب سے شدید بمباری کے باوجود ڈیبولم فضائی پٹی پر صرف چند گڑھے ہی بن سکے۔ گوا میں موجود پرتگالی افسران نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کو ہوائی جہاز کے ذریعے پرتگال بھیجیں گے۔
اس وقت ڈیبولم میں صرف دو طیارے دستیاب تھے، جیسے ہی اندھیرا ہوا ڈیبولیم کی فضائی پٹی پر موجود گڑھوں کی فوری مرمت کی گئی۔ گڑھے کے باوجود گورنر جنرل سلوا نے ان طیاروں کو اڑان بھرنے کی اجازت دے دی۔
والمیکی فلیرو لکھتے ہیں: ’پرتگالی افسران کی بیویوں اور بچوں کو دو طیاروں میں بھرا گیا اور اہم سرکاری دستاویزات بھی رکھے گئے۔ ان طیاروں نے اندھیرے میں بہت بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے بغیر لائٹس روشن کیے صرف 700 میٹر طویل رن وے سے ٹیک آف کیا۔‘
’ان طیاروں پر سمندر میں تعینات انڈین جنگی جہازوں نے فائرنگ بھی کی لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، بہت نیچی پرواز کرتے ہوئے اور لمبا سفر طے کرتے ہوئے پاکستان کے کراچی ایئرپورٹ پر اترے۔‘
اسی دوران گوا کے گورنر جنرل میجر جنرل سلوا واسکو ڈی گاما پہنچ گئے۔
سکھ رجمنٹ کے سپاہی میجر بل کارویلو کی قیادت میں وہاں سب سے پہلے پہنچے۔
بریگیڈیئر روی مہتا نے والمیکی فلیرو کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’میجر بل کارویلو، کیپٹن آر ایس بالی اور میں اس عمارت کے گیٹ پر پہنچے جہاں جنرل سلوا موجود تھے۔ ہم میس میں موجود میز پر پہنچے جہاں جنرل سلوا بیٹھے تھے۔ تب تک معلوم ہو چکا تھا کہ انڈین فوج نے انھیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور ان کے پاس مزاحمت کا کوئی آپشن نہیں تھا۔ بل نے گورنر کو سیلوٹ کیا، گورنر نے کھڑے ہو کر اس کی سلامی کا جواب دیا۔‘
بل نے کہا کہ آپ اپنے سپاہیوں کو ہتھیار ڈالنے اور بیرکوں کے اندر چلے جانے کا حکم دیں۔
انھوں نے گورنر سے کہا کہ وہ اپنی رہائش گاہ پر چلے جائیں جہاں ان پر نظر رکھنے کے لیے انڈین فوج کے کچھ سپاہی تعینات کیے گئے ہیں۔
کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل نندا نے فیصلہ کیا کہ ہتھیار ڈالنے کی تقریب رات کو ہوگی۔
جنرل سلوا نے ہتھیار ڈال دیے
ہتھیار ڈالنے کی تقریب 19 دسمبر 1961 کو رات 9.15 بجے ہوئی۔ اس وقت وہاں بہت کم لوگ موجود تھے۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر سریش کنیکر تھے جنھوں نے گوا کی آزادی کی جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔
بعد میں انھوں نے 2011 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب ’گواز لبریشن اور دیئر آفٹر‘ میں لکھا کہ ’ہتھیار ڈالنے کی تقریب ایک کھلے میدان میں ہوئی تھی۔ بریگیڈیئر ڈھلون ایک جیپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے وہاں موجود کاروں کو انگریزی خط ’سی‘ کی تشکیل میں ترتیب دیا۔ ان کی ہیڈلائٹس آن تھیں اور اس جگہ پر فوکس تھیں جہاں جنرل سلوا ہتھیار ڈالنے والے تھے۔
’تقریبا 8:45 پر جنرل سلوا کو وہاں لایا گیا۔ ان کے ساتھ ان کے چیف آف سٹاف لیفٹیننٹ کرنل مارکے ڈی اینڈریڈ بھی تھے۔ انھیں تقریباً آدھا گھنٹہ انتظار کرایا گیا۔ ان کے دونوں طرف انڈین فوجی قطاروں میں کھڑے تھے۔‘
ڈاکٹر کنیکر مزید لکھتے ہیں: ’بریگیڈیئر ڈھلوں کو بتایا گیا کہ تمام انتظامات کر لیے گئے ہیں، تو وہ اپنی جیپ سے اتر کر جنرل سلوا کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ بریگیڈیئر ڈھلون کو مخاطب کرتے ہوئے لیفٹیننٹ کرنل نندا نے کہا کہ گوا، دمن اور دیو کے گورنر جنرل ان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں۔‘
’نندا کے حکم پر، جنرل سلوا آگے بڑھے۔ انھوں نے ڈھلون کو سیلوٹ کیا۔ ڈھلون نے سلامی واپس نہیں کی۔ اس سے مجھے حیرت ہوئی کیونکہ سلوا ایک میجر جنرل تھا اور ڈھلوں سے اعلیٰ عہدے پر فائز تھا۔ انھوں نے ڈھلون کو ہتھیار ڈالنے کے کاغذات دیے۔‘
انڈین فوج کے کمانڈر جنرل کینڈتھ واسکو ڈی گاما میں موجود نہیں تھے اس لیے وہ ہتھیار ڈالنے کی رسم میں شامل نہ ہو سکے۔ ہتھیار ڈالنے کے وقت کینڈتھ کو معلوم نہیں تھا کہ انڈین فوج واسکو ڈی گوما پہنچ گئی ہے۔ انھوں نے رات گیارہ بجے ٹیلی فون پر اس بارے میں مکمل معلومات حاصل کیں۔
ہتھیار ڈالنے کی اس تقریب کی کوئی تصویر موجود نہیں ہے۔ ڈاکٹر سریش کنیکر لکھتے ’لیفٹیننٹ کرنل نندا نے تقریب کی تصویر کے لیے ایک فوٹوگرافر کا انتظام کیا تھا لیکن فوٹوگرافر کے کیمرے میں فلیش نہیں تھا۔ نندا نے فوٹوگرافر سے کہا تھا کہ جب وہ اشارہ کریں گے تو تصویر کھینچیں گے لیکن آخری لمحے میں نندا اشارہ کرنا بھول گئے، اس لیے فوٹوگرافر نے تصویر نہیں کلک کی۔‘
Getty Imagesپرتگال کے آمراولیویرا سلازارپرتگال کے 3307 فوجیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا
سلوا کی اہلیہ فرنینڈا سلوا کے ساتھ جنرل چودھری کے وعدے کے باوجود اچھا سلوک نہیں کیا گیا۔
والمیکی فلیرو لکھتے ہیں: ’انھیں ڈونا پاؤلا میں واقع ان کی سرکاری رہائش گاہ سے زبردستی نکال دیا گیا تھا۔ انھیں پنجی کی سڑکوں پر گھومتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ سابق چیف سکریٹری ایبل کولاسو نے انھیں اپنی سرکاری رہائش گاہ میں پناہ دی تھی۔‘
’جب یہ معاملہ پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا تو نہرو نے کولاسو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے مصیبت زدہ عورت کے ساتھ ایک مہذب انسان جیسا سلوک کیا۔29 دسبمر کو فرنانڈا سلوا کو انڈین فضائیہ کے ایک طیارے سے بمبئی لے جایا گیا جہان سے لزبن کے لیے ایک پرواز میں انھیں سوار کرا دیا گيا۔‘
ان کے شوہر جنرل سلوا پانچ ماہ بعد اپنے ملک جا سکے۔ اس پورے آپریشن میں انڈیا کے 22 فوجی ہلاک جبکہ 54 دیگر فوجی زخمی ہوئے۔ ارجن سبرامنیم اپنی کتاب ’انڈیاز وارز 1947-71‘ میں لکھتے ہیں کہ اس مہم میں پرتگالی فوج کے 30 فوجی ہلاک اور 57 زخمی ہوئے۔
والمیکی فلیرو لکھتے ہیں: ’لزبن پہنچنے پر پرتگالی جنگجوؤں کو ملٹری پولیس نے عام مجرموں کی طرح بندوق کی نوک پر اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ ان کے اہل خانہ نے ان سے ہوائی اڈے پر ملاقات کرنی تھی لیکن انھیں ان سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انھیں ایک نامعلوم مقام پر بھیج دیا گیا۔ انھیں بزدل اور غدار کہہ کر ان کی توہین کی گئی۔‘
گورنر جنرل سلوا سمیت ایک درجن کے قریب افسران کو فوج سے نکال دیا گیا۔
یہی نہیں ان پر تاحیات کسی بھی سرکاری عہدے پر فائز رہنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ جب 1974 میں اقتدار کی تبدیلی ہوئی تو ان برطرف افراد کو دوبارہ بحال کر دیا گیا اور میجر جنرل سلوا کو فوج میں ان کے پرانے عہدے پر بحال کر دیا گیا۔
انڈیا نے گوا میں رہنے والے تمام لوگوں کو انڈیا کی شہریت دی۔ انڈیا نے ان کے سامنے پرتگالی شہریت چھوڑنے کی کوئی شرط نہیں رکھی۔
انڈیا کے قانون میں دوہری شہریت کا کوئی بندوبست نہیں ہے لیکن 1961 سے پہلے گوا میں رہنے والے لوگوں کے لیے اس سے مستثنی تھے۔