جج کے گھر کمسن ملازمہ پر ’وحشیانہ تشدد‘ کا مقدمہ: ’انفیکشن کے باعث بچی کی طبیعت بگڑ جاتی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 29, 2023

Getty Images

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کے مقدمے میں ایف آئی آر میں نئی دفعات شامل کر لی ہیں۔

نئی دفعہ 328 اے مقدمے میں شامل کی گئی ہے جو وحشیانہ تشدد اور جسم کے اعضا ٹوٹنے سے متعلق ہے۔

اس قانون کے تحت بچوں کے ساتھ تشدد، برا سلوک، ان کے بنیادی حقوق نظرانداز کرنے یا انھیں جسمانی یا ذہنی طور پر نقصان پہنچانے کی صورت کم سے کم ایک سال جبکہ زیادہ سے تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس ضمن میں پچیس سے پچاس ہزار جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 328 (اے) موجود ہے جس کے تحت طیبہ تشدد کیس میں جج اور ان کی اہلیہ کو سزا دی گئی تھی۔

ابتدائی ایف آئی آر بچی کے والد کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ چھ ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔

متاثرہ بچی کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے۔

’انفیکشن کے باعث طبیعت بگڑ جاتی ہے‘

ایئرمیڈیکل کالج کے پرنسیپل ڈاکٹر فرید ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ مبینہ طور پر تشدد سے زخمی ہونے والی لڑکی کی حالت اب بہتر ہے۔

ان کے مطابق انفیکشن کی نوعیت اس طرح کی ہے کہ جس سے ان کی طبیعیت بگڑ جاتی ہے۔

ڈاکٹر فرید کے مطابق ’اس بچی کو شاید نہانے تک کی بھی سہولت میسر نہیں تھی اور انھیں شاید بہت ہی خراب حالت میں رکھا گیا تھا اور ان کے جسم پر زخم بھی تھے۔‘

ڈاکٹر فرید کے مطابق آج بچی کی سیچوریشن کا ایشو ہوا جس وجہ سے انھیں آکسیجن پر رکھا گیا ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ابھی یہ بچی کھا پی رہی ہے اور باتیں بھی کر رہی ہے۔‘

ڈاکٹر فرید نے بتایا کہ بچی کے دس بہن بھائی ہیں جبکہ ان کے والد سبزی منڈی میں مزدوری کرتے ہیں اور والدہ لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتی ہیں۔

ان کے مطابق اس بچی کی ری ہیبیلیٹیشن کا پلان بھی بنایا ہوا ہے، جس کے تحت انھیں مکمل صحتیابی کے بعد ایک باعزت اور بامقصد شہری بنایا جائے گا۔

’تشدد کی ملزم کو ضمانت مل جانا افسوسناک ہے‘

وزیراعظم شہباز شریف کی معاون خصوصی شزا فاطمہ خواجہ نے چیئرمین چائلڈ رائٹس عائشہ رضا کے ہمراہ جنرل ہسپتال میں داخل اسلام آباد میں سول جج کی اہلیہ کے مبینہ تشدد سے زخمی ہونے والی لڑکی کی عیادت کی۔

شزا فاطمہ خواجہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گھریلو ملازمہ بچی پر تشدد کی ملزم کو ضمانت ملنا غلط ہے، جو کچھ اس 14 برس کی لڑکی کے ساتھ ہوا وہ ناقابل برداشت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’پنجاب میں 15 سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنا خلاف قانون ہے، اس لڑکی پر تشدد کی ملزم کو ضمانت مل جانا افسوس ناک ہے۔‘

خیال رہے کہ مبینہ تشدد سے زخمی ہونے والی لڑکی کے خـاندان نے اس مقدمے میں اقدام قتل کی دفعات کی شمولیت کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیراعظم کی معاون خصوصی کہا کہ ملزمان پر درج ایف آئی آر پر بچی کے اہل خانہ کے تحفظات ہیں، ملزمان پر درج ایف آئی آر میں دفعات ٹھیک کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’جو کچھ اس لڑکی کے ساتھ ہوا وہ ناقابل برداشت ہے، ہم مظلوم فیملی کے ساتھ ہیں، پولیس مقدمے کی دفعات کو مزید بہتر کرے۔‘

شزا فاطمہ نے کہا کہ ’کم عمر بچی کو ملازمت پر رکھنا ناجائز ہے۔ ان کے مطابق بہت سنگدلی سے اس بچی پر تشدد کیا گیا ہے۔‘

چیئرپرسن چائلڈ رائٹس عائشہ رضا نے کہا کہ ملزم جتنا بھی بااثر کیوں نہ ہو، ہم اسے کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مقدمے میں اقدام قتل کی دفعات شامل کی جائیں، ہم اس فیملی کو قانونی مدد بھی فراہم کریں گے۔

Getty Images’سر سمیت جسم پر 15 جگہ پر زخموں کے نشانات‘

یاد رہے کہ والد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب وہ اپنی بیٹی سے ملاقات کرنے اپنی اہلیہ سمیت اسلام آباد آئے تو جج کے گھر میں وہ انھیں زخمی حالت میں ملی۔

انھوں نے بتایا کہ بچی لگاتار رو رہی تھی والد کے مطابق بچی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے فوراً طبی امداد کی غرض سے سرگودھا لے گئے جہاں کے سرکاری ہسپتال نے انھیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد لاہور کے جنرل ہسپتال ریفر کر دیا تھا کیونکہ بچی کے زخم خراب ہو چکے تھے۔

درج مقدمے کے متن کے مطابق بچی کا دعویٰ ہے کہ اس پر سول جج کی اہلیہ کی جانب سے بدترین تشدد کیا جاتا رہا ہے۔

سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا ہے کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم پر 15 جگہ پر زخموں کے نشانات ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘

میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘

اسلام آباد پولیس کے سربراہ ڈاکٹر اکبر ناصر کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس ملزمہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ جن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے وہ ناقابل ضمانت دفعات ہیں۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 2017 میں اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف کمسن ملازمہ پر گھریلو تشدد کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

بی بی سی سے کے ساتھ بچی کی والدہ کا ایک کلپ شیئر کیا گیا ہے جس میں وہ انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ’ظلم آپ سب کے سامنے ہے، مجھے انصاف چاہیے۔‘

’جج کی اہلیہ روزانہ اس پر تشدد کرتی تھی‘

اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کی والد کی جانب سے مذکورہ سول جج کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھیں ان کی بیٹی نے بتایا ہے کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ ان پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔‘

مقدمے کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا ہے کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق بچی کے والد نے پولیس کو بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی بچی کو ایک جاننے والے کی وساطت سے اسلام آباد کے جج کے گھر کام کے لیے رکھوایا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق جب بچی کے والد اور والدہ کئی ماہ صرف فون پر بات کرنے کے بعد گذشتہ روز بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔

’جب ہم نے اس کمرے کا رخ کیا تو وہاں سے بچی زخمی حالت میں موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی۔‘

ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘

Getty Imagesبچوں پر تشدد کے حوالے سے پاکستان کے قوانین کیا کہتے ہیں؟

خیال رہے کہ اس معاملے میں ایف آئی آر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 506 اور 342 کے تحت درج کی گئی ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 342 حبسِ بے جا میں رکھنے کے حوالے سے ہے جس کی سزا ایک سال تک قید اور تین ہزار روپے جرمانہ ہے جبکہ دفعہ 506 کے تحت جان سے مارنے کی دھمکی دینے کے حوالے سے ہے جس میں دو سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

آئیے پہلے تعزیرات پاکستان میں موجود قوانین کا ذکر کر لیتے ہیں۔

ماضی میں کمسن بچوں کے تحفظ کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی نے بی بی سی کے محمد صہیب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 328 (اے) موجود ہے جس کے تحت طیبہ تشدد کیس میں جج اور ان کی اہلیہ کو سزا دی گئی تھی۔

اس قانون کے تحت بچوں کے ساتھ تشدد، برا سلوک، ان کے بنیادی حقوق نظرانداز کرنے یا انھیں جسمانی یا ذہنی طور پر نقصان پہنچانے کی صورت کم سے کم ایک سال جبکہ زیادہ سے تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس ضمن میں پچیس سے پچاس ہزار جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

وکیل شرافت علی کا کہنا ہے کہ اسی طرح تعزیرات پاکستان کی دفعہ 336 اے اور بی اور 337 اس وقت لگائی جاتی ہے جب متاثرہ شخص کا میڈیکل کر لیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق سیکشن 336 اے میں بچوں کو کسی ایسی چیز سے ضرر پہنچانے جیسے اقدام سے نقصان پہنچانا شامل ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کے کسی عضو کو نقصان پہنچایا جائے۔ تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 336 اے میں ایسے مواد کی فہرست موجود ہیں جس کے ذریعے کسی بچے کے جسم کے عضو کو نقصان پہنچا کر اس کی ہیت بدل دی جائے۔

اسی طرح سیکشن 336 بی کے مطابق ایسی صورت میں ملزم کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے یا ایسی سزا جو 14 سال سے کم نہ ہو اور اس ضمن میں جرمانہ 10 لاکھ ہو۔

انھوں نے بتایا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 337 میں بہت تفصیل سے درج ہے کہ کس قسم کے تشدد پر کتنی سزا دی جاتی ہے اور یہ بھی میڈیکل رپورٹ سامنے آنے کے بعد شامل کی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں متاثرہ شخص کے سر پر لگنے والے زخموں کے حوالے سے خصوصاً سخت سزا کا ذکر ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More