Getty Images
انڈیا میں ایمرجنسی کے بعد سنہ 1977 میں ہونے والے انتخابات میں جب اٹل بہاری واجپائی کے دوست اپّا گھٹاٹے نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ مرارجی دیسائی کے نام پر لوگوں سے ووٹ مانگیں گے؟
تو واجپائی نے ایک سیکنڈ کی تاخیر کے بغیر جواب دیا: ’کیوں، میں اپنے نام پر ووٹ لوں گا۔‘
وہ اس بات سے پوری طرح واقف تھے کہ جنتا پارٹی میں جے پی یعنی جے پرکاش ناراين کے بعد سب سے زیادہ لوگ انھیں سننے آتے ہیں۔
سات فروری سنہ 1977 کو دہلی کے رام لیلا میدان میں اپوزیشن لیڈروں کی سفید مرسیڈیز گاڑیاں آہستہ آہستہ آ کر رکیں۔ ان میں زیادہ تر عمر رسیدہ افراد تھے جو آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر سٹیج پر پہنچے۔
ایک ایک کر کے ہر لیڈر نے وہاں موجود لوگوں کو جیل میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے بارے میں بتایا۔ تمام لیڈروں کی ایک جیسی تقریروں کے باوجود لوگ وہاں جمع رہے۔
تقریبا ساڑھے نو بجے اٹل بہاری واجپئی کی باری آئی۔
انھیں دیکھ کر سارا مجمع اٹھ کھڑا ہوا اور تالیاں بجانے لگا۔ واجپئی نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور انھیں خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔
اس کے بعد انھوں نے اپنی آنکھیں موند لیں اور بے خیالی میں ایک مصرعے کا آدھا حصہ پڑھا کہ ’بڑی مدت کے بعد ملے ہیں دیوانے۔ اس کے بعد انھوں نے اپنا جانا پہچانا وقفہ لیا، ہجوم میں بے چینی پیدا ہو گئی۔
پھر انھوں ہجوم کو پرسکون ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے مصرع مکمل کیا، ’کہنے سننے کو بہت ہیں افسانے۔‘ اس بار تالیاں زور سے بجیں۔
اس کے بعد انھوں نے پھر آنکھیں بند کیں اور شعر مکمل کیا: ’کھلی ہوا میں زرا سانس تو لیں، کب تک رہے گی آزادی، کون جانے۔‘
ان کا یہ شعر پڑھتے ہی ہجوم بپھر چکا تھا۔ اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی وہاں سے آٹھ کلومیٹر دور اپنی 1 صفدر جنگ روڈ والی رہائش گاہ پر بیٹھی تھیں لیکن انھیں اندازہ بھی نہیں تھا کہ واجپئی نے ان کی شکست کی بنیاد رکھ دی ہے۔
Getty Imagesبینکوں کو قومی تحویل میں لینے کا مسئلہ
سنہ 1966 میں جب اندرا گاندھی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو رام منوہر لوہیا نے انھیں ’گونگی گڑیا‘ کہہ کر ان کا مذاق اڑایا تھا۔
تاہم ایک سال کے اندر ہی اندرا گاندھی نے اس شبیہ سے اپنی جان چھڑائی اور انھی کے انداز میں اپوزیشن کے حملوں کا جواب دینے لگیں۔
اندرا گاندھی کی اقتصادی پالیسیوں نے جن سنگھ کیمپ میں اختلافات پیدا کر دیے۔
بھارتیہ مزدور سنگھ کے بانی اور جن سنگھ کے راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ دتّوپنت تھینگڑی نے بینکوں کو قومیانے کے حق میں ایک تجاویز پیش کیں۔
پارٹی کے سینیئر لیڈر بلراج مدھوک نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی پارٹی کے 1967 کے انتخابی منشور میں بینکوں کو قومیانے کی مخالفت کی گئی تھی۔
مدھوک اپنی سوانح عمری ’زندگی کا سفر‘ حصہ سوم میں لکھتے ہیں: ’دوپہر کے کھانے کے دوران، واجپئی مجھے بتانے آئے کہ بینکوں کے بارے میں تھینگڈی کی تجویز کو آر ایس ایس کا آشیرباد حاصل تھا۔‘
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’واجپئی دی ایسنٹ آف دی ہندو رائٹ 1924-1977‘ کے مصنف ابھیشیک چودھری لکھتے ہیں: ’واجپئی نے سب سے پہلے پارلیمنٹ میں بینک نیشنلائزیشن کو عوام مخالف قرار دیتے ہوئے تنقید کی لیکن جلد ہی انھیں یہ اس کے مقبول عام ہونے‘ کا اندازہ وہ گیا تھا۔
’شمالی انڈیا میں جن سنگھ کے حامی کاروباری طبقے نے بھی محسوس کیا کہ انھیں بھی بینکوں کی قرض دینے کی پالیسیوں میں تبدیلی سے فائدہ ہو گا۔‘
جن سنگھ کے اخبار آرگنائزر نے اپنے 23 اگست 1969 کے شمارے میں لکھا: ’واجپائی کا خیال تھا کہ اندرا گاندھی کا بینک قومیانے کا فیصلہ مکمل طور پر سیاسی تھا اور بالکل بھی اقتصادی نہیں تھا۔
’وہ ایک طرح سے اقتدار میں رہنے کا ان کا ہتھیار تھا۔ واجپئی نے ہوا کے خلاف جانا عقلمندی نہیں سمجھا۔‘
پریوی پرس کے معاملے پر اندرا گاندھی سے تصادم
اٹل بہاری واجپئی اور اندرا گاندھی کے درمیان پہلا کھلا تصادم سابق بادشاہوں کو دیے جانے والے پریوی پرس (سرکاری الاؤنس) کے معاملے پر ہوا۔
یکم ستمبر سنہ 1969 کو لوک سبھا نے دو تہائی اکثریت سے بادشاہوں کو پریوی پرس نہ دینے کا بل منظور کیا۔
تاہم تین دن بعد یہ بل راجیہ سبھا میں صرف ایک ووٹ سے ناکام ہو گيا۔ اس پر اندرا گاندھی خاموش نہیں بیٹھیں۔
انھوں نے پانچ ستمبر کو ایک آرڈیننس جاری کرکے بادشاہوں کے پریوی پرس کو ختم کردیا۔
اٹل بہاری واجپائی نے اسے پارلیمنٹ اور آئین کی توہین قرار دیا۔
میں نے ابھیشیک چودھری سے پوچھا کہ یہ جاننے کے باوجود کہ اندرا گاندھی کو پریوی پرس کے معاملے پر عوامی حمایت حاصل ہے، واجپئی نے ان کی مخالفت کیوں کی؟
چودھری نے جواب دیا: 'جن سنگھ راج ماتا سندھیا اور دوسرے بادشاہوں کی وجہ سے پریوی پرس کو ختم کرنے کی مخالفت کر رہا تھا۔'
چودھری بتاتے ہیں کہ اس فیصلے کا اثر مدھیہ پردیش کی سیاست پر پڑے گا، جہاں گوالیار عدالت کے سیاسی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
پریوی پرس سے متعلق صدر کے آرڈیننس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے 15 دسمبر کو اپنے فیصلے میں آرڈیننس کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دیا۔ اٹل بہاری واجپائی نے اسے حکومت کے منہ پر طمانچہ قرار دیا۔
اندرا گاندھی پر الفاظ کے تیر
سنہ 1971 کی انتخابی مہم میں واجپئی نے اندرا گاندھی پر سخت حملہ کرتے ہوئے کہا: ’وزیراعظم ان تمام چیزوں کی دشمن ہیں جو انڈین جمہوریت میں مقدس ہیں۔‘
’جب ان کی پارٹی نے صدر کے عہدے کے لیے ان کے امیدوار کو قبول نہیں کیا تو انھوں نے خود ہی پارٹی چھوڑ دی۔ جب پریوی پرس کو ختم کرنے کا بل پارلیمنٹ سے منظور نہیں ہوا تو انھوں نے آرڈیننس کا سہارا لیا۔
'جب سپریم کورٹ نے آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیا تو انھوں نے لوک سبھا کو تحلیل کر دیا۔ اگر 'لیڈی ڈکٹیٹر' کا بس چلے تو وہ شاید سپریم کورٹ کو بھی تحلیل کر دیتیں۔'
واجپئی نے یہ بھی شکایت کی کہ وزیر اعظم انتخابی مہم کے لیے فضائيہ کے طیارے کا استعمال کر رہی ہیں، جب کہ واجپئی کو انڈین ایئر لائنز کے ایک معمولی طیارے میں سیٹ بک کروانے میں بھی مشکل پیش آ رہی تھی۔
انتخابی مہم کے دوران ہی جب واجپئی دہلی کے بوٹ کلب میں سرکاری ملازمین سے خطاب کر رہے تھے تو ایک پیلے رنگ کے دو سیٹوں والے طیارے نے اوپر سے انتخابی پمفلٹ گرانا شروع کر دیا۔
ابھیشیک چودھری لکھتے ہیں: ’یہ وزیر اعظم کے بڑے بیٹے راجیو گاندھی کا منصوبہ تھا۔ پہلے تو واجپئی نے اس پر طنز کیا اور کہا: ’ان پرچوں کو ہوا میں اڑنے دو۔ میں آپ کے ووٹ لینے آیا ہوں۔‘
لیکن جب جہاز نے وہاں سے ہٹنے کا نام نہیں لیا اور وہاں کل 23 چکر لگائے تو واجپئی نے اسے جمہوریت کی توہین قرار دیا۔
پمفلٹ برسانے والے جہاز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کیا یہ جمہوریت ہے؟
Getty Images1971 کی جنگ میں اندرا گاندھی کی حمایت
سنہ 1971 کے انتخابی نتائج کے بارے میں واجپائی کا اندازہ بالکل غلط نکلا۔
انھیں باعزت شکست کی امید تھی لیکن یہ جان کر حیران رہ گئے کہ مہاگٹھ بندھن کو صرف 49 سیٹیں ملیں اور جن سنگھ کی تعداد 35 سے گھٹ کر صرف 22 رہ گئی، ان میں سے زیادہ تر کا تعلق مدھیہ پردیش اور راجستھان کے ان علاقوں سے تھا جہاں سابق بادشاہوں کی اب بھی پوچھ تھی۔
باقی ہندی بولنے والے علاقوں میں پارٹی کو صرف سات سیٹوں پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔
نومبر 1971 میں اندرا گاندھی نے فیصلہ کیا کہ انڈیا 4 دسمبر کو پاکستان پر حملہ کرے گا، لیکن پاکستان نے ایک دن پہلے ہی انڈین فضائی اڈوں پر حملے شروع کر دیے۔
اگلے دو ہفتوں تک واجپئی نے اپنا وقت پارلیمانی کارروائیوں میں شرکت کرنے اور دہلی میں عوامی جلسوں سے خطاب میں گزارا۔
یہ بھی پڑھیے
جب انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی کو جنرل ضیا الحق پر غصہ آیا
انڈیا کے ایٹمی پروگرام کے بانی کی موت ایٹمی پروگرام کو روکنے کی سازش تھی یا محض حادثہ؟
اسی دوران ان کی طرف سے ایک دلچسپ بیان بھی آیا کہ 'اندرا جی اب جن سنگھ کی پالیسیوں پر چل رہی ہیں۔'
تاہم ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ جنگی مہم میں ان کی جماعت کو حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ جب سوویت یونین نے سلامتی کونسل میں امریکی جنگ بندی کی تجویز کو ویٹو کیا تو واجپئی نے سوویت یونین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے یوٹرن لیا اور کہا کہ 'جو بھی ملک ہمارے بحران کے وقت ہمارے ساتھ کھڑا ہے وہ ہمارا دوست ہے۔ ہم اپنی نظریاتی جنگ بعد میں لڑ سکتے ہیں۔'
واجپئی نے اندرا کی حمایت کرتے ہوئے کہا: 'مجھے خوشی ہے کہ اندرا گاندھی یحییٰ خان کو سبق سکھا رہی ہیں۔ ہمارے پاس ایک تھیوکریٹک ریاست کو تباہ کرنے یا اسے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے کرنے کا تاریخی موقع ہے۔'
Getty Imagesاندرا گاندھیاندرا کو کبھی درگا کا اوتار نہیں کہا
عام خیال یہ ہے کہ جس دن پاکستانی فوجیوں نے ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالے، واجپئی نے اندرا گاندھی کو ہندو دیوی 'درگا' کا اوتار کہا۔
ابھیشیک چودھری اس خیال کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: 'حقیقت یہ ہے کہ 16 دسمبر کو واجپئی پارلیمنٹ میں موجود نہیں تھے۔ وہ یا تو کہیں سفر کر رہے تھے یا بیمار تھے۔ جب اندرا گاندھی نے جنگ بندی پر بات کرنے کے لیے اپوزیشن کی میٹنگ بلائی تو وہ اس میں موجود نہیں تھے۔
'اگلے دن، جب اندرا گاندھی نے جنگ بندی کی حمایت کرنے کے لیے تمام فریقوں کا شکریہ ادا کیا، واجپئی نے کھڑے ہو کر کہا، 'ہم جنگ بندی نہیں چاہتے، ہم اپنے خلاف ہمیشہ کے لیے دشمنی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مغربی سیکٹر میں جنگ جاری رکھی جائے۔'
اس وقت کے لوک سبھا سپیکر گردیال سنگھ ڈھلون نے اس پر بحث کی اجازت نہیں دی اور واجپئی کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ اس مبارک موقع پر انھیں اس طرح کی بے حسی سے بات نہیں کرنی چاہیے۔
دو دن بعد جب اندرا گاندھی کو مبارکباد دینے کے لیے پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں دونوں ایوانوں کی مشترکہ میٹنگ ہوئی تو واجپئی نے جان بوجھ کر اس میں شرکت نہیں کی۔
اندرا کے لیے گرمجوشی تلخی میں بدل گئی
کچھ دنوں بعد واجپئی فتح کی ریلی سے خطاب کرنے بمبئی گئے۔
وہیں انھوں نے ایک جلسہ عام میں کہا: 'ملک نے ایسی فتح کئی صدیوں میں حاصل نہیں کی۔ اس جیت کی اصل ذمہ داری انڈین فوجی قوتیں ہیں۔'
انھوں نے اندرا گاندھی کی بھی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دو ہفتے کی لڑائی کے دوران ٹھنڈے دماغ سے کام کیا اور ملک کو ایک پراعتماد قیادت فراہم کی۔
لیکن تین ماہ بعد جب ریاستی اسمبلی کے انتخابات آئے تو اندرا گاندھی سے ان کی دوستی تقریباً ختم ہو چکی تھی۔
ان کی شکایت یہ تھی کہ 1967 سے 1972 کے درمیان اندرا گاندھی نے جن سنگھ کی جانب سے دہلی میں صاف ستھرا انتظامیہ دینے کے معاملے میں جن سنگھ کے لیے کبھی اچھا الفاظ نہیں کہے۔
واجپئی نے کہا کہ وہ ہر جگہ یہ کہتی رہیں کہ جن سنگھ نے سڑکوں اور کالونیوں کے نام بدلنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔
4 مارچ 1972 کے اپنے شمارے میں آرگنائزر نے واجپئی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: 'اندرا گاندھی نے پاکستان کے ساتھ جنگ شروع کرنے میں تاخیر کی اور جنگ بندی کو قبل از وقت ختم کر دیا۔'
'انھوں نے سوویت کے دباؤ میں جنگ بندی کی اور وہ بھی آرمی چیف سے مشورے کے بغیر۔ اگر پاکستان کے ساتھ جنگ مزید کچھ دن جاری رہتی تو پاکستانی فوج کی کمر ٹوٹ جاتی۔'
Getty Imagesاندرا گاندھی کا واجپئی کو جواب
واجپئی کو جولائی 1972 میں پاکستان کے ساتھ شملہ معاہدہ پسند نہیں آیا۔
ان کی شکایت یہ تھی کہ انڈیا نے پاکستان سے پنجاب اور سندھ میں حاصل کی گئی زمین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو لیے بغیر واپس کردی۔
اس دوران انھوں نے راجستھان کی سرحد پر پاکستان سے جیتا ہوا شہر گدرا جانے کا فیصلہ کیا۔
ابھیشیک چودھری لکھتے ہیں: 'وہ 64 ستیہ گرہیوں کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ یہ سب نعرے لگا رہے تھے، 'دیش نہ ہارا، فوج نہ ہاری، ہاری ہے سرکار ہماری'۔
چلچلاتی دھوپ اور گرم ہوا کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ چار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد گدرا شہر میں داخل ہوئے۔
جیتنے والے علاقے کے 180 میٹر کے اندر آنے پر واجپئی کو ان کے تمام ساتھیوں سمیت گرفتار کر کے ٹرکوں پر بٹھا کر ہندوستانی علاقے میں لایا گیا۔
واپسی پر واجپئی نے بوٹ کلب میں مجمعے سے خطاب کیا اور اندرا گاندھی سے پوچھا، 'کیا شملہ میں تعطل گذشتہ روز کریملن کے پیغام کے بعد ٹوٹ گیا؟'
ابھی تک اندرا گاندھی واجپئی کے الزامات کو نظر انداز کرتی رہی تھیں۔
لیکن اس بار انھوں نے واجپائی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’صرف احساس کمتری کا شکار شخص ہی ایسے الزامات لگا سکتا ہے، کیا ہمیں اپنے کروڑوں لوگوں کی آواز سننی چاہیے یا ان چند لوگوں کی جو ہر وقت کلیجہ پیٹتے رہتے ہیں؟
’واجپئی نے پورا سال میرا مذاق اڑاتے ہوئے گزارا۔ کیا واجپائی اس بات سے انکار کریں گے کہ بنگلہ دیش آج ایک حقیقت ہے؟'
Getty Imagesماروتی اور چیف جسٹس کی تقرری
دو سال کے اندر اندر واجپائی کو اندرا گاندھی پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔
جب ان کے بیٹے سنجے گاندھی نے ماروتی کار کی فیکٹری لگائی تو واجپئی نے ان پر طنز کیا کہ ’یہ کمپنی ماروتی لمیٹڈ نہیں ہے، بدعنوانی ان لمیٹڈ ہے۔'
واجپئی کو اندرا پر حملہ کرنے کا ایک اور موقع اس وقت ملا جب اندرا حکومت نے سپریم کورٹ کے تین سینیئر ججوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اے این رائے کو چیف جسٹس آف انڈیا مقرر کیا۔
واجپئی نے طنزیہ انداز میں کہا: ’کل یہ کہا جا سکتا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور یونین پبلک سروس کمیشن کے سربراہ کا سماجی فلسفہ بھی حکومت کے مطابق ہونا چاہیے۔ کیا یہ اصول مسلح افواج پر بھی لاگو ہوگا؟
’قانون جی حضوری کرنے والے لوگوں کی مدد سے نہیں بنایا جائے گا، اس کے لیے آزاد عدلیہ کا ہونا ضروری ہے۔'
جب انڈیا نے 1974 میں اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو واجپئی نے ایٹمی سائنسدانوں کی تعریف کی لیکن اس کا کریڈٹ وزیراعظم کو نہیں دیا۔
Getty Imagesچودھری چرن سنگھجگجیون رام کو وزیر اعظم بنانا چاہتے تھے
1977 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں جنتا پارٹی کی جیت میں بھارتیہ جن سنگھ نے سب سے زیادہ 90 سیٹیں حاصل کیں۔ بھارتیہ لوک دل کو 55 اور سوشلسٹ پارٹی کو 51 سیٹیں ملیں۔
سب سے بڑی پارٹی ہونے کی وجہ سے واجپئی وزیر اعظم کے عہدے کا دعویٰ پیش کر سکتے تھے۔
ابھیشیک چودھری کہتے ہیں: 'اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت واجپئی کی عمر صرف 52 سال تھی۔ ان کے پاس اس وقت تک مرارجی دیسائی، جگجیون رام اور چرن سنگھ کے مقابلے میں انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔
'اگر واجپئی بھی قیادت کی دوڑ میں کود پڑتے تو نئی بننے والی جنتا پارٹی کے لیے مزید پریشانی کھڑی ہو جاتی۔ حکمت عملی کا تقاضا تھا کہ واجپئی اس بار پیچھے رہیں اور اپنی باری کا انتظار کریں۔'
واجپئی نے شروع میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے جگجیون رام کی حمایت کی تھی۔ پارلیمنٹ میں مخالف ہونے کے باوجود وہ جگجیون رام کے ساتھ اچھی طرح ملتے تھے۔
مرارجی دیسائی ضدی تھے اور ان میں لچک کی کمی تھی۔ جگجیون رام کی حمایت کرنے سے سنگھ پریوار کی شبیہ دلتوں میں بہتر ہونے والی تھی۔ لیکن چرن سنگھ نے سب کچھ برباد کر دیا۔
اپنے ہسپتال کے بستر سے لکھے گئے خط میں انھوں نے جگجیون رام کی امیدواری کو اس دلیل کے ساتھ مسترد کر دیا کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں ایمرجنسی کی تجویز دی تھی۔
واجپئی کے پاس مورار جی ڈیسائی کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔
Getty Imagesجنتا پارٹی کی حکومت میں وزیر خارجہ بنے
جب چرن سنگھ تھے تو واجپئی کو جنتا حکومت میں وزارت داخلہ ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مرارجی دیسائی نے ان سے کہا کہ وہ دفاع یا خارجہ امور میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔
واجپائی کو وزارت خارجہ کا انتخاب کرنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگا۔
انتخابات کے بعد رام لیلا میدان میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے اٹل بہاری واجپئی نے اندرا گاندھی کو نشانہ بنایا اور مشہور جملہ کہا: 'جو لوگ خود کو انڈیا کا مترادف کہتے تھے، انھیں تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔'
یہ الگ بات ہے کہ اندرا گاندھی نے واجپئی کو غلط ثابت کیا اور تین سال بعد ایک بار پھر اقتدار میں آگئیں۔
بہر حال واجپئی کی باری بھی آئی اور انھوں نے 1996 میں اور پھر 1998 اور 1999 میں ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف لیا۔ ان کی حکومت پہلی غیر کانگریسی حکومت تھی جس نے اپنی مدت پوری کی۔