Getty Imagesفائل فوٹو: ضلع کرم میں ماضی میں بھی مقامی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع کرم میں مختلف قبائل کے درمیان جاری جھڑپوں کے بعد حالات بدستور کشیدہ ہیں اور علاقے میں فوج اور ایف سی کو طلب کر لیا گیا ہے۔
صوبائی محکمہ داخلہ کے مطابق ضلع کرم میں امن و امان کی صورتحال معمول پر آنے تک وہاں فوج تعینات رہے گی۔
کرّم میں گذشتہ چند دن کے دوران مقامی قبائل کے درمیان فائرنگ اور جھڑپوں میں اب تککم از کم سات افراد ہلاک اور 37 زخمی ہو چکے ہیں۔
حکام کے مطابق یہ جھڑپیں زمین کے تنازع پر شروع ہوئیں اور متنازع زمین پر ضلعی انتظامیہ نے دفعہ 144 بھی نافذ کر دی ہے جبکہ تنازعے کو حل کرنے کے لیے کوہاٹ، اورکزئی اور ہنگو سے 30 رکنی جرگہ بھی کرم منتقل ہو گیا ہے۔
مقامی وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کے مطابق یہ جھڑپیں مختلف قبائل کے درمیان لوئر کرم، اپر کرم اور ان کے قریبی علاقوں میں ہوئی ہیں تاہم انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ لوئر کرم میں جاری جھڑپیں مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی حکام کی کوششوں سے روک دی گئی ہیں جہاں مورچے خالی کرائے جا رہے ہیں۔
وفاقی وزیر سمندر پار پاکستانی اور ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری نے اس حوالے سے دو روز قبل بی بی سی کو بتایاتھا کہ وہ خود علاقے میں موجود ہیں جہاں مقامی انتظامیہ سکیورٹی حکام اور مقامی عمائدین کی مدد سے حالات پر قابو پانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ مقامی قبائل کے آپس کے تنازعات ہیں جنھیں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خیبرپختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کے اعلامیے کے مطابق ’ضلع کرم میں 08 مختلف زمینی تنازعات چل رہے ہیں جن میں سے بیشتر آزادی سے پہلے کے زمانے کے ہیں۔‘
صوبائی محکمہ داخلہ نے کرم کے عوامسے اپیل کی ہے کہ تنازع کے حل کے لیے ضلعی انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ساتھ دیں۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا کہ ’کئی ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ کچھ شرپسند عناصر اسے فرقہ وارانہ تصادم کا رنگ دے رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبریں پھیلا رہے ہیں۔ ایسے تمام شرپسندوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔‘
محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ تنازع کے خاتمے کے لیےلینڈ کمیشن نے گزشتہ ماہ دو مرتبہ ضلع کرم کا دورہ کیا تھا جبکہ لینڈ کمیشن کا رواں ہفتے تیسرا دورہ کرنے کا منصوبہ بھی ہے۔
حالیہ جھڑپیں کیسے شروع ہوئیں؟
اپر کرم کے علاقے بوشہرہ میں اطلاعات کے مطابق بنگش قبیلے کے ہی لوگوں کے درمیان شاملات پر تنازع تھا جس پر فائرنگ ہوئی اور یہ فائرنگ پھر شدت اختیار کرتی گئی۔
مقامی صحافی ریاض چمکنی نے بتایا کہ ان جھڑپوں میں ہلاک اور زخمی ہونے والے ایسے افراد بھی تھے جو دور دراز سے یہاں آئے تھے۔
مقامی سطح پر یہ کہا گیا کہ دور دراز سے آنے والے افراد کا اس جھڑپ سے کیا تعلق تھا اور باقی علاقوں میں یہ تاثر لیا گیا جیسے اس میں شیعہ مسلک کے لوگ شامل تھے۔ اس کے بعد لوئر کرم میں قبائل کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیںاور اس دوران اپر کرم میں جنگ بندی کر ادی گئی۔
مقامی لوگوں کے مطابق یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا اور دیگر علاقوں میں مختلف قبائل کے درمیان بھی جھڑپیں شروع ہوئی ہیں۔
ان چار دن میں پانچ مختلف علاقوں میں فائرنگ کی اطلاعات ہیں کہیں یہ شدت اختیار کر جاتی ہیں اور کہیں اکا دکا فائر کی اطلاعموصول ہوتی رہتی ہے۔
Getty Imagesتحریک حسینی کے سابق صدر حاجی عابد حسین کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد پاک افغان سرحد پرکشیدگی بڑھ گئی اور وہاں دو قبائل کے درمیان فائرنگ شروع ہوئی (فائل فوٹو) قبائلی مشران کا مؤقف؟
اس تنازعے کا بنیادی سبب زمین کا تنازع تھا اور یہ تنازع بھی ایک ہی قبیلے کے کچھ اراکین کے درمیان تھا جن میں کچھ گھرانوں کا تعلق اہل سنت اور کچھ کا اہل تشیع سے تھا۔
ضلع کرم سے تحریک حسینی کی جانب سے مذاکرات میں شامل تحریک کے سابق صدر حاجی عابد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بنیادی طور پر تنازع ایک کمرے کی تعمیر سے شروع ہوا تھا کیونکہ ایک قبیلے کے لوگ ایک کمرہ تعمیر کرنا چاہتے تھے جبکہ دوسرا فریق اس کے حق میں نہیں تھا اور اس پر کشیدگی میں اضافہ ہوا اور بات فائرنگ پر آئی جس میں جانی نقصان بھی ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد پاک افغان سرحد پرکشیدگی بڑھ گئی اور وہاں دو قبائل کے درمیان فائرنگ شروع ہوئی جس سے یہ تاثر ابھرنے لگا کہ یہ شاید فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور دونوں جانب سے بات چیت بھی ہو رہی ہے اور ایک جگہ اگر جنگ بندی کی جاتی ہے تو دوسرے علاقے میں فائرنگ شروع ہو جاتی ہے۔
اسی طرح اہل سنت سے تعلق رکھنے والے مذاکراتی ٹیم کے رکن ملک عطاءاللہ خلجی نے پاڑہ چنار سے بتایا کہ ’بنیادی طور پر فریقین کے درمیان اگر کوئی تنازع ہے اور وہ اس بارے میں بات چیت کر رہے ہیں تو اس میں باقی لوگوں کو ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے وہ کوششیں کر رہے ہیں کہ علاقے میں امن قائم ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اپر کرم میں جب کمرے کی تعمیر کا تنازع پیدا ہوا تو اس وقت قانون نافذ کرنے والے اہلکار موجود تھے لیکن کشیدگی ان کے جانے کے بعد شروع ہو گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس میں حکومت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں ملکیتی تنازعات ہیں انھیں فوری طور پر حل کر دے تو اس طرح کے واقعات پھر پیش نہیں آئیں گے اور حکومت ان معاملات کو حل کرنے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہی۔‘
انھوں نے کہا کہ اب لوئر کرم میں فائرنگ رک گئی ہے لیکن ادھر افغان سرحد کے قریب اور کچھ دیگر مقامات پر کشیدگی بدستور جاری ہے۔
Getty Images ان جھڑپوں کی وجہ سے علاقے میں خوف پایا جاتا ہےکیونکہ علاقے میں ساری رات شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جاتی ہیں (فائل فوٹو)مقامی لوگ کیا کہتے ہیں؟
ضلع کرم میں ماضی میں بھی مقامی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں اور اب بھی اس میں بعض عناصر اس فرقہ وارانہ تشدد کا سلسلہ قرار دے رہے ہیں لیکن وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہے یہ صرف قبائلی تنازعات ہیں جو شاملات پر شروع ہوئے اور ان میں شیعہ یا سنی کے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔
مقامی صحافیوں نے بتایا کہ اپر کرم میں بوشہرہ کے علاقے میں چار روز پہلے بنگش قبیلے سے ہی تعلق رکھنے والے دو قبائل کے جھڑپیں شروع ہوئی تھیں جنھیں جرگہ اور انتظامیہ کی کوششوں سے جنگ بندی کرا دی گئی تھی۔
مقامی صحافی ریاض چمکنی نے بتایا کہ اس کے بعد لوئر کرم میں جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جہاں مختلف قبائل ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہے اور مورچہ زن رہے ہیں۔
اس کے بعد سنٹرل کرم میں بھی مختلف قبائل کے درمیان کل آور آج جھڑپیں شروع ہوئی ہیں جس میں جانی نقصانات کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ایک جگہ پر کچھ حالات بہتر ہوتے ہیں تو دوسری جگہ پر حالات خراب ہو جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ سال 2007 کے بعد سے اب ایک مرتبہ پھر اس سال اتنی شدید جھڑپیں ہو رہی ہیں اور اب تک حکومت حالات کو قابو میں کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان جھڑپوں کی وجہ سے علاقے میں خوف پایا جاتا ہےکیونکہ علاقے میں ساری رات شدید فائرنگ کی آوازیں سنی جاتی ہیں۔
وفاقی وزیر ساجد حسین طوری کا کہنا ہے کہ وہ مقامی انتظامیہ سکیورٹی حکام اور قبائلی عمائدین کی مدد سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس کشیدگی کو روکا جا سکے۔
ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال پاڑہ چنارمیں کل28 زخمیوں کو لایا گیا ہے جن میں دو ہلاک ہوئے ہیں اور باقی میں کوئی ایسا زخمی نہیں جس کی حالت تشویشناک ہو۔ موقع پر ہلاک ہونے والے افراد کی لاشیں ہسپتال نہیں لائی گئیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ہلاک اور زخمیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔
کرم میں اساتذہ کے قتل کے بعد کیا ہوا؟
ضلع کرم میں اس سال مئی میں پانچ اساتذہ سمیت آٹھ افراد کے قتل کے بعد حالات کشیدہ رہے ہیں۔ واقعات کچھ یوں رپورٹ ہوئے تھے کہ ایک گاڑی پر فائرنگ سے محمد شریف نامی استاد کو قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر پیغامات شیئر کیے گئے تھے کہ شیعہ اکثریتی علاقے میں سنی استاد کو قتل کر دیا گیا ہے جس کے بعد ایک سکول کے سٹاف روم میں موجود اساتذہ سمیت سکول کا عملہ موجود تھا جن پر نا معلوم افراد نے فائرنگ کردی تھی۔
ان واقعات کے بعد علاقے میں حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جہاں سکول کالج اور کاروباری مراکز بند کر دیے گئے تھے۔