آفیشل سیکرٹس ایکٹ ترمیمی بل: انٹیلیجنس اداروں کو مزید کیا اختیارات دیے گئے اور اس کی مخالفت کیوں؟

بی بی سی اردو  |  Aug 02, 2023

Getty Images

پاکستان کے ایوان زیریں قومی اسمبلی نے منگل کو آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 کی منظوری دی جبکہ اسے آج سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

یہ بل پارلیمانی امور کے وزیر مرتضی جاوید عباسی کیا اور اس حوالے سے بتایا گیا کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ 1923 میں ترمیم ناگزیر ہے اور سرکاری دستاویزات کے تحفظ اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے بدلتے ہوئے سماجی منظر نامے کے تناظر میں یہ اس عمل کو مزید موثر بناتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ قانون برطانوی راج کے دوران سنہ 1923 میں بنایا گیا تھا جس کا مقصد فوج سے متعلق خفیہ معلومات فراہم کرنے پر کارروائی کرنا تھا۔

بل متعارف کرائے جانے سے لے کر اس کی منظوری تک، قومی اسمبلی میں کوئی بحث نہیں ہوئی بلکہ خاموشی چھائی رہی۔

ایک موقع پر ارکان پارلیمان کی شکایت پر ڈپٹی سپیکر زاہد اکرم درانی نے پارلیمنٹ کے عملے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’بل کی کاپیاں دیں نا، آپ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ ابھی آ جائے گا، دے رہے ہیں۔‘

رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ ’جناب سپیکر! یہ (کاپی) ہمیں ابھی دی گئی۔ مجھے کیا پتا اس میں کیا ہے، کیا نہیں۔ اگر میں ہاں کر دوں اور یہ ملک و اسلام کے لیے نقصان ہو تو کیا اللہ کے دربار میں آپ اور ہم مجرم نہیں؟ آئین کی خلاف ورزی ہے۔۔۔ آپ لوگوں نے اس کا ترجمہ بھی نہیں کیا۔‘

آفیشل سیکرٹس ایکٹ ترمیمی بل میں کیا ہے؟BBCآفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا۔ نو مئی کی تصویر جس میں مشتعل مظاہرین کو کور کمانڈر ہاؤس لاہور داخل ہوتے دیکھا جاسکتا ہے

اس بل کو تاحال قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر شائع نہیں کیا گیا تاہم بی بی سی کی جانب سے حاصل کی گئی اس کی ایک کاپی میں درج مندرجات کے مطابق اس میں حساس اداروں، مخبروں اور ذرائع کی شناخت ظاہر کرنے پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

بل کے سیکشن سکس اے (غیر مجاز طور پر شناخت ظاہر کرنا) میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے امن و امان، تحفظ، مفاد اور دفاع کے خلاف انٹیلیجنس اداروں کے اہلکاروں، مخبروں یا ذرائع کی شناخت ظاہر کرنا جرم تصور ہو گا۔

بل کے سیکشن ایٹ اے میں ’دشمن‘ کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ ’یہ کوئی بھی وہ شخص ہے جو بلواسطہ یا بلا واسطہ، جانے یا انجانے میں بیرونی قوت، ایجنٹ، نان سٹیٹ ایکٹر، ادارے، ایسوسی ایشن یا گروپ کے ساتھ کام کرتا ہے جس کا مقصد پاکستان کے مفاد اور تحفظ کو نقصان پہنچانا ہے۔‘

سیکشن نو کے مطابق جرم میں اکسانے، سازش کرنے یا معاونت کرنے والوں کو جرم میں شریک سمجھ کر وہی سزا دی جائے گی۔

تاہم آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں مبصرین کی جانب سے سب سے زیادہ متنازع قرار دی گئی سرچ وارنٹ سے متعلق شق میں کہا گیا ہے کہ انٹیلیجنس ادارے کسی جرم یا جرم کے شبے میں ’ضرورت پڑنے پر بغیر وارنٹ طاقت کے زور پر کسی بھی وقت کسی شخص یا جگہ کی تلاشی لے سکتے ہیں۔‘

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ انٹیلیجنس ادارے (آئی بی اور آئی ایس آئی) شک کی بنیاد پر کسی بھی قسم کے دستاویزات، نقشے، ماڈل، آرٹیکل، نوٹ، ہتھیار یا الیکٹرانک آلات ضبط کرنے اور ملزم کو گرفتار کرنے کے مجاز ہوں گے۔

قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے گریڈ 17 یا اوپر کے افسر کو ڈی جی ایف آئی اے کی جانب سے نامزد کیا جائے گا۔

اس کے مطابق ڈی جے ایف آئی اے کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر ایف آئی اے اور حساس اداروں کے افسروں پر مشتمل جے آئی ٹی بنا سکتے ہیں مگر ایف آئی اے کو 30 روز میں تحقیقات مکمل کرنا ہوں گی۔

بل کے مطابق ایسی ’الیکٹرانک ڈیوائسز، ڈیٹا، معلومات، دستاویزات یا دیگر مواد‘ جو تحقیقات کے دوران حاصل کیے گئے اور ان سے جرم کے ارتکاب میں سہولت کاری کی گئی، انھیں بطور شواہد پیش کیا جاسکے گا۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل میں درج ہے کہ ممنوع علاقوں کی جانب پیشرفت، داخلہ یا حملے کی منصوبہ بندی کرنا جرم تصور ہوگا، اور ’ان مینڈ وہیکل‘ یا ڈرون کی مدد سے ممنوع علاقوں کا جائزہ لینے پر پابندی ہوگی۔

اس کے تحت افواج کی صلاحیت سے جڑی کسی سرگرمی، دستاویزات، ایجاد یا ہتھیار وغیرہ تک غیر مجاز رسائی غیر قانونی ہوگی۔

اس ایکٹ میں ترمیم کے طور پر ان علاقوں کو بھی شامل کیا گیا ہے جو عارضی طور پر جنگی آزمائش، تربیت، ریسرچ، دستوں کی نقل و حرکت یا ان کیمرا اجلاس کے لیے مسلح افواج کے زیرِ کنٹرول ہیں۔

AFP’خفیہ اداروں کو وسیع اختیارات دینے کا مقصد ان کی کارروائیوں کو لیگل کوور دینا ہے‘

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن اور وکلا آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ماورائے آئین قرار دے رہے ہیں۔

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ماضی میں پاکستانی فوج کی لیگل برانچ، جسے جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ یا جیگ برانچ کہتے ہیں، سے بھی منسلک رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ ’آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ اگر کسی کو گرفتار کرنا ہے، یا کسی گھر کی تلاشی لینی ہے، اس کے لیے سرچ وارنٹ ہونا ضروری ہے۔‘

انھوں نے رکن پارلیمان پر بھی تنقید کی کہ انھوں نے اس بل کو ’پڑھے بغیر منظور کیا۔‘

چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق قانون سازی پر حکم امتناع کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر بھی ایکشن لیا جانا چاہیے۔

جبکہ سماجی کارکن ایمان مزاری نے کہا کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں ترامیم کا مقصد انٹیلیجنس اداروں کو مزید اختیارات دینا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایمان نے کہا کہ ان ترامیم کے تحت آئی ایس آئی اور آئی بی کو وسیع پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ ’کسی کو بھی اپنے شک کی بنیاد پر روک لیں، تلاشی لے لیں‘ جس کا مقصد ’اختلاف رائے کو دبانا‘ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’خوفناک بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی انٹیلیجنس افسر کی شناخت ظاہر کریں، اس بات سے قطع نظر کہ وہ آپ کا تعاقب کر رہے ہیں جیسے بلوچ طلبہ کے کیس میں ہوتا ہے، تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔‘

ان کی رائے میں یہ ترامیم محض سیاستدانوں کو ہی نہیں بلکہ صحافیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے متاثرین کے لیے بھی خطرناک ہوسکتی ہیں۔

لاپتہ افراد کے کیسز کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شناخت ظاہر کرنے سے جڑی کڑی سزاؤں سے باعث جبری طور پر گمشدہ کیے جانے والے افراد کے ٹھکانوں سے متعلق آف دی ریکارڈ معلومات حاصل کرنا مزید مشکل ہوسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ خفیہ اداروں کی کارروائیوں بشمول جبری گمشدگیوں اور گھروں پر چھاپوں کو ’لیگل کوور‘ دینے کے مترادف ہے۔

https://twitter.com/SenatorMushtaq/status/1686632965386665984

دریں اثنا سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ ایک ہی روز میں سینیٹ کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی منظوری کا ارادہ پارلیمنٹ کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔

انھوں نے کہا کہ یہ سٹریٹیجک قانون ہے جس پر ’ہمہ پہلو طویل سیر حاصل بحث ہونی چاہیے۔‘

سینیٹر مشتاق کے مطابق اس کی موجودہ حالت میں منظوری سے ’پورا ملک ایک چھاؤنی اور ایک کھلا قید خانہ بن جائے گا۔‘

’انٹیلیجنس ایجنسیوں کو گرفتاریوں، تلاشیوں، ضبط کرنے کے غیر معمولی اختیارات مل جائیں گے۔ (یہ) دستور کے آرٹیکل نو کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے انسانی حقوق، انسانی آزادی اور میڈیا کی آزادی کے اوپر اثرات پڑ سکتے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More