مصنوعی ذہانت مردہ اداکاروں کو کیسے ’زندہ‘ کر رہی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jul 20, 2023

Getty Imagesفلم جائنٹ کے سیٹ پر ٹریلر کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے اداکار جیمز ڈین

اداکاروں کی اکثریت ایسے کیریئر کی خواہش رکھتے ہیں جو ان کی زندگی کے بعد بھی ان کی یاد دلاتا رہے لیکن زیادہ تر اتنے کامیاب نہیں ہو پاتے۔ شو بزنس کی دنیا میں کامیابی حاصل کرنا اتنا آسان نہیں لیکن جو لوگ اس دنیا میں نام بنا لیتے ہیں وہ امر ہو جاتے ہیں اور ان کا نام اور چہرہ زندہ رہتا ہے۔

ایک ایسے ہی امریکی فلمی ستارے جیمز ڈین ہیں جو 1955 میں صرف تین فلموں میں کام کرنے کے بعد ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ تینوں فلمیں بہت کامیاب ہوئیں۔

لیکن ان کی موت کے سات دہائیوں بعد ڈین کا نام ایک نئی فلم بیک ٹو ایڈن میں کام کرنے والے اداکاروں کی فہرست میں شائع ہوا ہے۔

یہ ان کی ڈیجیٹل کلون کاپی ہو گی جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے تیار کی گئی ہے بالکل ویسے ہی جیسے جعلی ویڈیوز میں کسی کا چہرہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ کاپی فلم میں چلتی پھرتی، جیتی جاگتی اور دوسرے اداکاروں سے مکالمے کرتی نظر آئے گی۔

یہ ٹیکنالوجی ہالی وڈ کی کمپیوٹر جنریٹڈ امیجری میں شامل ہے لیکن اداکاروں اور سکرین رائٹر کی جانب سے پیش کیے گئے خدشات میں سے کچھ اس ٹیکنالوجی کے متعلق بھی ہیں اور ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وہ 43 سال کی سب سے بڑی ہڑتال میں شامل ہو چکے ہیں۔

ان کو خوف ہے کہ منافع کے لیے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ان کا متبادل تیار کیا جا رہا ہے۔ اداکار سوزن سارانڈن بھی ان میں شامل ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت مجھ سے وہ کام کروا سکتی ہے اور وہ باتیں کہلوا سکتی ہے جس میں میرے پاس کوئی اختیار نہیں ہو گا۔

واضح رہے کہ جیمز ڈین وہ پہلے اداکار نہیں جنھیں موت کے بعد زندہ کیا جا رہا ہے۔ کیری فشر، ہیرالڈ رمیس اور پال والکر بھی موت کے بعد فلمی پردے پر جلوہ گر ہو چکے ہیں۔

برازیل کی گلوکارہ الیس رجینا کو حال ہی میں ایک کار کے اشتہار میں اپنی بیٹی ماریا ریٹا کے ساتھ گاتے دکھایا گیا۔

2019 میں بھی اعلان ہوا تھا کہ جیمز ڈین کو ٹیکنالوجی کی مدد سے فائنڈنگ جیک نامی فلم میں دکھایا جائے گا لیکن بعد میں یہ منصوبہ منسوخ ہو گیا۔

میڈیا ایجنسی ورلڈ وائڈ ایکس آر (ڈبلیو ایکس آر) کے ٹریوس کلائیڈ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اب جیمز ڈین ’بیک ٹو ایڈن‘ نامی سائنس فکشن فلم میں نظر آئیں گے۔

ان کا ڈیجیٹل روپ صرف فلم میں کردار کے روپ میں ہی نہیں نظر آئے گا بلکہ مختلف پلیٹ فارمز پر شائقین سے بات چیت کر سکے گا۔

Getty Imagesاداکاروں اور سکرین رائٹر کی جانب سے پیش کیے گئے خدشات میں سے کچھ مصنوعی ذہانت کے متعلق بھی ہیں اور ان خدشات کا اظہار کرتے ہوئے وہ 43 سال کی سب سے بڑی ہڑتال میں شامل ہو چکے ہیں

یہ ٹیکنالوجی کسی کا چہرہ استعمال کرنے سے کہیں آگے ہے لیکن اس کی وجہ سے کئی سوال بھی جنم لیتے ہیں۔

کسی کے چہرے، آواز یا شخصیت کے حقوق کس کی ملکیت ہیں؟ کسی کی موت کے بعد اس کا کیریئر کا کنٹرول کس کے ہاتھوں میں ہو گا؟ کیا کسی اداکار کو اچانک کسی کامیڈی یا پورن فلم کے لیے استعمال کیا جا سکے گا؟ اور اگر ان کو کسی برے برینڈ کی تشہیر کے لیے استعمال کیا گیا تو کیا ہو گا؟

تو ایسے بڑے ستاروں کو قبر میں آرام سے سونے ہی کیوں نہ دیا جائے؟

جیمز ڈین کے کزن مارک ونسلو نے اپنا بچپن ان کے ساتھ ہی گزارا تھا۔ وہ انھیں پیار سے جمی کے نام سے پکارتے ہیں۔

ان کو شک ہے کہ جیمز کی سکرین اپیل نے ان کو جدید سینیما میں مرکزی کردار کے لیے ایک دلکش انتخاب بنایا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی ایک جگہ پر دو سے تین لوگ موجود ہوں تو آپ کی نظر فوری طور پر جیمز پر ہی جاتی۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی ان کی جگہ لے سکتا ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ سکرین پر ان جیسا کچھ پیش کیا جائے۔

ڈیجیٹل کلون

امیلیا ایئر ہارٹ، بیٹی پیج، مالکم ایکس، روزا پارکس۔۔۔ جیمز ڈین سمیت یہ نامور افراد ان سینکڑوں تصاویر میں شامل ہیں ہیں جن کی ڈبلیو آر ایکس اور سی ایم جی نامی کمپنی نمائندگی کر رہی ہے۔

فلم، تصاویر اور آڈیو کی شکل میں موجود جیمز ڈین کا مواد اب ڈبلیو آر ایکس کی زبان میں سورس میٹیریل کہلاتا ہے۔ کلائڈ کا کہنا ہے کہ جیمز کی نمائندگی کرنے کے لیے ان گنت تصاویر کو سکین کیا گیا اور ان کو ہائی ریزولوشن پر ماہرین نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے سکین کیا۔

آڈیو، ویڈیو اور مصنوعی ذہانت کو ملائیں تو یہ ڈیجیٹل کلون تیار کرنے میں مدد دیتے ہیں جو جیمز ڈین کی طرح نظر آئے گا، بات کرے گا، حرکت کرے گا۔

ڈین اپنے پیچھے ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ چھوڑ کر نہیں گئے۔ آج کل کی دنیا میں سیلیبرٹیز سوشل میڈیا، سیلفیوں، ٹیکسٹ اور ای میل، آن لائن خریداری کی وجہ سے اپنا ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ بناتے ہیں اور ان حرکات کی وجہ سے اتنا ڈیٹا اکھٹا ہو جاتا ہے جو کسی کو ان کی سوچ اور عادات کے بارے میں اتنا مواد فراہم کر دیتا ہے کہ ان کا ڈیجیٹل کلون تیار کرنا مشکل نہیں رہتا۔

اب کئی کمپنیاں صارفین کو یہ موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ اپنے پیاروں کا ڈیجیٹل ڈیٹا فراہم کر کے ایسے ڈیڈ بوٹ بنوا سکتے ہیں جو زندہ لوگوں سے بات چیت کر سکتے ہیں۔

جتنا زیادہ مواد موجود ہو گا، مرنے والے کی اتنی ہی بہتر اور ذہین شبیہ تیار ہو سکے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ جدید دنیا کی سیلیبرٹی کے ڈیجیٹل مواد کا حق جس کے پاس بھی ہو گا وہ ان کی شبیہ کے ذریعے دنیا کے خاتمے تک انھیں زندہ رکھ سکے گا۔

اداکار ٹام ہینکس نے حال ہی میں پیشگوئی کی تھی کہ وہ مرنے کے بعد بھی کام کرتے رہیں گے۔ انھوں نے ایک پوڈ کاسٹ میں ایڈم بکسٹن کو کہا کہ ہو سکتا ہے کل میں کسی بس کی ٹکر سے ہلاک ہو جاوں اور میری زندگی ختم ہو جائے لیکن میری اداکاری جاری رہ سکتی ہے۔

زندہ اداکاروں کی جگہ مردہ کو ملازمت

ٹام ہینکس کی پیش گوئی اداکاروں میں پائی جانے والی تشویش کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ان کی تشویش ہے کہ مردہ انسانوں کو ڈیجیٹلی زندہ کرنا اداکاروں اور عام عوام دونوں کے لیے اخلاقی، قانونی اور عملی مسائل پیدا کرے گا۔

وائس ایکٹرز خصوصی طور پر اس بحث کی قیادت کر رہے ہیں۔ وہ اداکاروں کے حقوق اور کیریئر کے تحفظ کے لیے ایک متحدہ محاذ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔

نیشنل ایسوسی ایشن آف وائس ایکٹرز (ناوا) کے صدر اور بانی ٹم فریڈلینڈر کہتے ہیں ’مکی ماؤس، پورکی پگ اور سنو وائٹ جب بھی ان کی آواز (وائس آرٹسٹ) کی موت ہوتی ہے ایک نئے آواز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں لیکن تب کیا ہو گا جب مل بلانک کو آپ ہمیشہ کے لیے استعمال کرسکیں؟‘

مل بلانک مشہور امریکی وائس ایکٹر تھے جنھوں نے لونی ٹونز کارٹون کے بہت سے کرداروں کی آوازیں ریکارڈ کروائیں۔

ٹم فریڈلینڈر اور ان کے وائس ایکٹرز ساتھیوں کے نزدیک یہ صورتحال کافی قریب آ چکی ہے جب مردہ اداکاروں کی آواز وائس اوور صنعت پر اجارہ داری قائم کر لے گی۔ اس سے زندہ وائس ایکٹرز کی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی۔

انھوں نے کہا ’کسی زندہ شخص کے لیے کوئی مواقع نہیں رہیں گے کیونکہ انھوں نے ایک مردہ وائس ایکٹر کے ہاتھوں اپنی ملازمت گنوا دی کیونکہ اس نے بگز بنی، پورکی پگ اور دوسرں (لوٹی ٹونز کارٹوں کے کرداروں) کی اوریجنل آواز ریکارڈ کروائی تھی۔‘

ٹریوس کلائیڈ یہ مانتے ہیں کہ اس سے اداکاروں کے لیے کم مواقع ہوں گے لیکن مردہ اداکاروں کے استعمال سے متعلق وہ ’آدھا خالی آدھا بھرے گلاس‘ کا نقطہ نظر رکھتے ہیں۔

انھوں نے کہا ’آخر میں اس سے مزید نوکریاں پیدا ہوں گی۔ اگر وہ کسی ایک کی ملازمت کے لیے خطرہ ہوں بھی تو اس وقت وہ کئی سو نئی ملازمت کے موقع بھی پیدا کر رہا ہے۔‘

ان کا اشارہ مردہ اداکاروں کا استعمال کر کے اداکاری کے علاوہ اور تکنیکی ملازمیتں پیدا کرنے کی طرف تھا۔

مُردوں کے حقوق

اگر مردہ یا ان کی ڈیجیٹل کاپی اگر ہمیشہ کے لیے ملازمت کرتے رہیں گے تو اس کا مالی فائدہ کس کو ہو گا اور کیا مردہ افراد کے کوئی حقوق ہیں؟

صاف الفاظ میں کہیں تو اس سے متعلق قوائد کافی مشکوک ہیں اور دنیا کے کچھ حصوں میں تو ان کا وجود ہی نہیں۔

امریکی بار ایسوسی ایشن کے میگزین لینڈ سلائیڈ کے لیے مشہور شخصیات کے پوسٹ مارٹم پبلسٹی کے حقوق پر لکھے ایک مضمون کے کو آرتھر ایرک کاہن کہتے ہیں کہ امریکہ کی ہر ریاست میں صورتحال مختلف ہے لیکن کچھ ریاستوں میں مردہ اداکاروں کی خواہشات کا تحفظ کرنے کے لیے کوئی واضح پبلسیٹی حقوق نہیں ہیں۔

عام طور پر جب کسی مشہور شخصیت کی موت ہوتی ہے تو اس کے ’پبلسٹی کے حقوق‘ اس شخصیت کے قریبی رشتہ داروں یا وصیت کے زریعے کسی اور پارٹی کو منتقل ہو جاتے ہیں۔

ایرک کاہن کہتے ہیں کہ ایک وصیت یہ بتاتی ہے کہ ایک مردہ اداکار کی تصویر اور شبیہہ کے فائدے کس کو ملیں گے لیکن وصیت کا قانونی وزن محدود ہوتا ہے کیونکہ ’یہ معاہدے کی طرح نہیں بلکہ یہ یکطرفہ دستاویز ہے۔‘

ایک مردہ شخص کی شکل کیسے استعمال ہوتی ہے اس کا اختیار اس کے پاس ہیں، جس کے پاس اس کے حقوق ہوں گے۔

رابن ویلیمز جیسے چند اداکاروں نے اپنی موت کے بعد اپنی شبیہہ کے استعمال کو محدود کرنے کے لیے وصیت کا استعمال کیا لیکن اس کا دورانیہ 25 سال بعد ختم ہو جائے گا۔

ایرک کاہن کہتے ہیں اداکاروں کو ہتک عزت کے حوالے سے کچھ تحفظات ملے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اداکارہ مرلن منرو کے ورثا نے ان کی شبیہہ اور تصویر کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہوئی تو ان کا پورنوگرافک فلموں میں استعمال نہیں ہو سکتا۔

یہ مرلن منرو کے ورثا پر منحصر ہے، وہ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ ان کے کاپی رائٹس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں ان کو جھوٹے بیانات سے بدنام کیا گیا، جو مرلن منرو کی حقیقی ساکھ کی عکاسی نہیں کرتا اور اسے غلط طریقے سے پیش کرتا ہے۔

اس کے علاوہ فیڈرل لینہم ایکٹ مردہ اداکاروں کو اضافی تحفظ دیتا ہے۔ یہ قانون ان کو غلط یا گمراہ کن اشتہارات میں استعمال ہونے اور ٹریڈ مارک کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے۔

Getty Imagesاداکار ٹام ہینکس نے حال ہی میں پیشگوئی کی تھی کہ وہ مرنے کے بعد بھی کام کرتے رہیں گے

نیویارک ’پبلسٹی حق‘ کی سب سے جامع تعریف پر فخر کرتا ہے جو مرنے والے افراد کو تجارتی استحصال یا ان کی ذاتی خصوصیات کے غیر مجاز استعمال سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ایرک کاہن کے ساتھ لکھے گئے قانونی مضمون کی کوآرتھر نیویارک میں مقیم اٹارنی بونی لی کہتی ہیں کہ ’اگر آپ مر گئے ہیں اور آپ کا خاندان آپ کو بیچنا چاہ رہا ہے تو آپ اس بارے میں زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔‘

انھوں نے مثال دی کہ اگر مرلن منرو کے ورثا یہ اجازت دے دیں کہ ان کی شبیہہ کو ایک فحش فلم میں استعمال کیا جا سکتا ہے تو پھر یہ غیر قانونی نہیں ہوگا۔

انھوں نے کہا ’بدقسمتی سے اگر ورثا کہیں کہ وہ یہ چاہتے ہیں تو میرے خیال سے ایسا ہو سکتا ہے۔‘

ذاتی استعمال اور نجی افراد

اگرچہ کچھ مخصوص علاقوں میں مردہ اداکاروں کی شبیہہ کو استحصال سے بچانے کے لیے ان کو کچھ مبہم حقوق حاصل ہیں لیکن عام شہریوں کو ان کی موت کے بعد ان کی شبیہہ اور ڈیجیٹل میراث پر کم ہی اختیار حاصل ہے۔

امریکہ میں نجی استعمال کے لیے مردہ لوگوں کو ڈیجیٹلی زندہ کرنے سے بچاؤ کے متعلق کم قانون موجود ہیں۔

آپ کے مرنے کے بعد کوئی بھی آپ کی پبلک ڈیجیٹل لیگیسی (انٹرٹیٹ پر آپ کا ذاتی ڈیٹا) کسی مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر میں ڈال کر آپ کا ڈیڈ باٹ یا اواتار بنا سکتا ہے۔

نیویارک جیسی ریاست جہاں مردہ افراد کو مقابلے میں زیادہ تحفظ حاصل ہے وہاں افراد کی شناخت کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر پابندی ہے۔

لیکن بونی لی کو ان کا نفاذ ہوتے نظر نہیں آرہا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آخرکار کسی کو انھیں نافذ کرنا ہو گا۔‘

ٹریوس کلائیڈ ، ٹم فریڈلینڈر اور ایرک کاہن سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ چاہے مشہور شخصیات ہوں یا عام شہری مرنے والوں کے حقوق اور میراث کے تحفظ کے لیے جلد از جلد قانون سازی کی ضرورت ہے۔

ٹیکنالوجی تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اور مرنے والوں کی ڈیجیٹل نمائندگی کے بارے میں اخلاقی بحث پہلے ہی شروع ہو گئی ہے۔

ٹریوس کلائیڈ نے ابتدائی طور پر ’تھوڑا پریشان‘ ہونے کا اعتراف کیا۔ وہ یہ دیکھ کر پریشان تھے کہ مردہ لوگوں کو ڈیجیٹل طور پر کیسے زندہ کیا جا رہا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ ڈبلیو ایکس آر ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہر طریقے سے کام کر رہی ہے۔

جہاں تک مارک ونسلو کا تعلق ہے وہ اپنے کزن جیمز ڈین کو ڈیجیٹلی زندہ دیکھ کر ملے جلے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں جانتا کہ اس کے بارے میں کیا سوچنا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان کا احترام کیا جائے۔ وہ واقعی اداکاری کو بہت سنجیدہ لیا کرتے تھے۔ میں چاہوں گا کہ ان کی وہی تصویر پیش کی جائے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More