آٹھ سالہ شہاب مبین بول سکتے ہیں اور نہ ہی کچھ سن سکتے ہیں۔ ان کی قوتِ گویائی اور قوتِ سماعت تو شاید اب واپس نہیں آ سکتی لیکن اشاروں کی زبان میں بتاتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر بنیں گے۔
کچھ عرصہ قبل تک یہ خواہش ایک خواب جیسی تھی کیوں کہ پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ کے رہائشی شہاب مبین کے پاس تعلیم حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ ان کے بڑے بھائی تو سکول جاتے لیکن وہ سارا دن گھر پر ہی گزار دیتے۔
شہاب مبین کے چچا اشرف علی بتاتے ہیں کہ ان کے بھائی کراچی میں مزدوری کرتے ہیں اور ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی باقی بچوں کی طرح تعلیم حاصل کرے۔
یہ سب اس وقت بدل گیا جب اگست 2022 میں خیبرپختونخوا حکومت کے محکمہ سماجی بہبود برائے ضم اضلاع نے خصوصی بچوں کی تعلیم کے لیے پانچ ادارے قائم کیے جن میں سے ایک ضلع باجوڑ کے صدر مقام خار میں ہے۔
اب شہاب روزانہ 24 کلومیٹر دور خصوصی بچوں کے سکول میں پڑھنے جاتے ہیں۔
ان کے چچا اشرف علی کہتے ہیں کہ ان کے بھائی اور شہاب کے والد روزانہ بیٹے کی تعلیم کے لیے تین سو سے چار سو روپے کا خرچہ کرتے ہیں۔
’ایک غریب بندے کے لیے بہت مشکل ہے لیکن یہ سب اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ یہ بچہ بھی باقی نارمل بچوں کی طرح اعلی تعلیم حاصل کر سکے۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’خاندان اس بچے کے مستقبل کیلئے پریشان تھا لیکن پڑھائی کا عمل شروع ہونے کے بعد اب وہ اپنا اور اپنے والد کا نام، موبائل نمبر اور گھر کا پتہ لکھ اور پڑھ سکتے ہیں۔‘
سکول سے واپسی پر وہ اپنے چچا کے ساتھ بیٹھ کر سبق یاد کرتے ہیں۔ اشرف علی کہتے ہیں کہ شہاب نے شرارتیں بھی کم کر دی ہیں۔
جب ہم نے شہاب مبین کے چچا کی وساطت سے سوال کیا کہ وہ پڑھائی کے بارے میں کیا کہتے ہیں تو اشاروں کی مدد سے اُنھوں نے بتایا کہ وہ کچھ سن نہیں سکتے اور نہ کچھ بول سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ پڑھ کر ڈاکٹر بنیں گے۔
ضلع باجوڑ کے علاقے سلارزئی کے فضل سبحان بھی ہر صبح اپنے دو بچوں کو موٹر سائیکل پر 12 کلومیٹر دور موجود سکول لے کر جاتے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈرائیور ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اتنی مشقت اس اُمید سے کر رہے ہیں کہ اُن کے بچے بھی پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں۔‘
اُنھوں نے بتایا کہ پہلے وہ بہت پریشان تھے کہ ’ان بچوں کا مستقبل کیا ہو گا لیکن جب سے پڑھائی کاعمل شروع ہوا ہے تو ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ یہ آگے جا کر کچھ کر سکتے ہیں۔‘
ہارون زیب باجوڑ میں قائم خصوصی بچوں کے اس سکول میں اُستاد ہیں جہاں پہلی سے پانچویں جماعت تک کے بچوں کو پڑھایا جاتا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ ’تمام مضامین اشاروں کی مدد سے پڑھائے جاتے ہیں۔ نئے بچوں کو ابتدائی دنوں میں سمجھنے میں مسئلہ ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ وہ سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ عام بچوں کی نسبت ان میں سیکھنے کی صلاحیت بہت تیز ہوتی ہے۔‘
سکول کے انچارچ اسد علی کے مطابق اس وقت قوت گویائی اور سماعت سے محروم 25 بچے زیر تعلیم ہیں۔
تاہم اُنھوں نے بتایا کہ علاقے میں تین ہزار تک ایسے خصوصی بچے ہیں جن کے والدین انھیں سکول میں میں داخل تو کرانا چاہتے ہیں لیکن مفت ٹرانسپورٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں بچے پڑھنے سے محروم ہیں۔
سید محمد باجوڑ میں قائم اس سکول کے کافی چکر لگا چکے ہیں۔ انھیں امید ہے کہ اُن کے بچے سمیت دیگر نابینا بچوں کے لیے بھی تعلیم کی سہولت کا آغاز ہو گا۔
انھوں نے اپنے آٹھ سالہ بچے کو پہلے گھر کے قریب سرکاری سکول میں داخل کروایا لیکن جلد ہی اساتذہ نے اُن کو بتایا کہ اس بچے کو پڑھانے کے لیے اُن کے پاس کوئی سہولت موجود نہیں لہذا اسے مزید سکول نہ بھیجاجائے۔
واضح رہے کہ باجوڑ میں قائم اس سکول میں صرف گویائی اور سماعت سے محروم بچوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔
اسد علی نے بتایا کہ جلد گویائی اور سماعت سے محروم بچوں کے ساتھ معذوری کے شکار بچوں کے لیے بھی تعلیمی سلسلہ شروع کیا جائیگا تاہم اُن کے بقول ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔
حضرت ولی شاہ پچھلے 15 سال سے علاقے میں خصوصی افراد کے مسائل کے حل کے لیے کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہر قبائلی ضلع میں خصوصی افراد کے تعلیم و تربیت کے لیے ایجوکیشن کمپلیکس کی تعمیر کے مطالبے پر حکومت کے طرف سے کئی بار وعدہ کیا گیا جس کے بعد دو سال پہلے باجوڑ میں صرف گونگے اور بہرے بچوں کے لیے کرائے کی عمارت میں تجرباتی بنیاد پر ایک سکول قائم کیا گیا جہاں پر بہت کم تعداد میں بچے زیر تعلیم ہیں۔
اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ اُن کی تنظیم کے ساتھ آٹھ ہزار خصوصی افراد رجسٹرڈ ہیں جن میں تقریبا ایک ہزار بچے شامل ہیں جو تعلیم سے محروم ہیں۔
اُنھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ عارضی بنیادوں پر شروع کیا گیا یہ منصوبہ کچھ عرصہ بعد ختم نہ کر دیا جائے۔
محکمہ سماجی بہبود کےڈپٹی ڈائریکٹر برائے ضم اضلاع عبید الرحمن نے بتایا کہ اگست 2022 سے باجوڑ، مہمند، خیبر، کرم اور جنوبی وزیرستان میں خصوصی بچوں کی تعلیم کے لیے سکول قائم ہیں جن میں مجموعی طور پر 120 بچے زیر تعلیم ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے اعتراف کیا کہ زیر تعلیم بچوں کی کم تعداد کی اصل وجہ ٹرانسپورٹ کی مفت سہولت نہ ہونا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’اس پر کام کیا جا رہا ہے اور فنڈز جاری ہونے پر نہ صرف یہ سہولت بچوں کو فراہم کی جائیگی بلکہ باقی اضلاع میں بھی سکول قائم کیا جائیگا۔‘
اُنہوں نے کہا کہ ’پچھلے کئی سال سے مذکورہ اضلاع میں ان بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے چار مقامات پر ایجوکیشن کمپلیکس کی تعمیر کے منصوبے زیر غور ہیں جن پر سرکاری زمین کی عدم دستیابی اور بجٹ میں فنڈ مختص نہ ہونے کی وجہ سے عملی کام شروع نہیں ہو سکا۔‘
خصوصی افراد کے تعلیم کتنی ضروری
حضرت والی شاہایک سرکاری سکول میں اُستاد ہیں۔ وہ اپنی مخصوص قسم کی موٹرسائیکل پر ڈیوٹی کے لیے جاتے ہیں۔
ان کے مطابق انھوں نے انتہائی مشکل سے اپنے گھر سے کئی کلومیٹر دور ایک سرکاری سکول میں پڑھائی مکمل کی اور اعلی ثانوی تک پڑھنے کے بعد خصوصی افراد کی مخصوص نشست پر سکول میں اُستاد بھرتی ہو گئے۔
اُنھوں نے کہا کہ ’ایک طرف خصوصی بچوں کے لیے تعلیمی ادارے موجود نہیں جبکہ دوسری طرف عام سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں خصوصی بچوں کی تعلیم کے حصول کے لیے کوئی مناسب انتظام موجود نہیں۔‘
اُنہوں نے بتایا کہ محکمہ تعلیم تمام سرکای سکولوں اور کالجز میں خصوصی بچوں کے لیے مفت تعلیم کے حصول کا نوٹیفیکیشن جاری کر چکا ہے تاہم نجی تعلیمی ادارے اس سلسلے میں کوئی تعاون نہیں کر رہے۔
اُن کے بقول اُن کی ذاتی زندگی تعلیم کی وجہ سے بدل گئی اور اب وہ علاقے کے سینکڑوں خصوصی افراد کو مدد اور رہنمائی فراہم کر رہے ہیں۔
ضم اضلاع میں خصوصی افراد کے تعداد اتنی زیادہ کیوں
محکمہ سماجی بہبود کے پاس خیبرپختونخوا کے ضم اضلاع، جنھیں پہلے قبائلی علاقہ یا فاٹا کہا جاتا تھا، میں 24 ہزار سے زائد خصوصی افراد رجسٹرڈ ہیں۔
اس مجموعی تعداد میں تین ہزار بچے ہیں۔ ادارے کے مطابق مذکورہ اضلاع میں خصوصی بچوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ دو دہائیوں سے جاری بدامنی کی لہر ہے۔
حضرت ولی شاہ نے بتایا کہ محکمہ سماجی بہبود نے 2012 تک اپنی مدد آپ کے تحت آٹھ ہزار افراد رجسٹر کیے جن میں تین ہزار ایسے لوگ ہیں جو بد امنی کی لہر کے دوران بم دھماکوں، بارودی سرنگوں اور بمباری کے ساتھ ساتھ پولیو سے بھی متاثر ہو چکے ہیں۔
تاہم ان کے بقول خواتین کی رجسٹریشن ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور اسی وجہ سے اُن تک حکومتی یا امدادی اداروں کے جانب سے دی جانے والی مدد بھی نہیں پہنچ پا رہی۔