پاکستان میں فوجی عدالتوں کی متنازع تاریخ: جب 15 برس کے نوجوان پر بھی ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلا

بی بی سی اردو  |  Jul 14, 2023

Getty Images

یہ واقعہ فروری سنہ 1999 کا ہے جب کراچی کے دو افراد کو ایک ملٹری کورٹ نے سزائے موت سنائی۔ اس وقت ملٹری کورٹس کی تشکیل کو عدالت میں چیلنج کیا جا چکا تھا لیکن انھوں نے اپنی کارروائی جاری رکھی۔

سپریم کورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا کہ ملٹری کورٹس غیر آئینی ہیں لیکن اس فیصلے کے آنے سے چند دن قبل دونوں افراد کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا جا چکا تھا۔

جب نواز شریف دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم تھے تو وفاقی حکومت نے پاکستان آرمڈ فورسز (ایکٹنگ ان ایڈ آف دی سول پاور) آرڈیننس 1998 میں ترمیم کر کے پورے پاکستان میں ملٹری کورٹس قائم کی تھیں۔

ان عدالتوں میں چلنے والے کئی مقدمات میں سزائیں سنائی گئیں تھیں جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کالعدم قرار دے دی گئی تھیں۔ اس عرصے میں ملٹری کورٹس نے 13 افراد کو موت کی سزا سنائی اور دو کو پھانسی دی گئی تھی۔

کم عمر نوجوانوں پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ

ان مقمدمات میں ایک ایسا مقدمہ بھی تھا جس میں کراچی کے ایک پندرہ برس سے کم عمر کے نوجوان پر پیرا ملٹری رینجرز پر فائرنگ سے ایک رینجر کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کرنے کا الزام تھا۔ ’سندھ چلڈرن ایکٹ‘ کے مطابق کم عمری کی وجہ سے ملٹری کورٹ میں یہ مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔

اس نوجوان کا نام طحہٰ ولد نعیم احمد خان تھا۔ فوجی عدالت کو خبردار کیا گیا تھا کہ سندھ چلڈرن ایکٹ بڑوں اور نابالغوں کے مشترکہ ٹرائل پر پابندی عائد کرتی ہے اور بچوں کی سزائے موت پر پابندی عائد کرتی ہے۔

12 جنوری 1999 کو ملٹری ٹرائل کورٹ نے طحہ کی عمر کا تعین کرنے کے لیے طبی معائنے کا حکم دیا۔ عدالت کی جانب سے قائم کیے جانے والے میڈیکل بورڈ نے طے کیا کہ طحہٰ نے جب جرم کا مبینہ ارتکاب کیا تھا تو اس کی عمر پندرہ سے سولہ سال کے درمیان تھی۔

طبی معائنے میں عمر کے تعین کے باوجود، ملٹری کورٹ نے اسی کیس میں چار نوجوان بالغوں کے ساتھ طحہ پر بھی مقدمہ چلایا۔

ہیومن رائٹس واچ کی 1999 کی رپورٹ کے مطابق کم از کم دو ایسے کیس سامنے آئے جن میں ملٹری کورٹ نے سولہ سال سے کم عمر کے بچوں پر مقدمہ چلایا۔

BBCعام شہریوں پر ملٹری کورٹس میں مقدمات کا آغاز

انڈیا اور پاکستان دونوں کے آرمی ایکٹ برٹش انڈین آرمی ایکٹ 1911 کے مطابق تشکیل دیے گئے لیکن انڈیا میں اس قانون کو سویلینز پر مقدمہ چلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان میں حالات مختلف رہے۔

ملٹری کورٹ عموماً ایسی عدالت کو کہا جاتا جس میں ملٹری قوانین یا اصول و ضوابط کے تحت فوجیوں کی ملازمتوں کی سہولیات اور ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈسپلن کی خلاف ورزی یا بغاوت جیسے جرائم کے ارتکاب پر مقدمات چلائے جاتے ہیں۔

نام کچھ بھی دیا جائے، ملٹری کورٹس، کورٹ مارشل یا سپیشل ملٹری ٹرائبیونلز لیکن جب کسی مقدمے میں فوج کے افسران شامل ہوں تو اُسے عموماً ملٹری کورٹس ہی کہا جاتا ہے۔

تاریخی طور پر ملٹری کورٹس آرمی ایکٹ 1952 کے تحت بنائی جاتی رہی ہیں۔ جنوبی ایشیا کی انگریزوں سے آزادی سے پہلے انڈین آرمی پر انڈین آرمی ایکٹ 1911 ہوتا تھا۔

اس قانون میں پہلے سے موجود دیگر اصول و ضوابط اور ڈسپلن رکھنے اور خلاف ورزیوں پر سزائیں دیے جانے کے قواعد کو ایک جگہ جمع کر کے انھیں آرمی ایکٹ 1911 کا نام دے دیا گیا۔ اس قانون کا اطلاق صرف فوجیوں پر ہوتا تھا، نہ کہ کسی سویلین پر۔

انڈین آرمی ایکٹ 1911

جنگ کے بارے میں انڈین قواعد و ضوابط میں دوبارہ سے ترامیم کے لیے سنہ 1908 میں حکومتی سطح پر غور و فکر ہوا تاہم اس وقت اس معاملے پر بحث کرتے ہوئے ترجیح یہ دی گئی کہ ان تمام کو یکجا کیا جائے اور ضرورت کے مطابق 1869 کے متعلقہ قواعد و ضوابط میں تبدیلیاں کی جائیں۔

اس طرح اُس وقت مروجہ جنگ اور افواج سے متعلق تمام قواعد و ضوابط کو انڈین آرمی ایکٹ میں سادہ اور وضاحت کے ساتھ ایک دستاویز کی صورت میں تشکیل دیا گیا اور ان میں وہ تمام نئی باتیں بھی شامل کی گئیں، جن کا نئے حالات تقاضا کرتے تھے۔

اس قانون کو انڈین لیجِسلیٹِو کونسل نے 1911 میں منظور کیا تھا اور اس کا اطلاق سنہ 1912 میں ہوا۔ تب سے آرمی ایکٹ انڈیا کی فوج کا بنیادی قانون چلا آرہا ہے جسے آزادی کے بعد انڈیا نے انڈین آرمی ایکٹ 1950 کی صورت میں برقرار رکھا اور پھر پاکستان نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 تشکیل دیا۔

دیگر کئی معاملات طے کرنے کے علاوہ انڈین آرمی ایکٹ 1911 میں پہلی مرتبہ انڈین فوجیوں کا قومی تشخص بھی تسلیم کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے انڈیا کے سپاہیوں کے لیے ’نیٹِو‘ (مقامی باشندہ) جیسے الفاظ استعمال کیے جاتے تھے تاہم نئے قانون میں انھیں ’انڈین‘ کہا گیا۔

Getty Imagesانڈیا اور پاکستان دونوں کے آرمی ایکٹ برٹش انڈین آرمی ایکٹ 1911 کے مطابق تشکیل دیے گئے لیکن انڈیا میں اس قانون کو سویلینز پر مقدمہ چلانے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا جبکہ پاکستان میں حالات مختلف رہےانڈین آرمی ایکٹ 1950

انڈیا کے آرمی ایکٹ 1950 کے مطابق افسران، جونیئر کمیشنڈ آفیسر کے رینک سے نیچے کے اہلکاروں پر مقدمہ ملٹری کورٹ میں چلایا جا سکتا ہے یا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر ان کا سمری کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔

سمری کورٹ مارشل ان افسران اور اہلکاران کو جرم ثابت ہونے کی صورت میں ملازمت سے برخاستگی کی سزا تجویز کر سکتی ہے اور ایک سال تک قید کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔

انڈین آرمی ایکٹ 1950 کے باب اول میں سیکشن 1، 2 اور 3 ہیں۔ پہلا سیکشن پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 کی طرح انڈیا کے قانون کا مختصر عنوان بیان کرتا ہے جبکہ سیکشن 2 کی نو ذیلی دفعات میں ایکٹ کے تابع اشخاص، افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کی گئی ہے جن پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے۔ ذیل میں ایک غیر مکمل مگر نمائندہ فہرست ہے:

افسران، جونیئر کمیشنڈ افسران اور فوج کے وارنٹ افسراناس ایکٹ کے تحت اندراج شدہ افرادوہ افراد جن کا تعلق انڈین ریزرو فورسز سے ہےوہ انڈین سپلیمنٹری ریزرو فورسز سے تعلق رکھنے والے افراد جن کو طلب کیا جا سکتا ہے علاقائی آرمی آفیسروہ افراد جو انڈین ریزرو فورس میں کمیشنڈ افسر ہیںانڈین ریگولر ریزرو آفیسر میں تعینات افسران

سویلینز انڈین آرمی ایکٹ 1950 کے احاطے میں نہیں آتے ہیں، اسی لیے ان پر کسی ملٹری کورٹ میں نہ کبھی کوئی مقدمہ چلا اور نہ کسی سویلین کا کورٹ مارشل ہوا ہے۔

انڈیا میں البتہ آرمڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ نام کے کئی قوانین ہیں جو عدم استحکام، بغاوت یا دہشت گردی جیسے حالات سے نمٹنے کے لیے فوج کے اقدامات کو قانونی تحفظ دیتے ہیں۔

ان قوانین کے مطابق آرمی کی کارروائیوں کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تاہم فوج کسی بھی سویلین پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ نہیں چلا سکتی۔ سویلین چاہے دہشتگرد ہی کیوں نہ اُس پر مقدمہ عام قوانین کے تحت چلایا جائے گا۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952

پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 میں پندرہ باب ہیں اور 177 سیکشن ہیں جبکہ انڈیا کے آرمی ایکٹ 1950 میں بھی پندرہ باب اور 196 سیکشن ہیں۔

پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 میں انڈین ایکٹ 1950 کی طرح ’افسران، جونیئر کمیشنڈ افسران اور فوج کے وارنٹ افسران‘ اس قانون کے احاطے میں آتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ آزادی سے پہلے کے انڈین آرمی 1911 کے تحت فوج میں شامل افراد بھی اسی قانون کے دائرے میں آتے ہیں۔

دیگر تفصیلات کے علاوہ جو کہ انڈین ایکٹ سے ملتی جلتی ہیں، پاکستان کے آرمی ایکٹ 1952 کے سیکشن 2(d) میں ایسے افراد پر بھی اس قانون کے اطلاق کا ذکر ہے جو اس قانون کے احاطے میں نہیں آتے ہیں۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں سیکشن 2(d) ترمیم کر کے سنہ 1967 میں شامل کیا گیا تھا اور یہی شق سویلین پر ملٹری کورٹس میں مقدمہ چلانے کے لیے استعمال کی گئی۔ دہشت گردی یا دہشت گردوں کو اس قانون کے دائرے میں لانے کی ترامیم بعد میں متعارف کرائی گئی تھیں۔

سیکشن 2 کی دیگر ذیلی شقوں میں دہشت گردی سے لے کر ائیر فورس اور نیوی کے ان افسران پر اس قانون کے اطلاق کا ذکر ہے جو آرمی میں عارضی طور پر منتقل ہو کر آتے ہیں۔

Getty Imagesجنرل ایوب خان دیگر فوجی افسران کے ہمراہسویلینز پر فوجی بغاوت کا پہلا مقدمہ

جب نام نہاد راولپنڈی سازش کیس میں فوجی افسران سمیت تین سویلینز پر بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا تو وہ آرمی ایکٹ کے تحت نہیں تھا بلکہ اس مقدمے کے لیے ’راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ‘ بنایا گیا۔

یہ وہی معروف مقدمہ ہے جس میں تین سویلینز یعنی معروف شاعر فیض احمد فیض، بائیں بازو کے دانشور اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل سجاد ظہیر، کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما محمد حسین عطا اور بیگم نسیم شاہ نواز پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔

راولپنڈی سازش کیس میں پاکستانی فوج کے 11 قوم پرست افسران پر بغاوت کا الزام عائد کرکے انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ پھر ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک نیا قانون بنایا گیا تھا جو چار برس کے بعد غیر قانونی قرار دیا گیا۔ اس دوران ملزمان قید میں رہے۔

معروف مورّخ ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق راولپنڈی سازش کیس صرف نام کی حد تک سازش تھی، حقیقت میں یہ کچھ ناراض لوگوں کی ایک عشائیے کے دوران گپ شپ تھی۔ ان کے مطابق سازش کا کبھی بھی کوئی باقاعدہ ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔

ان کے مطابق جنرل ایوب خان نے قوم پرست فوجیوں کو راستے سے ہٹانے کے لیے سازش کا یہ کھیل کھیلا تھا اور پھر بہت آسانی کے ساتھ اس زمانے کی سرد جنگ کے دوران پاکستان کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔

1967 کی تاریخی ترمیم اور سیاسی حالات

بہرحال تاریخ کے ایک اور موڑ پر جب صدر ایوب خان نے ضروری سمجھا تو انھوں نے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں 1967 میں دو مرتبہ یعنی ستمبر اور اکتوبر میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے ایسی ترامیم کیں جن سے اس قانون کے احاطے میں سویلینز بھی آ گئے۔

پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ’ڈیفنس سروسز لاز امینڈمنٹ آرڈیننس 1967‘ کے ذریعے یہ الفاظ شامل کیے:

’وہ افراد جو بصورت دیگر اس ایکٹ کے دائرے میں نہیں آتے ہیں، (ان پر اس قانون کا اطلاق ہو گا اگر اُن پر) کسی شخص کو اس کی ذمہ داری یا حکومت سے وفاداری سے بہکانے یا بہکانے کی کوشش کرنے کا الزام، یا آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 تحت ان کا کوئی فعل جرم بنتا ہے۔‘

سنہ 1967 میں پاکستان کے صدر اور فیلڈ مارشل ایوب خان عدم استحکام کے خدشات میں گِھرے ہوئے تھے۔ پاکستان انڈیا سے 1965 میں ایک جنگ لڑ چکا تھا۔

جنوری 1966 میں تاشقند میں ہونے والے پاکستان اور انڈیا کے درمیان معاہدے کے بعد صدر ایوب خان کی سیاسی ساکھ کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ کمزور ایوب خان نے اسی دور میں ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ لکھی تھی جو امریکہ سے خراب ہوتے ہوئے تعلقات کی جانب ایک اشارہ تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب بلوچستان میں شورش بڑھ رہی تھی، ذوالفقار علی بھٹو مستعفی ہو کر ایوب خان کے لیے سیاسی خطرہ بن چکے تھے اور مشرقی پاکستان میں اگرتلہ سازش کی بازگشت سنی جا رہی تھی۔

اگر تلہ سازش کیس میں بنگالی فوجی افسران بھی مبینہ طور پر شامل تھے اس لیے 1968 میں ان کا کورٹ مارشل کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن حکومت سیاستدانوں پر بھی مقدمہ چلانا چاہتی تھی۔ لہٰذا ان مقدمات کو سویلین عدالتوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

Getty Imagesذوالفقار علی بھٹو کا منفرد اعزاز

سنہ 1967 کے بدلتے ہوئے حالات میں پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کر کے اس کا اطلاق سویلینز پر بھی کیا گیا تاہم اُس زمانے میں کسی سویلینز پر ملٹری کورٹ میں مقدمہ نہیں چل سکا۔

سنہ 1968 میں ایوب خان کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا اور 1969 میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا جس کے بعد ایک نئے فوجی جنرل، آغا محمد یحیٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

شاید اسے پاکستان کی تاریخ کی ستم ظریفی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سویلینز پر پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت ملٹری کورٹس میں پہلا مقدمہ چلانے کا اقدام بھٹو کی حکومت کے زمانے میں 1977 میں لیا گیا تھا لیکن بھٹو کا یہ اقدام سندھ اور لاہور ہائی کورٹس نے غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔

بھٹو نے یہ ملٹری کورٹ اپوزیشن کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان قومی اتحاد کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد ہونے والی شورش پر قابو پانے کے لیے تشکیل دی تھیں تاہم یہ کورٹس عملاً کام ہی نہ کر سکیں۔

Getty Imagesجنرل ضیا کی فوجی عدالتیں

جنرل ضیا الحق نے 1977 میں مارشل لا لگانے کے بعد جو ملٹری کورٹس بنائی تھیں اُن میں سویلینز پر مقدمات چلا کر سزائے موت اور کوڑوں سمیت جرمانے اور قید کی بھی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ اُس وقت مارشل لا آرڈیننس کے ذریعے ایک سو سے زیادہ ملٹری کورٹس بنائی گئی تھیں۔

مارشل لا کے ذریعے آئین کو معطل کر دیا گیا تھا۔ ایک بنگالی ماہرِ قانون، جسٹس عبدالمنعم کے مطابق مارشل لا کوئی لا نہیں ہوتا بلکہ مارشل لا آئین اور قانون کہ عدم وجود کا نام ہوتا ہے جس کا کوئی بھی جواز نہیں بنتا۔

جنرل ضیا کو ابتدائی دور میں مزاحمت کا شدید خطرہ تھا۔ اس لیے مارشل لا کو مستحکم کرنے کے لیے ملٹری کورٹس تشکیل دی گئیں جن میں عام سویلین پر مقدمہ چلائے گئے۔ ان ملٹری کورٹس نے سیاسی کارکنوں کو بھی پھانسیاں، کوڑے اور قید کی سزائیں سنائی تھیں۔

نواز شریف کے ملٹری ٹرائبیونلز اور فوجی عدالتوں کا تسلسل

اس کے بعد پھر ملٹری کورٹس کا قیام سنہ 1998 میں نواز شریف کی حکومت کے دوران ہوا۔ تب سپیشل ملٹری ٹرائیبونل بنائے گئے تھے، جو ایک قسم کے ملٹری کورٹس ہی تھے لیکن یہ بھی بعد میں غیر آئینی قرار دیے گئے۔

2014 کے آرمی پبلک سکول پشاور کے حملے کے بعد دہشت گردوں کو سزائیں دینے کے لیے آئین میں 21ویں ترمیم کی گئی اور ملٹری کورٹس قائم کی گئیں۔ بعد میں 23ویں ترمیم کے ذریعے ملٹری کورٹس کو مزید دو برس کے لیے توسیع دے دی گئی تھی۔

اس طرح یہ ملٹری کورٹس جنوری 2019 تک کام کرتی رہیں۔ سنہ 2021 میں بھی انسانی حقوق کے ایک کارکن ادریس خٹک پر اسی آئینی ترمیم کا سہارا لے کر ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔

ماہرین اس مقدمے کو غیر قانونی کہتے ہیں لیکن ادریس خٹک آج بھی سزا کاٹ رہے ہیں۔

21ویں آئینی ترمیم جس کی بدولت سنہ 2015 میں دہشت گردی پر قابو پانے اور دہشت گردوں پر مقدمہ چلانے کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کا احاطہ بڑھایا گیا تو مبینہ دہشت گردوں کے لیے ان کے کسی ’فرقہ‘ سے تعلق کا ذکر کیا گیا تھا۔

لیکن اس لفظ کے ذکر کے فوراً بعد اس بات کی وضاحت بھی دی گئی کہ اس سے مراد مذہب کا ’فرقہ‘ ہے اور اس میں کسی ایسی مذہبی یا سیاسی جماعت پر ملٹری کورٹس کا اطلاق نہیں ہو گا جو پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2002 کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔

ملٹری کورٹس اور سپریم کورٹ

اس وقت پاکستان میں پہلے ہی نو مئی کے واقعات میں شامل افراد پر ملٹری کورٹس میں مقدمات چلانے کا اعلان کیا جا چکا ہے۔

پہلے یہ اعلان لاہور میں فوج کے چیف آف آرمی سٹاف نے کیا تھا، بعد میں حکومت نے کیا اور پھر قومی اسمبلی نے اس کی حمایت میں ایک قرارداد بھی منظور کی۔

تاہم ملٹری کورٹس میں سویلینز پر مقدمہ چلانے کے حکومتی اعلان کو اس وقت اپوزیشن رہنما عمران خان، ایک سابق چیف جسٹس، جواد ایس خواجہ اور معروف قانون دان اعتزاز احسن نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔

دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More