BBC
’میں اپنے بیٹے کے یہ الفاظ مرتے دم تک نہیں بھول پاؤں گا کہ ابو گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ بس کسی طرح آکر بچوں کو بچا لیں۔‘
لاہور کے رہائشی ظہیر الدین نے آج اپنے خاندان کے دس افراد کے جنازے اٹھائے۔
اندرونِ لاہور کے علاقے بھاٹی گیٹ کے علاقے میں رات گئے ایک گھر میں لگنے والی آگ نے ایک ہی خاندان کے دس افراد کی جان لے لی ہے۔ جس میں چھ بچے، تین خواتین اور ایک مرد شامل ہیں۔
یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب اس گھر کے تمام افراد سو رہے تھے۔
’میں نے ظہیر کے چھوٹے بیٹے کی چیخیں سنی جو مجھے مدد کے لیے پکار رہا تھا‘
متاثرہ خاندان کے پڑوس میں رہائشی اور واقعے کے عینی شاہد محمد علی نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سو رہے تھے جب انھوں نے سامنے والے گھر سے چیخوں کی آوازیں سنی۔
انھوں نے بتایا کہ ’رات دو بج کر پانچ منٹ کا وقت تھا جب سامنے والوں کے بیٹے خان نے آوازیں لگائی کہ علی بھائی ہمارے گھر میں آگ لگ گئی ہے، ہمھیں بچائیں۔‘
محمد علی کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے کی گلیاں تنگ ہیں اور گھر بالکل ساتھ ساتھ ہیں۔ میرا گھر ان کے گھر کے سامنے ہے۔ میں نے جب اپنی اوپر والی منزل کی کھڑکی کھولی تو ان کا چھوٹا بیٹا کھڑی کھول کر کھڑا تھا۔ وہ مجھ سے کہنے لگا کہ میں یہاں پھنسا ہوا ہوں اور باقی گھر والی اے سی والے کمرے میں تیسری منزل پر ہیں۔‘
’میں فوراً نیچے بھاگا تو ان کے مرکزی گیٹ پر اندر سے تالا لگا ہوا تھا۔ میں نے خان کو کہا کہ تم نیچے آؤ اور دروازہ کھولو تو اس نے کہا کہ سیڑھیوں میں دھواں بہت ہے۔ اور اندھیرا ہے مجھے نہیں پتا کہ گیٹ کی چابی کہاں ہے۔‘
BBC
محمد علی بتاتے ہیں کہ ’میں فورا اپنے گھر گیا اور وہاں سے ہتھوڑی اور پیچ کس لے کر آیا ور گیٹ کی سائیڈ سے اسے پکڑائی کہ تم دروازے کا لاک توڑ دو۔ جس وقت ہم یہ سب کر رہے تھے تو اوپر والی منزل سے بچوں اور ان کے گھر والوں کی چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسی دوران ہم نے ریسکیو والوں کو بھی کال ملا دی تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ساتھ والوں کی چھت پر گیا کہ وہاں سے باقی لوگوں کو نکالوں۔ لیکن جب اوپر گیا تو وہاں بھی تالا لگا تھا اور اندھیرے کی وجہ سے ان لوگوں کو چابی بھی نہیں مل رہی تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نیچے واپس بھاگا۔ میں نے دوبارہ اپنی اوپر والی منزل کی کھڑی سے باقی گھر والوں کو آواز دی کہ ہم کوشش کر رہے ہیں آپ کو نکالنے کی۔ میں نے دیکھا کہ بچوں کی ماں نے اپنا چھوٹا بیٹا گود میں پکڑا ہوا تھا۔ بچہ اور ماں دونوں ہی آگ کی لپیٹ میں تھے۔‘
’محلے کے دیگر لوگ بھی چیخیں سن کر جمع ہو گئے۔ جتنی دیر میں خان تالا توڑنے میں کامیاب ہاو تو اوپر والی منزل میں زور داردھماکہ ہوا۔ میں سمجھا کہ چھت گر گئی ہے لیکن دھماکہ ہوتے ہی آگ کے شعلے باہر تک آئے اور اس کے فوری بعد ہی سب لوگوں کی چیخیں بھی بند ہو گئیں۔ اس وقت ہمھیں معلوم ہو گیا کہ جنھیں ہم بچانے کی کوشش کر رہے تھی وہ سب ہلاک ہو گئے ہیں۔‘
محمد علی بتاتے ہیں کہ اس وقت تک ریسکیو کی آگ بجھانے والی گاڑیاں بھی پہنچ گئی تھیں۔ انھوں نےفوراًہی دس منٹ کے اندر اندر آگ بجھا دی تھی۔‘
BBC’مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا ہے کہ میرا گھر اجڑ گیا ہے‘
ظہیر الدین کی بیوی، ایک بیٹا، بیٹی، بہو اور ان کے پوتا پوتی اور نواسا نواسیاں اس واقعے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’جب یہ واقع پیش آیا تو میں گھر پر موجود نہیں تھا۔ میں اپنی والدہ کی عیادت کے لیے ان کے گھر گیا ہوا تھا۔ مجھے رات کے دو بج کر پندرہ منٹ پر بیٹے عادل کی کال آئی کہ ابو گھر میں آگ لگ گئی ہے۔ کسی طرح بچوں کو بچا لیں۔ اس کی آواز میں بے بسی تھی۔‘
’میں نے سامنے والے علی کو فون کیا تو اس نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی کوشش کر رہے ہیں انھیں نکالنے کی لیکن چابی ہی نہیں مل رہی۔ میں نے فوراً اپنی والدہ کے ہاں سے موٹر سائیکل نکالی اور گھر کی جانب نکل پڑا مگر جب میں وہاں پہنچا تو میرا سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔ اس وقت ریسکو والے آگ بجھا رہے تھے۔ میں سیڑھیوں سے اندر کی طرف بھاگا تو انھوں نے مجھے پکڑ کر روک دیا کہ اندر جانے والے حالات نہیں ہیں۔ دھواں اتنا زیادہ تھا کہ کچھ نظر بھی نہیں آرہا تھا۔‘
ظہیر الدین بتاتے ہیں کہ ’میرا چھوٹا بیٹا بچ گیا لیکن باقی سب لوگ جل کر مر گئے۔ میں اپنی چار سال کی پوتی سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ جبکہ میرا سات ماہ کا ایک پوتا بھی تھا۔‘
انھوں نے روتے ہوئے بتایا کہ ’میرے جس بیٹے کے بچے اور بیوی مرے ہیں وہ توپاکستان میں بھی نہیں ہے۔ دبئی ہوتا ہے۔ اسے میں نے اطلاع دے دی ہے اور وہ واپس آرہا ہے۔ لیکن وہ تو یہاں آتے آتے ہی غم سے مر جائے گا۔ اسے اپنی بیٹی سے عشق تھا۔‘
ظہیر الدین بتاتے ہیں کہ ’ہم اس گھرمیں چھ سال پہلے منتقل ہوئے تھے۔ اس سے پہلے ہم لاہور کے دوسرے علاقے میں رہتے تھے۔ میرا ایک بیٹا جو وکیل ہے۔ اس کو یہاں سے کورٹ نزدیک پڑتی تھی اس لیے ہم یہاں شفٹ ہو گئے۔ وہ غیر شادی شدہ تھا اور وہ بھی اس واقعے میں ہلاک ہو گیا ہے۔‘
’جب ریسکو والے میرے گھر والوں کی لاشیں اوپر سے نیچے اتار کر لائے تو سب لوگ بری طرح جھلس چکے تھے۔ گھر کا کوئی بھی شخص پہچانا نہیں جا رہا تھا۔ وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے سے نہیں ہٹ رہا۔‘
BBCاندرون لاہور کی تنگ گلیاں اور ریسکیو آپریشن میں مشکلات
یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل بھی اندرون لاہورکے تنگ علاقوں میں جب بھی ایسا کوئی واقعہ پیش آیا تو وہاں ریسکو آپریشن میں مشکلات دیکھنے کو ملیں۔ بطور صحافی میں ان علاقوں میں گذشتہ چند سالوں میں تین سے چار آتشزدگی کے واقعات کور کر چکی ہوں۔
جب بھی اندرون لاہور کی تنگ گلیوں میں آگ لگنے کا واقعہ پیش آتا ہے تو پہلی سوچ یہی آتی ہے کہ جائے وقوع تک گاڑی کہاں تک پہنچے گی۔
آج بھی جب اس واقعے کی کوریج کے لیے میں بھاٹی گیٹ کے علاقے میں داخل ہوئی تو وہاں سے جائے وقوع تک پہنچنے میں مجھے 25 منٹ لگے جبکہ راستہ تقریباً تین سے چار کلومیٹر کا تھا۔
تنگ گلیاں اور بازار کا رش عموماً اتنا ہوتا ہے کہ گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم جہاں یہ واقع پیش آیا وہاں کی گلی دوسری گلیوں کے مقابلے خاصی کشادہ ہے لیکن اس گلی تک پہنچنے کے لیے بھی آپ کو تنگ گلیوں سے گزر کر جانا پڑتا ہے۔
اور اگر آپ لمبے راستے سے نہیں آنا چاہتے تو پھر پیدل ایسی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے کہ ایک وقت میں صرف ایک شخص ہی یہاں سے گزر سکتا ہے۔
اس واقعے کے بارے میں بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ریسکو 1122 کے ترجمان محمد فاروق کا کہنا تھا کہ اس واقعے کا ریسپانس ٹائم زیادہ نہیں تھا کیونکہ رات کا وقت تھا اور اس وقت بازارمیں بھیڑ نہیں ہوتی۔ انھوں نے بتایا کہ یہ حقیقت ہے کہ اندرون لاہور میں جگہ کی تنگی کی وجہ سے ریسکیو آپریشن میں مشکلات ہوتی ہیں۔ اسی وجہ سے حکومت نے 1122 کی موٹر سائیکل سروس متعارف کروائی تھی تاکہ جلد سے جلد ایسی جگہوں پر پہنچا جا سکے۔
ریسکو کے رسپانس کے بارے میں بات کرتے ہوئے اہل علاقہ کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ریسیکو اہلکاروں نے پہنچتے ہی چند منتٹوں کے اندر اندر آگ پر قابو پا لیا تھا۔ لیکن اس جگہ پر پہنچنے کے لیے وہ پہلے کئی منٹوں تک پھنسے بھی رہے ہیں۔
تاہم جب ان سے آگ لگنے کی وجوہات کے متعلق پوچھا گیا تو ریسکیو 1122 کے ترجمان محمد فاروق نے کہا کہ اس بارے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں تاحال اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ یہ آگ فریج کے شارٹ سرکٹ کے باعث لگی ہے مگر بظاہر یہ ممکن نہیں کیونکہ اس قسم کی آگ کسی کیمیکل یا گیس دھماکے کے نتیجے لگتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں فریج کے کمپریسر میں موجود گیس دھماکے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔