ہیلمٹ نہ پہننے پر اپنے والد کا چالان کرنے والی کانسٹیبل سمیرا: ’ابو نے میرا ماتھا چوما مگر امی کو غصہ آیا‘

بی بی سی اردو  |  Jul 28, 2023

’جب پولیس میں بھرتی ہوئی تو یہی عزم تھا کہ بے شک میں کانسٹیبل ہوں لیکن کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی اور سب سے انصاف کرنا ہے ۔ مگر یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے اس انصاف کا شکار میرے ہاتھوں اپنے والد صاحب ہی ہو جائیں گے۔‘

یہ کہنا ہے پنجاب کے ضلع قصور کی تحصیل چونیاں میں پنجاب ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں تعینات خاتون کانسٹیبل سمیرا صدیق کا ، جنھوں نے دورانِ ڈیوٹی ہیلمٹ نہ پہننے پر اپنے والد کا چالان کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد اب سوشل میڈیا پر اُن کی فرض شناسی کو کافی سراہا جا رہا ہے۔

’ٹیچر بننا پسند نہیں تھا ، وردی اچھی لگتی تھی‘

بی بی سی نے کانسٹیبل سمیرا صدیق سے بات کی ہے۔ اُنھوں نے بتایا کہ اُن کا تعلق چونیاں کے قصبہ الہ آباد کے ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے ہے اور ان کے والد کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ اپنے سات بہن بھائیوں میں سمیرا پانچویں نمبر پر ہیں۔

سمیرا بتاتی ہیں کہ اُن کی بڑی بہنیں ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں جبکہ انھوں نے خود پنجاب یونیورسٹی سے سپیشل ایجوکیشن میں ماسٹرز کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے والدین اور بہن بھائیوں نے مشورہ دیا کہ ’تم بھی ٹیچنگ شروع کر دو۔‘

تاہم سمیرا کہتی ہیں کہ ’ مجھے ٹیچنگ کے شعبے کی بجائے وردی پسند تھی۔ اس میں انسان کی الگ ہی باوقار شخصیت ہوتی ہے اور پولیس کا شعبہ ایسا ہے جس میں انسان کے پاس فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر آپ خدا کو حاضر ناظر جان کر انصاف کریں تو اس سے بہتر کوئی اور محکمہ نہیں ہو سکتا۔‘

سمیرا کا کہنا تھا کہ جب گذشتہ سال محکمہ ہائی وے پٹرولنگ پولیس میں نوکریوں کا اشتہار شائع ہوا تو انھوں نے اپنے والد صاحب سے درخواست دینے کی اجازت مانگی۔ ’خوشی اس بات کی ہے کہ دیہات کے پس منظر سے تعلقہونے کے باوجود انھوں نے انکار نہیں کیا اور کہا کہ جیسے تم خوش ہو، ویسا کر لو۔‘

’میں نے بھرتی کے تمام مراحل کامیابی سے طے کیے، این ٹی ایس ٹیسٹ پاس کیا ، دوڑ کا ٹیسٹ ، فزیکل ٹیسٹ اور قد کی پیمائش میں بھی پاس ہو گئی ، آخر میں انٹرویوہوا جو کہ بہت اچھا ہو گیا، جب میرٹ لسٹ لگی تو میں کامیاب تھی۔ اس وقت میرٹ لسٹ دیکھ کر میری آنکھوں میں پہلی بار خوشی سے آنسو آ گئے۔‘

سمیرا نے بتایا کہ چوہنگ سینٹر لاہور میں 9 ماہ کی ٹریننگ اُن کی توقع سے زیادہ مشکل تھی۔ ’لیکن مجھے اندازہ تھا کہ یہ مرحلہ مشکل ہی ہوتا ہے، پھر پاسنگ آؤٹ پریڈ کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو میں نے اپنے ہی علاقے میں پٹرولنگ پولیس چوکی کوڑے سیال میں جوائننگ دے دی۔‘

سمیرا کا کہنا تھا کہ اس کے سامنے اس کا مشن واضح تھا کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی اور اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے تو اس کو نہیں چھوڑنا، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔

اپنے والد کا چالان کرنے کے واقعے سے متعلق بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پنجاب میں پولیس کی طرف سے صوبے کے تمام اضلاع میں موٹر سائیکل سواروں کو ہیلمٹ کی پابندی کے حوالے سے خصوصی مہم ان دنوں چل رہی ہے اور ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے چالان بڑی تعداد میں کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم تین اہلکار معمول کے مطابق قصور روڈ پر ناکہ لگائے کھڑے تھے اور ہیلمٹ نہ پہننے والوں کو روک کر ان کے چالان کر رہے تھے۔ ناکے پر ایک موٹر سائیکل روکی گئی جس پر اتفاق سے میرے والد صاحب ہی سوار تھے۔‘

سمیرا نے کہا کہ ’میں نے انہیں سلام کیا اور کہا کہ آپ کو ہیلمٹ پہننا چاہیے تھا، یہ آپ کی زندگی کی حفاظت کےلیے ضروری ہے۔ میں نے اپنیساتھی اہلکار کو بتایا کہ یہ میرے والد صاحب ہیں تو اس نے بھی انھیں سلام کیا۔ لیکن جب میں نے موقع پر موجود اے ایس آئی کو کہا کہ اُن کا بھی چالان کریں کیونکہ قانون سب کےلیے برابر ہوتا ہے تو دونوں ساتھی اہلکار حیران رہ گئے۔ پھر میرے دوبارہ کہنے پر اے ایس آئی نے دو سو روپے کی چالان رسید بنا کر میرے والد صاحب کے حوالے کر دی۔‘

’لوگوں کو پتہ چل گیا اس نے باپ کا چالان کر دیا تو کسی کو معاف نہیں کرنے والی‘

سمیرا صدیق نے کہا کہ جب ہم سڑک پر ناکہ لگا کر کھڑے ہوتے ہیں تو اس وقت پولیس کی وردی کی عزت کا سوال ہوتا ہے اور ہماری ذاتی شخصیت پیچھے رہ جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ علاقے کے لوگ آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ ان سے نرمی برتیں گے۔ ’مگر اب سب لوگوں کو پتہ چل گیا ہے کہ اس لڑکی کے ہوتے ہوئے کوئی غلط کام نہیں ہو سکتا، کیونکہ اس نے اپنے باپ کا چالان کر دیا ہے، یہ کسی کو نہیں معاف کرنے والی۔‘

سمیرا کا کہنا تھا کہ ’بڑی گاڑیوں کا چالان کریں تو وہ بُرا منا جاتے ہیں لیکن انھیں کسی کی پرواہ نہیں، ہم اپنے محکمے کو جوابدہ ہیں، اگر کوئی غیر قانونی کام کرے گا تو اسے سزا ہونی چاہیے ، یہ نہیں کہ موٹر سائیکل والوں یا چھوٹی گاڑیوں کو روکیں اور بڑی گاڑیوں والے گزر جائیں۔‘

’اماں کو غصہ آیا، باپ نے ماتھا چوما‘

سمیرا نے بتایا کہ جس روز والد صاحب کا چالان کیا اور ڈیوٹی مکمل کرنے کے بعد شام کو وہ گھر واپس آئیں تو ان کی والدہ نے ناراضگی کا اظہار کیا لیکن والد صاحب نے ان کا ماتھا چوما۔ ’مگر میں نے اور ابو نے انھیں سمجھایا تو بعد میں اماں جان بھی خوش تھیں کہ آج ہماری بیٹی نے اچھا کام کیا ہے۔‘

سمیرا نے کہا کہ یہ ان کے کیرئیر کا آغاز ہے اور وہ ملازمت کے ساتھ مزید پڑھنا چاہتی ہیں اور ساتھ میں محکمانہ امتحان بھی دیں گی تاکہ پولیس آفیسر بن سکیں اور زیادہ اختیارات سے لوگوں کو انصاف فراہم کر سکیں۔

سمیرا کہتی ہیں کہ ان کے نزدیک یہ عام سے واقعہ تھا مگر جب اس کی خبر سوشل میڈیا کے ذریعے ان کے افسران کو ہوئی تو انھوں نے ان کے لیے تعریفی سرٹیفکیٹ اور نقد انعام کا اعلان کیا گیا۔

’قانون کی خلاف ورزی کی، میرا جرمانہ تو بنتا تھا‘

سمیرا کے والد کہتے ہیں کہ ’میری بیٹی نے چند روز قبل ڈیوٹی پر جانے سے پہلے مجھ سے کہا تھا کہ ابو جی ہیلمٹ نہ پہننے والوں کے خلاف خصوصی مہم چل رہی ہے ، آپ نے ہیلمٹ پہن کر گھر سے نکلنا ہے۔‘

’حقیقت یہی ہے کہ میں نے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا تھا ، لیکن جب ناکے پر میری بیٹی نے ہی مجھے روکا تو مجھے اس وقت اس کی وہ بات یاد آ گئی، لیکن اب کیا ہو سکتا تھا ، اس نے کہا کہ ابو جی آپ کا چالان ہو گا ، میں نے کہا کہ بسم اللہ کرو بیٹی۔‘

محمد صدیق نے کہا کہ ’اگر وہ مجھے چھوڑ دیتی تو شاید اتنی خوشی نہ ہوتی، جتنی چالان بھگت کر ہوئی ہے۔ بات دو سو روپے کی نہیں ، بات اصول کی ہے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More