Getty Images
مشہور و معروف امریکی طبیعیات دان نکولا ٹیسلا طوفانی بادلوں میں ہونے والے عمل کو استعمال کرتے ہوئے مرطوب ہوا سے بجلی حاصل بنانا چاہتے تھے۔ ان کا یہ خواب ان کی موت کے کئی دہائیوں کے بعد بالآخرپایہِ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔
لیبارٹری میں موجود کوئی بھی اس بات پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ایک تجرباتی آلے، ہوا میں نمی کو جانچنے کے آلے، ایک ’ہیومِڈ سینسر‘، نے ہلکے ہلکے درجے کے الکٹریکل سگنلز پیدا کرنا شروع کر دیے تھے۔ آپ کا یہ شک کرنا کہ ایسا کیسے ممکن ہو سکتا ہے اپنی جگہ جائز ہوگا۔
یونیورسٹی آف میساچوسٹس ایمہرسٹ کے جُن یاؤ کہتے ہیں کہ ’کسی وجہ سے جو طالب علم اس آلے پر کام کر رہا تھا وہ بجلی میں اس کا پلگ لگانا بھول گیا تھا۔ دراصل یہی واقعہ اس کہانی کا آغاز ہے۔‘
پانچ سال پہلے کے اس واقعے کے بعد سے جُن یاؤ اور ان کے ساتھی ایک ایسی ٹیکنالوجی تیار کر رہے ہیں جو کسی اور چیز کے بجائے صرف مرطوب ہوا سے بجلی بنا سکے: مرطوب ہوا سے بجلی بنانے کے اس خیال کو ’ہائیگرو الیکٹرسٹی‘ (یعنی مائع سے بنائی جانے والی بجلی) کہا جاتا ہے۔
یہ ایک خیال ہے جس پر کئی سالوں سے بات ہوتی چلی آرہی ہے۔ امریکی ماہر طبیعیاتنیکولا ٹیسلا اور دیگر نے ماضی میں اس پر تحقیقات بھی کی ہیں لیکن اُنہیں کبھی بھی امید افزا نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ تاہم اب لگ رہا ہے کہ اس خیال کو ایک عملی شکل دی جا سکتی ہے۔
دنیا بھر میں متعدد تحقیقی گروپ پانی کے مالیکیولز (انووں) سے بجلی حاصل کرنے کے نئے نئے طریقے دریافت کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ مالیکیولز قدرتی طور پر ہوا میں تیرتے رہتے ہیں۔ نظریاتی طور پر ان مالیکویلز سے بجلی بنانا ممکن ہے، کیونکہ پانی کے مالیکیولز اپنے درمیان چھوٹے برقی چارجز کو منتقل کر سکتے ہیں۔ ایک ایسا عمل جسے محققین کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ اصل چیلنج یہ ہے کہ انھیں قابل استعمال ہونے کے لیے اس سے کافی مقدار میں بجلی حاصل کرنا ہے۔ لیکن سائنس دانوں کو اب یقین ہو گیا ہے کہ وہ چھوٹے کمپیوٹرز یا سینسر کو چلانے کے لیے کافی مقدار میں بجلی بنا سکتے ہیں۔
یہ قابل تجدید توانائی کی ایک نئی شکل کے حیران کُن امکان کو بڑھاتا ہے جو عملی طور پر ہمارے چاروں طرف ہر وقت تیرتی رہتی ہے۔
سنہ 2020 میں جُن یاؤ اور ان کے ساتھیوں نے ایک سائنسی مقالہ شائع کیا جس میں بتایا گیا کہ کس طرح چھوٹے پروٹین نینو وائرز، جو ایک بیکٹیریم کے ذریعے تیار کیے گئے ہیں، ہوا سے بجلی حاصل کر سکتے ہیں۔
یہ عمل کیسے ہوتا ہے اس بارے میں بحث جاری ہے، لیکن مادے کے چھوٹے چھوٹے سوراخ پانی کے تیرتے مالیکیولز کو قابو کرنے کے قابل دکھائی دیتے ہیں۔ جیسے ہی وہ کسی میٹیریل سے رگڑتے ہیں، پانی کے مالیکیولز بھی اس عمل کے دوران بجلی پیدا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جُن یاو بتاتے ہیں کہ، اس طرح کے نظام میں زیادہ تر مالیکیولز جو سطح کے قریب رہتے ہیں وہ بہت زیادہ الیکٹرک چارج جمع کرتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے زیادہ گہرائی میں گھس جاتے ہیں وہ کم چارج کرتے ہیں۔ یہ مادی تہہ کے اوپری اور نچلے حصوں کے درمیان چارج میں فرق پیدا کرتا ہے۔
جُن یاؤ کہتے ہیں کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ، آپ دیکھتے ہیں کہ الیکٹرک چارج علیحدہ کرتے جاتے ہیں۔ دراصل بادلوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔‘ بہت بڑے اور زیادہ ڈرامائی پیمانے پر طوفانی بادل مخالف الیکٹریکل چارجز کا ایک مجموعہ بھی بناتے ہیں جو بالآخر بجلی کی شکل میں خارج ہوتے ہیں جسے ہم بجلی کا کڑکنا کہتے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی کے مالیکیولز کی حرکت کو متاثر کرکے اور ان چارجز کی علیحدگی کے لیے صحیح حالات پیدا کرکے، آپ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔ جُن یاؤ کہتے ہیں کہ ’آلہ واقعی زمین پر کہیں بھی کام کر سکتا ہے۔ وہ سنہ 2020 کا تحقیقی مطالعہ اس سارے نظریے کی ابتدا بن گیا۔
یاؤ اور اس کے ساتھیوں نے مئی 2023 میں اسی تحقیقی مطالعہ کی بنیاد پر ایک اور تحقیقی مطالعہ شائع کیا جس میں انھوں نے ایک ہی قسم کا ڈھانچہ بنایا، جو ’نینو پورس‘ (’ثقب النانو‘ یعنی بہت ہی مہین سے مساموں سے بھرا ہوا ڈھانچہ) تھا، لیکن اس میں مختلف قسم کے میٹیریکز کا استعمال کیا گیا تھا۔ گرافین آکسائیڈ فلیکس اور پولیمر سے لے کر لکڑی سے حاصل کردہ سیلولوز نانوفائبر تک استعمال کیے گئے تھے۔ کچھ معمولی فرق کے باوجود سب نے بہرحال کام کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اصل میں ساخت اہمیت رکھتی ہے چاہے میٹیریل کسی بھی قسم کا ہو۔
اب تک کے تجربات میں انسانی بالوں سے پتلے آلات نے بہت کم مقدار میں بجلی پیدا کی ہو گی، جو ایک وولٹ کے ایک حصے کے برابر بنتی ہے۔ جُن یاؤ تجویز کرتا ہے کہ صرف مزید میٹیریلز بنا کر، یا اس کے ٹکڑوں کو آپس میں جوڑنے سے، آپ کئی وولٹ اور اس سے زیادہ کے مفید چارجز حاصل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔ وہ تجویز کرتا ہے کہ بجلی کسی مائع سے بھی بنائی جا سکتی ہے چاہے وہ کسی بھی سطح پر پانی کا سپرے ہی کیوں نہ ہو۔
برطانیہ میں امپیریل کالج لندن کی ایک میٹریل انجینئر ریشما راؤ جو اس مطالعے میں شامل نہیں تھیں، کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں یہ واقعی دلچسپ پیش رفت ہے۔ آپ جس قسم کے میٹیریل کو استعمال کرسکتے ہیں آپ کریں، اس میں بہت زیادہ تنوعہے۔‘
تاہم ریشما راؤ نے خبردار کیا کہ اس کے باوجود پوری کی پوری ایک عمارت کو یا الیکٹرک کار جیسی توانائی استعمال کرنے والی مشینوں کو بجلی فراہم کرنے کا تصور کرنا حقیقت پسندانہ نہیں ہوگا۔ لیکن نمی سے حاصل ہونے والی بجلی صرف انٹرنیٹ کے چھوٹے آلات، جیسے سینسر، یا پہننے کے قابل چھوٹے الیکٹرانکس کے لیے کافی ہو سکتی ہے۔
فی الحال جُن یاؤ ایک ممکنہ توانائی کے وسائل کے طور پر مرطوب ہوا کی تحقیقات کرنے والی ٹیم سےکافی دور ہے۔ سنہ 2020 میں اسرائیل میں ایک گروپ دھات کے دو ٹکڑوں کے درمیان مرطوب ہوا گزار کر بجلی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ نم ہوا نے دھات میں چارج پیدا کیا کیونکہ یہ اس کے اوپر بہتی تھی۔
اس طرح کا واقعہ پہلی بار 1840 میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جب شمال مشرقی انگلینڈ میں نیو کاسل کے شمال میں ایک کوئلے کی کان میں ایک ٹرین ڈرائیور نے انجن کو چلاتے ہوئے اپنے ہاتھ میں ایک عجیب سی جھنجھلاہٹ محسوس کی۔ بعد میں اس نے اپنی انگلی اور گاڑی کے ایک لیور کے درمیان ایک چھوٹی سی چنگاری کو نکلتے ہوئے دیکھا۔ اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انجن کے بوائلر کی دھات پر بھاپ سے رگڑنے سے چارج جمع ہو گیا تھا۔
اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی میں ماحولیاتی علوم کے محقق کولن پرائس، جو 2020 کے مقالے کے شریک مصنف ہیں، اُن کا کہنا ہے کہ دھات کے چھوٹے ٹکڑوں کا استعمال کرتے ہوئے لیبارٹری کے تجربات میں پیدا ہونے والے چارجز بہت کم تھے۔ تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ وہ اور ان کے دیگر ساتھی اپنے اِس نظام کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
پھر بھی ایک حد یہ ہو سکتی ہے کہ انھیں 60 فیصد یا اس سے زیادہ نسبتاً نمی کی ضرورت ہے، جب کہ جُن یاؤ اور اس کے ساتھیوں کے آلات تقریباً 20 فیصد کی نمی پر بجلی پیدا کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ دریں اثنا پرتگال میں ایک ٹیم یوروپی یونین کی مالی امداد سے بننے والے ’کاٹچر‘(CATCHER) نامی منصوبے پر کام کر رہی ہے، جس کا مقصد مرطوب ہوا کو توانائی کے ایک ذریعہ کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ سوِٹلانا لیوبچِک (Svitlana Lyubchyk)، پرتگال کے شہر لزبن میں لوسوفونا (Lusófona) یونیورسٹی میں میٹیریلز کے مطالعے کی سائنس دان ہیں، وہ اس منصوبے کو مربوط کر رہی ہیں، اور انھوں نے ’کاسکاٹا چوا‘(CascataChuva) نامی ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے۔
لیوبچک کہتی ہیں کہ ’میرے خیال میں انجینئرنگ کا پروٹو ٹائپ (ابتدائی ڈیزائن) کم و بیش اس سال کے آخر تک تیار ہو جائے گا۔‘
جبکہ ان کا بیٹا اینڈری لیوبچک، جو کمپنی کے شریک بانی بھی ہیں، ایک چھوٹی ایل ای ڈی لائٹ کی ویڈیو پیش کرتا ہے جس میں وہ بار بار جلتی ہے اور پھر بُجھتی ہے۔ اس نے زرکونیم آکسائیڈ سے بنی تقریباً 4 سینٹی میٹر (1.6 انچ) قطر کی ایک سرمئی ڈسک پکڑی ہوئی ہے، اور وہ یہ بتاتا ہے کہ یہ میٹیریل مرطوب ہوا سے پانی کے مالیکیولز کو قابو کر سکتا ہے اور انھیں چھوٹے چینلز کے ذریعے بہنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک الیکٹرک چارج پیدا کرتا ہے، جو ایک ڈسک سے تقریباً 1.5 وولٹ فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایل ای ڈی کو طاقت دینے کے لیے صرف دو ڈسکس کافی ہیں، انھوں نے مزید کہا کہ اس سے بھی بجلی بنانے کے لیے ان مٹیریلز کے مزید بہت سے ٹکڑوں کو ایک ساتھ جکڑا جا سکتا ہے۔
Getty Imagesزیادہ نمی کی وجہ سے ومبلڈن چیمپیئن شِپ میں کافی تشویش پیدا ہوئی تھی، لیکن یہ مستقبل میںتوانائی کا ایک ذریعہ بھی بن سکتا ہےبشرطیکہ ٹیکنالوجی میں ترقی ہو
تاہم اب جبکہ اس کام کے بارے میں کچھ معلومات آن لائن دستیاب ہیں، ٹیم کے تازہ ترین تجربات کے بارے میں مکمل تفصیلات کا ابھی شائع ہونا اور ان کا ان کے یا ہم مرتبہ ماہرین کا اِن کا جائزہ لینا ابھی باقی ہے۔ گروپ نے کسی بھی میٹیریل کے بارے میں مزید معلومات فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ڈسکس ایل ای ڈی سے منسلک ہیں جن سے انہیں الیکرسٹی ملتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بجلی کی بچت کیسے کی جائے؟ ان سات چیزوں کا خیال رکھیں مستقبل کے عمارت نما جدید شہروں میں زندگی کیسی ہو گی؟حیران کن مقناطیس توانائی کا نیا ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں
ریشما راؤ کا کہنا ہے کہ ان تمام ’ہائیگرو الیکٹریکل‘ کوششوں کے پیچھے میکانزم پر بہت سے سوالات باقی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کیوں کام کرتا ہے اس کے بنیادی اصولوں کے لحاظ سے بہت زیادہ ریسرچ کیے جانے کی ضرورت ہے۔‘
کمرشلائزیشن یعنی اس کے تجارتی سطح پر استعمال کرنے کا معاملہ بھی ابھی طے ہونا ہے۔ کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی کی سول انجینئر سارہ جارڈان کہتی ہیں کہ جو بھی اس طرح کی ٹیکنالوجی کو تجارتی سطح پر بنانا چاہتا ہے اسے دیگر قابل تجدید ذرائع کے مقابلے میں بجلی بنانے اور اس کی لاگت کا دیگر ذرائع سے بننے والی بجلی سے موازنہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔
پہلے سے موجود مزید قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی، جیسے ہوا اور شمسی توانائی، واضح طور پر بہت زیادہ ترقی کر چکے ہیں۔ وہ آنے والی دہائی میں شاید کہیں زیادہ اہم ثابت ہوں گے، خاص کر ایک ایسے وقت میں جب فوسل فیول (جیواشم ایندھن) کو طور پر ترک کرنا ضروری ہوگا۔
ان چیلنجوں کے باوجود راؤ کا کہنا ہے کہ ’امید کی کرن‘ باقی ہے کہ ’ہائیگرو الیکٹرسٹی‘ کی تحقیق سے توانائی کے نئے میٹیریلز سامنے آئیں گے۔