ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اورکا نسل کی وھیل بڑھاپے میں بھی اپنی بالغ اور کئی ٹن وزنی نر اولاد کی حفاظت کرتی ہیں۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اورکا نسل کی ایسی وھیل جو تولیدی صلاحیت ختم ہو جانے کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں وہ دیگر مچھلیوں کے ساتھ لڑائی کے دوران اپنی بالغ نر اولاد کی مدد اور حفاظت کرتی ہیں۔
اس تحقیق میں جانوروں کے جسموں پر دانتوں کے نشانات کا جائزہ لیا گیا، جن کا اورکا وہیل کے ساتھ تصادم ہوا۔
اس تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جب ایک بالغ نر ’اورکا‘ وہیل کی وہ ماں جس کی تولیدی صلاحیت ختم ہو جائے وہ اگر اس کے ساتھ ہو تو پھر اس بات کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں کہ اسے کوئی نقصان پہنچ سکے۔
چار یا پانچ ٹن وزنی وہیل کو ماں کا یہ تحفظ حاصل رہتا ہے جبکہ مادہ اپنی ماں کی اس شفقت سے محروم ہی رہتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر سے منسلک اس تحقیق کی سربراہ چارلی گرائمز نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ معمر اورکا ماؤں کی اپنی اولاد کے لیے یہ تحفظ کی پالیسی بہت ہی ’ٹارگٹڈ‘ ہے، جس کے تحت ایسی اورکا مائیں اپنے نر بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی کوشش کرتی ہیں۔
’کرنٹ بائیولوجی‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے لیے سائنسدانوں نے شمالی امریکہ کے پیسفک ساحل سے دور رہنے والی آبادی میں ’اورکا‘ کی تصاویر کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا۔ چارلی گرائمز اور ان کے ساتھی اس نتیجے پر پہنچے کہ ایسی اورکا وہیل جن کی تولیدی صلاحیت ختم ہو چکی ہوتی ہے وہ جب اپنے نر بچوں کے ساتھ تھیں تو پھر ان بچوں کے جسم پر ’دوسروں کی طرف سے پہنچنے والی چوٹیں‘ بہت کم تھیں۔
وہیل کی تولیدی صلاحیت کا معمہ
یہ کام ’جنوب میں پائی جانے والی قاتل وہیل‘ پر طویل دورانیے کی تحقیق کا حصہ ہے۔ ایک اہم سوال جو ماہر حیاتیات پوچھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ اس نوع کی مادہ اپنی طویل زندگی کے دوران جزوی طور پر دوبارہ تولید کیوں بند کر دیتی ہیں۔
بچے پیدا کرنا چھوڑ دینا یا تولیدی صلاحیت کا ختم ہو جانا، جیسا کہ انسانوں میں یہ اصطلاح عام ہے، جانوروں کی دنیا میں یہ بہت غیرمعمولی تصور ہے۔ یہ صرف انسانوں اور وہیل کی چند قسموں تک ہی محدود ہے۔
مادہ قاتل وہیل 90 سال تک زندہ رہتی ہیں اور تولیدی صلاحیت ختم ہو جانے کے بعد وہیل 20 سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہتی ہیں۔
بحر الکاہل کے جنوبی حصے میں پائی جانے والی اس وہیل پر کئی دہائیوں کی تحقیق سے یہ پتا چلا ہے کہ اپنی مادہ اولاد کے ساتھ افزائش نسل کے لیے مقابلہ کرنے کے بجائے یہ معمر مادہ قاتل وہیل تولیدی صلاحیت ختم ہو جانے کے بعد بھی ماؤں کے روپ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
وہ اپنی نر اوالاد پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔
چارلی گرائمزکا کہنا ہے کہ نر وہیل متعدد مادہ وہیل کے ساتھ افزائش نسل کر سکتی ہیں۔ اس لیے ان میں اپنی ماں کے جینز کو منتقل کرنے کی زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔
اس کے نتیجے میں بالغ، پانچ ٹن وزنی نر اورکا وہیل اپنی ماؤں کے قریب رہتی ہیں اور اپنی حفاظت کے لیے ان پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔
چارلی گرائمز کا کہنا ہے کہ ’یہ نر وہیل واقعی اپنی بقا کے لیے اپنی ماں پر انحصار کرتی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’مائیں اپنی نر اولاد کو براہ راست سالمن مچھلیاں کھلاتی ہیں، جو وہ خود شکار کرتی ہیں۔‘
چارلی گرائمز کے مطابق ’یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسی وہیل مائیں تنازع جیسی صورت حال میں وہاں موجود ہو اور اپنی نر اولاد کو اس خطرناک کھیل کا حصہ بننے سے بچنے کی ترغیب دے رہی ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
سوّا: وہ مچھلی جس نے پاکستانی ماہی گیروں کو راتوں رات لکھ پتی بنا دیا
کروکر مچھلی: جیونی سے پکڑی گئی 48 کلو وزنی مچھلی 72 لاکھ روپے میں فروخت
کروکر: ماہی گیروں کو لکھ پتی بنانے والی نایاب مچھلی جو اپنی آواز کی وجہ سے پکڑی جاتی ہے
وینکوور اور سیئٹل کے درمیان ساحلی پانیوں میں رہنے والی اس خطرناک قاتل وہیل کی آبادی کا مطالعہ ڈاکٹر کین بالکومب نے شروع کیا تھا۔ابتدائی طور پر اس تحقیق میں وہ ان کی بقا کو لاحق خطرات کا جائزہ لینا چاہتے تھے، خاص طور پر جب مقامی آبادی ان کو مارنے اور پکڑ کر مقامی سمندری حیات کے پارکوں میں فروخت کرنے کے لیے نشانہ بنا رہی تھی۔
اس قاتل وہیل کے شکار پر پابندی اور اس کے تحفط کی سرکاری کوششوں کے ساتھ ساتھ، برسوں پر محیط اس پر تحقیق اور مشاہدات نے اورکا نسل کی وہیل کی زندگی کے بارے میں ایسی باتیں ظاہر کیں جو صرف دہائیوں کے مطالعے سے ہی سامنے آسکتی تھیں۔
تحقیق میں کئی انکشافات کیے گئے ہیں مثال کے طور پر یہ قاتل وہیل بطور دادی کتنا اہم کردار ادا کرتی ہے اور مادہ وہیل اپنی نر اولاد کی کفالت کے لیے کتنی قربانیاں دیتی ہیں۔
ایکسیٹر یونیورسٹی کے ہی پروفیسر ڈیرن کرافٹ نے وضاحت کی کہ ’ہمارے پاس مفروضے ہیں، لیکن ہمیں ان مفروضوں پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ جب یہ مختلف گروہ آپس میں بات چیت کرتے ہیں تو پانی کے نیچے کیا ہوتا ہے۔ ہم نے اس آبادی سے بہت کچھ سیکھا ہے، لیکن ہمیں ان سے مزید سیکھنے کے لیے بہت کچھ ملا ہے۔‘