دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ’انڈیا‘ بمقابلہ ’بھارت‘ کوئی نئی بحث نہیں ہے لیکن گذشتہ دنوں حکمراں جماعت بی جے پی کے اتحاد نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) کے خلاف ایک نئے سیاسی محاذ نے اس مباحثے کو نیا موڑ دے دیا ہے۔
اتوار کو انڈیا کے جنوبی شہر بنگلور میں دو درجن سے زیادہ پارٹیوں کا اجلاس ہوا جس میں حزب اختلاف کے اتحاد کو ’آئی این ڈی آئی اے‘ یعنی ’انڈیا‘ نام دیا گیا۔
یہ ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس‘ کا مخفف ہے۔ بنگلور میں ہونے والے دو روزہ اجلاس کے اختتام پر اس کا اعلان کیا گیا۔
اجلاس میں شرکت کرنے والی ایک اہم پارٹی ترنمول کانگریس کی رہنما اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے کہا: ’این ڈی اے، کیا تم انڈیا کو چیلنج کر سکتے ہو؟‘ انھوں نے کہا کہ ’کیا اب بی جے پی انڈیا کی مخالفت کرے گی۔‘
اس کے بعد انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے منگل کو این ڈی کی نئی تعریف وضع کرتے ہوئے اسے ’نیو انڈیا ڈیولپڈ نیشن ایسپائریشن آف پیپل آف انڈیا‘ قرار دیا یعنی انڈینز کے ترقی یافتہ ملک ہونے کے خواہاں لوگوں کا نیا انڈیا۔
بہرحال اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر بھی مباحثہ چل پڑا ہے اور لوگ اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں۔
دریں اثنا آسام کے وزیر اعلی اور بی جے پی رہنما ہمنتا بسوا سرما نے اپنے ٹوئٹر ہینڈل پر اپنے تعارف سے ’انڈیا‘ کا لفظ ہٹا کر ’بھارت‘ لفظ چسپاں کر لیا ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق انھوں نے حزب اختلاف کے اتحاد کے نام ’انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس‘(I.N.D.I.A) پر سخت تنقید کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ انگریزوں نے ملک کا نام انڈیا رکھا تھا، اور یہ کہ قوم کو ’نوآبادیاتی وراثت‘ سے آزاد کرانے کے لیے جدوجہد ہونی چاہیے۔
انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’ہماری تہذیبی کشمکش کا محور انڈیا اور بھارت کے گرد رہا ہے۔ انگریزوں نے ہمارے ملک کا نام انڈیا رکھا۔ ہمیں نوآبادیاتی وراثت سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے بھارت کے لیے جنگ لڑی تھی، اور ہم بھارت کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘
https://twitter.com/himantabiswa/status/1681297019422519297
Getty Images’جن کو انڈیا سے مسئلہ ہے وہ پاکستان چلے جائیں‘
سوشل میڈیا پر بھی ’انڈیا بمقابلہ بھارت‘ کی بحث زوروں پر ہے۔
ایک ٹی وی مباحثے میں کانگریس کی ترجمان سپریا شرینیت اور بی جے پی کے ترجمان اور رکن پارلیمان سودھانشو تریویدی آمنے سامنے نظر آئے۔
سپریا شرینیت نے کہا کہ جن لوگوں کو انڈیا سے مسئلہ ہے، انھیں دو سوالوں کا جواب دے کر پاکستان چلے جانا چاہیے۔ ’آپ نے اپنے سوشل میڈیا پر انڈیا کیوں لکھا؟ سٹارٹ اپ انڈیا، ڈیجیٹل انڈیا، سکل انڈیا، کھیلو انڈیا جیسے نعرے کیوں دیے گئے؟ کیا یہ انڈیا غلط ہے؟ ہم بھارت بھی شامل کر رہے ہیں، انڈیا بھی جیتے گا۔ آپ تو ملک کے خلاف ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ان کو انڈیا سے دقت ہے، اگر انھیں چڑ ہے تو پاکستان چلے جائیں۔ ویسے بھی منھ اٹھا کر بریانی اور سیویاں کھانے پاکستان جاتے ہیں۔‘
ان کا اشارہ وزیر اعظم مودی کے اچانک پاکستان چلے جانے کی جانب تھا۔
سدھانشو ترویدی نے اسی ٹی وی چینل کے مباحثے میں سپریا شرینیت سے کہا: ’برطانوی دور میں ہندی میں نام نہیں ہوا کرتا تھا۔ ہم انگریزی اور ہندی دونوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی ہیں۔ آج بھی انڈیا میں اسی سوچ کے لوگ موجود ہیں۔ وہ آج بھی انڈیا کے نام پر فخر کرتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
انڈیا: راہل گاندھی کو ’بھارت جوڑو یاترا‘ سے کیا حاصل ہوا؟
’پاکستان کا ذکر کر کے بھی مودی کو کرناٹک کے الیکشن میں شکست ہوئی‘
سدھانشو ترویدی نے جواب دیا: ’ہمارے اتحاد کا نام این ڈی اے ہے۔ ہندی میں اس کا نام قومی جمہوری اتحاد ہے۔ ہندی میں اپنے اتحاد انڈیا کا نام بتائیں۔ یا یہ ابھی بھی انگریزی ذہنیت ہے۔‘
اس مباحثے سے قبل کانگریس کے سینيئر رہنما اور ترجمان جے رام رمیش نے آئین ہند کا حوالہ دیتے ہوئے اور 26 پارٹیوں کے اجتماعی عہد کو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’انڈیا کے آئین کا آرٹیکل ایک۔ انڈیا یعنی بھارت ریاستوں کی ایک یونین ہوگا۔ انڈین نیشنل ڈیولپمنٹل انکلوسیو الائنس کے پس پشت یہی روح کار فرما ہے جس کا اعلان 26 سیاسی پارٹیوں نے بنگلور میں کیا۔‘
https://twitter.com/Jairam_Ramesh/status/1681293925255110656
Getty Imagesبی جے پی کے خلاف ایک مؤثر قدم؟
بہت سے لوگ حزب اختلاف کے اتحاد کا نام انڈیا رکھنے کو ایک خوش آئند قدم بتا رہے ہیں اور مبصر اسے کانگریس پارٹی کی جانب سے بی جے پی کے خلاف ایک مؤثر قدم کہہ رہے ہیں۔
معروف انگریزی اخبار ’دی ٹیلیگراف‘ میں سنجے کے جھا نے اسے ’نیشنلزم‘ کی جنگ میں حتمی قدم قرار دیا ہے۔
انھوں نے لکھا: ’انڈیا کے نام کا انتخاب قوم پرستی پر بی جے پی کی اجارہ داری کو چیلنج کرنے کا دانستہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ اس میں ’بھارت جوڑو یاترا‘ (کانگریس رہنما راہل گاندھی کا انڈیا کو جوڑنے کا ہزاروں کلومیٹر کا سفر) کا بنیادی پیغام بھی شامل ہے جو کہ برادریوں، ذاتوں اور مختلف ثقافتوں کے درمیان بھائی چارے کو مضبوط بنا کر انڈیا کے خیال کو بچانے کی کوششوں پر مبنی ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’یہ ستم ظریفی ہے کہ آر ایس ایس کی پیداوار بی جے پی نے قوم پرستی کے پلینک کو کانگریس سے چھین لیا جب کہ کانگریس ہندوستان کی تحریک آزادی سے پیدا ہوئی تھی اور اس تحریک میں آر ایس ایس کا کوئی کردار نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بی جے پی اپنی سیاست پر ’نیشن فرسٹ‘ کا ٹیگ لگانے میں کامیاب رہی ہے جبکہ اس کی ’ہندو قوم پرستی‘ آئینی اصولوں کے قریب نہیں ہے۔
’بی جے پی نے اپنی اکثریتی پالیسیوں سے نہ صرف ایک بڑی ہندو آبادی کو اپنی طرف متوجہ کیا بلکہ سیکولر جماعتوں کو بھی قوم پرستی کے فریم ورک سے باہر کر دیا۔‘
انھوں نے مزید لکھا ہے کہ راہل گاندھی نے بھارت جوڑو یاترا کے ذریعے اس امتیازی اکثریت پسندی اور پرتشدد قوم پرستی کا جواب دینے کی کوشش کی ہے اور اب اسی احساس کے ساتھ مودی مخالف اتحاد کو انڈیا کا نام دیا گیا ہے۔
بہرحال ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نام کو قانونی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اپوزیشن اتحاد کے اس علامتی نام سے بی جے پی زیادہ آرام دہ نہیں ہوگی۔
اس ’انڈیا بنام بھارت‘ کے مقابلے کے متعلق سینیئر سیاسی مبصر رادھیکا راماسیشن نے صحافی عمران قریشی سے کہا: ’ماضی میں کسی بھی وقت لوک سبھا انتخابات سے پہلے کوئی نام سامنے نہیں آیا تھا۔ راہل گاندھی نے بڑی چالاکی سے انڈیا اور بھارت کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا ہے اور انڈیا اور بھارت کے درمیان اس اختلاف کو دور کیا ہے جس پر آر ایس ایس/بی جے پی نے ہمیشہ مہم چلاتے رہے ہیں۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی بحث کے مرکز میں ہیں۔‘
انڈیا بمقابلہ بھارت کی پرانی بحث
انڈیا یعنی بھارت یا ہندوستان کو ماضی میں مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے۔ ان میں آریہ ورت، جمبو دیپ، نبھی ورش وغیرہ شامل ہیں۔
بھارت نام معروف رزمیہ مہا بھارت اور وشنو پران سے آتا ہے۔ جبکہ انڈیا نام انڈس ریور یعنی دریائے سندھ سے آتا ہے اور یہی حال ہندوستان نام کا ہے۔
برطانیہ کے راج کے دوران انڈیا معروف ہوا اور بہت سے سکالر اسے انگریزوں کے ہندوستان پر غلبے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
تاہم انڈیا کا جب آئین تیار ہوا تو اس میں اسے ’انڈیا یعنی بھارت‘ کی وضاحت کے ساتھ معنون کیا گیا۔
سنہ 2020 میں دہلی کے ایک تاجر نامہ یادو نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرتے ہوئے گزارش کی کہ انڈیا کو ہٹا کر صرف بھارت رہنے دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے اسے خارج کر دیا۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا نام اس ملک کے لیے غلامی کی علامت ہے اور اسے ہٹا دیا جانا چاہیے جیسا کہ سری لنکا والوں نے اپنے نوآبادیاتی نام سیلون کو بدل دیا اور برما نے اپنا نام بدل کر میانمار کر دیا، گولڈ کوسٹ کا نام بدل کر گھانا رکھ دیا گیا۔
سابق وزیر قانون ویرپّا موئلی نے کہا کہ نام کی تبدیلی محض انتشار کا باعث ہو گی۔
بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا دنیا میں واحد ملک ہے جس کے دو نام ہیں۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ انڈیا کی جگہ ہندوستان کر دینا چاہیے لیکن اس کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے یہ کنفیوژن پیدا ہوگا کہ یہ ہندوؤں کا ملک ہے اور ایک مذہب کو اس کا فائدہ ہوگا جو کہ اس کے سیکولر روح کے منافی ہوگا۔
بہر حال اس مباحثے کی ایک اور جہت بھی ہے۔ جس میں انڈیا کو امیر ترقی پسند اور شہری آبادی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے جبکہ بھارت کو دیہی غریب اور پسماندہ کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر بحث
ترنمول کانگریس کی رہنما اور رکن پارلیمان مہوا موئترا نے لکھا: ’معذرت بی جے پی- ’بھارت‘ کو مناسب بنا کر اسے بھارت بمقابلہ انڈیا لڑائی بنانا کتاب کی سب سے چھوٹی چال ہے۔
’یہ آپ کو کہیں نہیں لے جائے گی۔ بی جے پی کی بھارت توڑو یاترا کے رکنے کا وقت آگیا ہے۔‘
https://twitter.com/MahuaMoitra/status/1681313057216294912
بہت سے صارفین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اپنے ہینڈل ’بی جے پی 4 انڈیا‘ سے انڈیا کیسے ہٹائے گی جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اب بی جے پی کے دانشوران ’انڈیا‘ کے جواب میں کوئی نیا مخفف تلاش کرنے کی کوششوں میں لگے ہوں گے۔
بہر حال گذشتہ روز وزیر اعظم نریندر مودی نے 38 پارٹیوں کے اجلاس میں این ڈی اے کی نئی تشریح پیش کی ہے اور سوشل میڈیا پر اس کے تعلق سے بھی گرما گرم بحث جاری ہے۔