Getty Images
امریکہ میں اب خواتین بغیر کیس ڈاکٹر کی پریسکریپشن کے مانع حمل کی گولیاں خرید سکتی ہیں۔
اس سلسلے میں، حال ہی میں امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے اعلان کیا ہے کہ ہر عمر کی خواتین ’اوپل‘ دوا لے سکتی ہیں۔ یہ ایک مانع حمل دوا ہے۔
اوپل کا کہنا ہے کہ سال 2024 کے آغاز سے ان کی دوائیں تمام میڈیکل سٹوڑز پر دستیاب ہوں گی۔
امریکہ سمیت دنیا میں 100 ممالک ایسے ہیں جہاں میڈیکل سٹورز پر مانع حمل ادویات مل سکتی ہیں۔
امریکہ میں ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین بالخصوص نوعمر لڑکیوں میں مانع حمل ادویات کے حوالے سے پہلے شرمندگی پائی جاتی تھی لیکن اب یہ دور ہو جائے گی۔
اس کے ساتھ تولیدی صحت سے منسلک انھیں جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا ان کو حل کرنے میں بھی یہ عمل مدد گار ثابت ہو گا۔
نیشنل لائبریری آف میڈیسن پر شائع ہونے والی معلومات کے مطابق طب کی تاریخ میں ہزاروں دوائیں تیار کی گئیں لیکن 1950 میں مانع حمل ادویات کے بننے کے بعد ایک بڑی تبدیلی آئی۔
ان معلومات کے مطابق اس دوا نے خواتین کو نہ صرف آزادی دی بلکہ تولید کی خود مختاری بھی دی۔
انڈیا میں خاندانی منصوبہ بندیGetty Images
صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت پر شائع ہونے والی معلومات کے مطابق انڈیا دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے سال سنہ 1952 میں نیشنل فیملی پلاننگ پروگرام شروع کیا تھا۔
پروگرام کے نفاذ کے بعد اس میں بڑے پیمانے پر توسیع ہوئی۔ جس کے تحت حکومت کی طرف سے صحت مراکز میں مانع حمل ادویات اور کنڈوم بھی مفت دیے گئے۔
ماہر امراض نسواں ڈاکٹر ایس این باسو بتاتے ہیں کہ ’انڈیا میں مانع حمل ادویات خاندانی منصوبہ بندی کا ایک مؤثر طریقہ ہیں۔ اگر ادویات کو صحیح طریقے سے لیا جائے تو وہ سو فیصد روک تھام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی اس نے خواتین کو آزادی دی کہ جب وہ چاہیں دوسرا بچہ پیدا کریں۔‘
مانع حمل گولیاں جن میں دونوں ہارمون ایسٹروجن اور پروجیسٹرون ہوتے ہیں انھیں سی او سیز کہا جاتا ہے جب کہ جن میں صرف پروجیسٹرون ہوتا ہے انھیں پی او پیز کہا جاتا ہے۔
دلی کے امریتا ہسپتال میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹر پرتیما متل کا کہنا ہے کہ ’پہلے کھائی جانے والی مانع حمل ادویات میں ایسٹروجن کی مقدار زیادہ ہوتی تھی جس کے مضر اثرات بھی ہوتے تھے لیکن اب یہ بہت کم مقدار میں ہوتی ہیں۔‘
اپنی بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے ممبئی کی ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سچترا دلوی کہتی ہیں کہ ’خواتین کے جسم میں ایسٹروجن اور پروجیسٹرون دونوں ہارمون ہوتے ہیں اور یہ ہارمون برتھ کنٹرول میں استعمال ہوتے ہیں جس سے جسم پر مختلف اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘
Getty Imagesمانع حمل کے اثرات
ان تینوں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ برتھ کنٹرول لینے کے بڑے سائیڈ ایفیکٹ نہیں ہوتے لیکن سی او سی اور پی او پی لینے سے خواتین کے جسم پر کچھ اثر ضرور پڑتا ہے۔
ان ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ایسی خواتین جنھیں خون جمنے کی بیماری، دل کی بیماری اور ہائی بلڈ پریشر کی مریض ہیں ان کے لیے ایسی ادویات جن میں ایسٹروجن ہارمون ہو مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔
پروجسٹرون پر مشتمل دوائیں استعمال کرنے والی خواتین متلی، سر درد، بے قاعدہ ماہواری اور سر میں چکروں کا سامنا کر سکتی ہیں۔
ان ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ دوائیں دینے سے پہلے دیکھا جاتا ہے کہ کسی خاتون میں گردے اور جگر کی بیماری یا کینسر جیسی بیماری تو نہیں ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ مانع حمل ادویات لینے سے خواتین پر مختلف اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جن میں اہم درج ذیل ہیں۔
جسم پر ان ادویات کے اثراتپانی کا جمع ہونابھاری پن کا احساسمہاسے آ جاتے ہیںچھاتی کا بھاری پنموڈ میں تبدیلی ہے
ڈاکٹر پرتیما متل بتاتی ہیں کہ برتھ کنٹرول ادویات کو طویل عرصے تک لیا جا سکتا ہے اور اس کے بہت مضر اثرات نہیں ہوتے۔
ڈاکٹر سچترا دلوی کہتی ہیں کہ ’اگر کوئی عورت سگریٹ نوشی کرتی ہے اور برتھ کنٹرول لے رہی ہے جس میں ایسٹروجن ہے تو یہ خون جمنے کا باعث بن سکتا ہے جبکہ اگر دوا میں پروجیسٹرون موجود ہے تو اس سے یہ والا اثر نہیں ہو گا۔‘
دوسری جانب ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان ادویات کو لینے کے بھی کچھ فوائد ہیں لیکن یہ مریض کی صحت پر انحصار کرتا ہے۔
مانع حمل کی دوا کے فوائدGetty Imagesمانع حمل کی دوا کے فوائدسب سے اہم بات یہ ہے کہ پیدائش پر کنٹرول خاندانی منصوبہ بندی کا باعث بن سکتا ہے۔ماہواری کو ریگولیٹ کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ماہواری کے دوران بھاری خون بہنے کو کم کرنے میں مدد کرتی ہیں۔رحم کے کینسر کے خطرے میں کمی لاتی ہیں۔
ڈاکٹر پرتیما متل کا کہنا ہے کہ ایک غلط فہمی یہ ہے کہ اس دوا کو لینے سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔
ڈاکٹر سچترا دلوی کہتی ہیں کہ ’اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر آپ یہ دوائیں روزانہ لے رہے ہیں تو یہ ہارمونز آپ کے جسم میں جمع ہو رہے ہیں۔ یہ جسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر بغیر کسی تحفظ کے جنسی عمل کیا جائے تو 120 گھنٹے کے اندر ہی دوا لینے کا مشورہ دیا جاتا ہے جس سے حمل کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
دوسری طرف ’آئی پل‘ میں پروجیسٹرون بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔
مانع حمل بوجھ صرف خواتین پر کیوں؟
ماہرین کا خیال ہے کہ مانع حمل ادویات نے خواتین کو خاندانی منصوبہ بندی کی آزادی تو دی لیکن پھر اس کی ذمہ داری بھی ان پر ہی عائد ہونا شروع ہو گئی۔
ایسا نہیں ہے کہ مردوں کے لیے مانع حمل کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
حکومت کے خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کے تحت مانع حمل کی گولیوں کے ساتھ کنڈوم بھی دیے جاتے ہیں لیکن اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو اس کا استعمال کم ہوتا ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق مردوں کے لیے کم مانع حمل طریقے ہیں جن میں کنڈوم اور نس بندی شامل ہیں۔
لیکن دونوں کے ساتھ غلط فہمیاں وابستہ ہیں جیسے کنڈوم کے استعمال سے جنسی لذت کم ہوتی ہے وہیں نس بندی کی وجہ سے جسم میں کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ان ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت کی جانب سے ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے کئی آگاہی مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ مردوں کی سوچ میں تبدیلی آئی ہے لیکن اس کی شرح بہت کم ہے۔