گھریلو ملازمہ پر تشدد کے الزام میں سول جج کی اہلیہ کے خلاف مقدمے میں ملزمہ صومیہ عاصمنے لاہور ہائیکورٹ سے جو حفاظتی ضمانت لے رکھی تھی، آج اس کا آخری دن تھا اور اسی لیے آج ان کا متعقلہ عدالت میں پیش ہو کر ضمانت لینا ضروری تھا۔
میڈیا اور لوگوں کی ایک قابل ذکر تعداد ایڈیشنل سیشن جج عابدہ سجاد کی عدالت میں عدالتی وقت شروع ہونے سے پہلے ہی جمع ہو گئی تھی۔
چار گھنٹے کے انتظار کے بعد ملزمہ صومیہ عاصم دو خواتین اور دو مرد وکلا کے ساتھکالا برقعہ پہنے عدالت میں پیش ہوئیں تو ان کے وکیل راجہ انصر عباس نے ضمانت نامہ پیش کیا۔
جج عابدہ سجاد نے ضمانت کے لیے دائر درخواست اور دستاویزات کو دیکھ کر وکیل سے استفسار کیا کہ ملزمہ کا اصل شناختی کارڈ کہاں ہے، جس پر ملزمہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ تو کہیں گم ہو گیا لیکن انھوں نے شناختی کارڈ کی کاپی لگائی ہوئی ہے۔
اس پرعدالت نے کہا کہ جب تک اصل شناختی کارڈ نہیں آئے گا اس وقت تک درخواست ضمانت پر سماعت نہیں ہو سکتی۔
ملزمہ کے وکیل نے کمرہ عدالت میں صحافیوں کو بتایا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کاغذات کی کاپیاں کرواتے ہوئے ان کی مؤکلہ کا اصل شناختی کارڈ کہیں رہ گیا، اس لیے انھوں نے اس کی تلاش کے لیے اپنے جونئیرز کو بھیجا ہے۔
راجہ انصرعباس کا کہنا تھا کہ اگر شناختی کارڈ نہ ملا تو پھر ملزمہ کا پاسپورٹ گھر سے لا کر عدالت میں پیش کرنا پڑے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ملزمہ کے وکیل کو یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ اگر اس دوران عدالتی وقت ختم ہو گیا تو پھر شاید ان کی مؤکلہ کی ضمانت نہ ہو سکے، جس کے بعد پولیس کو ملزمہ کو گرفتار کرنے کا جواز مل جائے گا۔
سماعت میں وقفے کے دوران کمرہ عدالت میں ملزمہ کے وکیل نے کچھ ویڈیوز بھی دیکھائیں جس میں ان کے بقول دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کی مؤکلہ چند روز قبل ملازمہ کو ان کی والدہ کے حوالے کرنے کے لیے ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے اڈے پر اپنی گاڑی میں چھوڑنے جا رہی ہیں۔
ان ویڈیوز میں کمسن ملازمہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہیں اور وہ بظاہر کافی توانا اور تندرست نظر آ رہی ہیں۔
وکیل نے کہا کہ وہ اب متعقلہ نجی کمپنی سے وہ ویڈیو بھی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس میں ملازمہ کی والدہ اپنی بیٹی کو اپنے آبائی علاقے سرگودھا لے کر جا رہی ہیں تاہم وکیل کے بقول ابھی تک انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی۔
اسی دوران راجہ انصر عباس کے جونئیرز ملزمہ کا اصل شناختی کارڈ لے کر عدالت پہنچ گئے اور مذکورہ جج کو ان کے چیمبر میں اس پیشرفت کے بارے میں بتایا گیا۔
عدالت کے سامنے جب ملزمہ کا اصل شناختی لایا گیا تو متعقلہ جج نے ملزم کو روسٹم پر آنے کو کہا اور جب ملزمہ روسٹم پر آئیں تو عدالت نے ملزمہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’نقاب اتاریے، چلیں ٹھیک ہے۔‘
ملزمہ کے نقاب ہٹانے کے بعد جج نے ایک نظر شناختی کارڈ کو دیکھا اور ایک نظر ملزمہ صومیہ پر ڈالی اور پھر کہا کہ ٹھیک ہے اور انھیں اپنی سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت دی۔
عدالت نے جب ملزمہ کی ایک لاکھ روپے کے مچلکوں کے عوض چھ روز کی ضمانت منظور کی تو وکیل کی طرف سے کہا گیا کہ پیسے لانے میں وقت لگے گا جس پر عدالت نے کہا کہ یہ کام آپ نے کرنا ہے، عدالت اس رقم میں کمی نہیں کر سکتی۔
ملزمہ جتنی دیر بھی کمرہ عدالت میں موجود رہیں تو دو خواتین وکلا ان کے اردگرد ہی بیٹھی رہیں اور انھوں نے کسی بھی میڈیا کے رکن کو ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں دی۔
سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں دو تین لوگ ایسے بھی تھے جو اس وقت کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں سے پوچھتے تھے کہ ان کا تعلق کس ٹی وی چینل سے ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے یہ بھی درخواست کرتے کہ ’جج کی بیوی ہے ہتھ ہولا رکھنا۔‘
ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت ختم ہونے کے بعد کچھ دیر تک ملزمہ اپنے وکلا کے ہمراہ کمرہ عدالت میں ہی موجود رہیں۔
شاید وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ میڈیا کے لوگ ادھر ادھر ہوں تاکہ ملزمہ کی کوئی فوٹیج نہ بن سکے لیکن جب ملزمہ صومیہ کمرہ عدالت سے باہر نکلیں تو میڈیا کے لوگوں نے ان پر سوالات کی بوچھاڑ کر دی اور اس کے ساتھ ساتھ موبائل سے ان کی ویڈیو بھی بناتے رہے۔
صحافیوں اور بالخصوص یوٹیوبرز نے اس وقت تک ملزمہ سے سوالات کرنے بند نہیں کیے جب تک وہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ نہیں ہو گئیں۔
ملزمہ صومیہ اب سات اگست کو متعقلہ عدالت میں پیش ہوں گی۔