پاکستان اور انڈیا کے گرم موسم میں دودھسے بنی تکون شکل کی جمی ہوئی نرمقلفی کا مزہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔
ہر سال مئی کے مہینے میں ان ممالک میں درجہ حرارت بڑھتا جاتا ہے اور ساتھ ہی قلفی کے ٹھیلے باہر نکل آتے ہیں۔ قلفی والے کو دیکھ کر ہی یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ گرمیوں کا آغاز ہو گیا ہے۔
قلفی اور گرمیوں کے تعلق پر کوئی شک نہیں لیکن بہت سارے لوگوں کے لیے قلفی ان کے بچپن کی یاد تازہ کرتی ہے۔
ممبئی میں بومبے قلفی کی بانی پونم شاہ کہتی ہیں کہ وہ جنوبی انڈین شہر کوئمبتور میں پیدا اور بڑی ہوئیں۔ وہاں علاقائی پکوانوں کو ترجیح حاصل تھی لہذا قلفی دستیاب نہیں تھی تاہم ممبئی میں ان کی نانی کے گھر کے قریب ایک دکان پر روایتی قلفی ملتی تھی۔
2015 میں پونم شاہ اور ان کے دوست منیش کنکریا نے انڈیا کے سب سے بڑے قلفی برانڈ میں سے ایک کی بنیاد رکھی۔
قلفی کی تاریخ اور مغل باورچی خانے
قلفی شاہی خاندان کی خواہشات اور سائنسی تکنیک کا نتیجہ تھی۔ اس کی تاریخ 16ویں صدی کے مغل دربار کے باورچی خانوں میں جا کر ملتی ہے۔ آئین اکبری میں مغل بادشاہ اکبر کے دور کے بارے میں روزانہ کی سرگرمیوں بشمول شاہی باورچی خانوں میں تیار کیے گئے پکوانوں کی تفصیلات درج ہیں اور اسی میں تاریخ میں سب سے پہلے قلفی کا ذکر نظر آتا ہے۔
انڈیا کے مغل پکوانوں پر وسطی ایشیا خصوصاً ایران کا کافی اثر و رسوخ ملتا ہے۔ قلفی کا لفظ بھی فارسی کے لفظ ’قلفے‘ سے لیا گیا، جو ان تکون کپ کو کہتے تھے جس سے قلفی کو سانچا دیا جاتا ہے۔ یہ دودھ، پستے اور زعفران کے آمیزے کو جما کر بنائی جاتی تھی۔
برصغیر میں 13ویں صدی سے برف کا استعمال کر کے گرمیوں میں مشروبات کو ٹھنڈا کیا جاتا تھا لیکن قلمی شورے (پوٹاشیم نائٹریٹ) کو استعمال کر کے قلفی جمانے والی برف بنانے کی تکنیک عربوں کی تھی۔
ٹیکنالوجی میں ترقی کی وجہ سے اب پرانے طریقے کی جگہ کمرشل ریفریجریٹر اور ٹھیلے پر لگے فریزرز نے لے لی ہے۔
پونم شاہ کہتی ہیں کہ ’انڈیا کے کچھ گاؤں میں قلفی ابھی بھی روایتی طریقے سے بنائی جاتی ہے لیکن شہروں میں یہ کم ہی نظر آتا ہے۔‘
آئین اکبری میں قلفی کا ذکر تو ہے لیکن اس کے آغاز کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس کا آغاز شاید فارس اور سمرقند کے ٹھنڈے علاقوں میں ہوا ہو۔ ان علاقوں میں 400 سے 500 قبل مسیح سے سوربے اور فالودے جیسی ٹھنڈی میٹھی ڈش موجود رہی ہیں۔
پکوانوں کی مؤرخ چارمین اوبرائن کے مطابق مغلوں نے اس نظریے کو استعمال کر کے قلفی کی موجودہ شکل بنائی۔
قطع نظر اس کے کہ قلفی کی ابتدا کہاں سے ہوئی لیکن یہ بات پریشان کن ہے کہ قلفی کو مغربی ممالک کی آئس کریم کا انڈین ورژن کہا جاتا ہے جبکہ قلفی کی ایجاد آئس کریم سے غالباً بہت عرصہ پہلے ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ آئسکریم کو تیار کرنے کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔
قلفی اور آئس کریم کیا ایک ہی چیز ہے؟
دی لیلا ایمبیئنس گروگرام ہوٹل اینڈ ریذیڈنس کے ایگزیکٹو شیف ابھیشیک گپتا کہتے ہیں کہ ’قلفی آئس کریم سے بالکل مختلف ہے۔ قلفی ایک ٹھنڈی مٹھاس ہے جو دودھ سے بنائی جاتی ہے جسے جما دیا جاتا ہے۔ اس کا آمیزہ ذائقے دار دودھ ہوتا ہے (الائچی، زعفران، پستہ، گلاب کی پنکھڑی) کو آہستہ سے پکایا جاتا ہے اور آہستہ سے پکانے کی وجہ سے شیرا بن جاتا ہے۔ اس آمیزے کو سانچے میں ڈال کر جمایا جاتا ہے۔ اس عمل میں تیزی لانے کے لیے سانچے کو پانی اور نمک میں ڈبو دیا جاتا۔‘
گپتا سمجھاتے ہیں کہ دوسری جانب آئس کریم کے لیے مختلف ذائقوں، چینی، دودھ اور کریم کو پھینٹا جاتا ہے اور اس کے بعد جما دیا جاتا ہے۔ یقیناً اسے پیش کرنے کے طریقے بھی بالکل مختلف ہیں۔
قلفی کو سانچے سے نکال کر دو حصوں میں کاٹ دیا جاتا ہے اور اس کے اوپر شربت، میوے اور زعفران ڈالی جاتی ہے جبکہ آئس کریم کو سکوپ کر کے کون یا پیالے میں ڈالا جاتا ہے۔
قلفی اور آئس کریم میں ایک بات مشترکہ ہے۔ دونوں پر کافی تجربات ہوئے ہیں۔ قلفی کے بھی بہت سارے ذائقے ہیں لیکن پستے والی قلفی آج بھی راج کرتی ہے۔