انڈینز کا دل جیتنے والے پاکستانی یوٹیوبر: ’خواہش ہے کرکٹ ورلڈ کپ دیکھنے دوبارہ انڈیا جاؤں‘

بی بی سی اردو  |  Jul 12, 2023

پاکستانیوں کے لیے انڈیا کا ویزہ اور انڈین شہریوں کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا ایک دشوار عمل ہے اور اس کے پیچھے وجہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ہیں، جو کسی سے چھپے ہوئے نہیں۔

اگر ویزہ مل بھی جائے تو دونوں ملکوں میں چند ہی شہر ہیں جہاں انتظامیہ ہمسایہ ملک سے آنے والے سیاحوں کو جانے اور گھومنے پھرنے کی اجازت دیتی ہے۔

اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے شہریوں کو یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ مقامی لوگ ان کے ساتھ کس طرح کا رویہ اختیار کریں گے۔

اسی پیچیدہ فضا میں پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والے پاکستانی بائیکر اور یوٹیوبر ابرار حسن نے انڈیا کے مختلف شہروں میں سفر کر کے اور انڈین عوام کے مثبت رویے کو اپنی ویڈیوز کے ذریعے پاکستانیوں اور دنیا تک پہنچا کر بہت سے دل جیت لیے ہیں۔

ابرار نے ٹریول وی لاگ کا کام کیسے شروع کیا؟

ابرار کے پاس جرمنی کی شہریت ہے اور اب ان کی مستقل رہائش بھی جرمنی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ابرار نے بتایا کہ اسلام آباد میں بیچلرز کرنے کے بعد انھوں نے جرمنی سے ماسٹرز کیا۔

تعلیم مکمل ہونے کے بعد جب انھیں نوکری ملی تو انھوں نے مختلف ملکوں کا سفر کرنے کا شوق پورا کرنا شروع کیا۔

وہ پہلے اپنے سفر کی صرف تصویریں کھینچتے تھے لیکن بعد میں کسی دوست نے انھیں یہ مشورہ دیا کہ وہ ویڈیوز بنا کر یوٹیوب پر لگانا شروع کر دیں۔

ابرار کے مطابق ان کی ویڈیوز کو پہلے اتنی پزیرائی نہیں ملتی تھی لیکن مارچ 2020 میں ان کی ایک ویڈیو، جس میں وہ یروشلم گئے تھے، کو بہت پزیرائی ملی۔

اس بارے میں انھوں نے کہا کہ ’پہلی بار ایک پاکستانی کو اسرائیل اور فلسطین میں سفر کرتے ہوئے دکھایا گیا۔ میں نے کوشش کی کہ اسے دیسی سٹائل میں دکھاؤں۔‘

انڈیا جانے کی خواہش

ابرار بتاتے ہیں کہ ان کی ہمیشیہ سے خواہش تھی کہ وہ انڈیا کا سفر کریں۔ انھیں سفری ڈاکیومینٹریز بہت پسند ہیں اور ابتدا میں زیادہ تر دستاویزی فلمیں جو وہ دیکھتے تھے، وہ کشمیر اور لداخ وغیرہ کی ہوتی تھیں۔

’میں جب انڈیا کی ویڈیوز دیکھتا تو کہتا تھا یار، مجھے بھی یہاں پر جانا چاہیے۔ میں نے پہلے بھی دو بار کوشش کی لیکن میرے ویزے کی درخواست مسترد ہو گئی تھی لیکن اس بار مجھے ویزہ مل گیا۔‘

ابرار نے بتایا کہ ان کو انڈیا کا ویزہ ان کے جرمن پاسپورٹ پر ملا لیکن یہ پھر بھی آسان نہیں تھا کیونکہ وہ پاکستانی نژاد ہیں۔

ایسی صورت میں سفارتخانہ مزید دستاویزات مانگتا ہے۔ ’اگر انڈیا سے مقامی طور پر کوئی ایسا خط ہو جو آپ کی ضمانت لے تو تھوڑا آسان ہو جاتا ہے۔‘

ابرار نے بتایا ان کے انڈیا میں کافی دوست ہیں جنھوں نے دعوت کے لیٹر دیے جس کی وجہ سے ان کا کام کافی آسان ہو گیا۔

انھوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر تو چند ہی شہروں میں جانے کی اجازت ہوتی ہے لیکن جرمن پاسپورٹ ہونے کی وجہ سے وہ انڈیا کے کئی شہروں میں گئے۔

’مجھے انڈیا سے بہت پیار ملا‘

ابرار بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنا سفر انڈین ریاست کیرالہ سے شروع کیا جہاں انھوں نے کسٹم والوں سے درخواست کی کہ وہ پاکستانی ہیں اور انکا 30 دن کا ویزہ ہے، اس لیے ان کی موٹرسائکل کو جلدی کلیئر کر کے ان کے حوالے کر دیا جائے اور پھر تین سے چار گھنٹوں میں بائیک ان کے حوالے کر دی گئی۔

ابرار کہتے ہیں کہ انڈین لوگوں کا پیار دکھانے کے لیے انھیں الگ سے محنت نہیں کرنی پڑی بلکہ وہ جس شخص سے بھی اور جو بھی بات کر رہے ہوتے تھے اس ویڈیو کو سوشل میڈیا پر لگا دیتے تھے۔

ابرار کے چینل پر لگی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مختلف علاقوں میں لوگ ان سے ملنے کے لیے جمع ہو جاتے اور ان کو خوش آمدید کہتے ہیں، کھانے کی دعوت اور تحائف بھی دیتے ہیں۔

ابرار کہتے ہیں کہ ’لوگ خود سے میرے پاس آ جاتے تھے۔ مجھے زیادہ محنت کر کے کسی کے پاس نہیں جانا پڑتا تھا۔‘

ابرار بتاتے ہیں کہ وہ ایک یا آدھے گھنٹے پہلے یہ اعلان کرتے تھے کہ وہ کہاں ہوں گے اور لوگوں کی بڑی تعداد ان سے ملنے وہاں پہنچ جاتی اور انھیں بہت پیار ملتا۔ یہ ان کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔

’لوگ مجھے مشورہ دیتے تھے کہ اپنی لوکیشن شیئر نہ کرو۔ میں جواب دیتا کہ اگر میں یہ نہ کروں تو مجھے پھر سڑک پر اگر کوئی مل جائے تو مل جائے لیکن میں لوگوں سے مل نہیں پاؤں گا اور جب میں واپس پاکستان جاؤں گا تو میں لوگوں کو کیا دکھاؤں گا کہ انڈیا کے لوگ اتنے پیار کرنے والے ہیں۔‘

ابرار نے بتایا کہ پہلے ان کی ویڈیوز میں وہ صرف جگہیں دکھاتے تھے لیکن انڈیا کی سیریز میں انھوں نے لوگوں کو بھی دکھایا۔

ابرار نے بتایا کہ چھوٹے شہروں کے لوگ خصوصاً انھیں مل کر خوش ہوئے اور ان کو یقین نہیں ہو رہا تھا کہ جن کی ویڈیوز وہ یوٹیوب پر دیکھتے ہیں وہ ان کے گلی محلے میں ان کے ساتھ موجود ہیں، یہ ایک منفرد چیز تھی۔

’ہر ریاست اور ہر شہر دوسرے سے مختلف‘

ابرار کا کہنا تھا کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی ویڈیوز میں ہمیشہ کچھ مختلف دیکھنے کو ملے۔

’انڈیا ایک ایسا ملک ہے جہاں کی ہر ریاست اور ہر شہر دوسرے سے مختلف ہے، آپ کو لگتا ہے آپ ایک نئے ملک میں آ گئے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کی خوبصورتی تنوع میں ہے۔ اس میں ایک زندگی کے آپ کو بہت سے رنگ ملیں گے۔ آپ کو وہاں یہ چیز بحیثیت سیاح کبھی بور نہیں ہونے دیتی۔‘

ابرار کو انڈیا میں مختلف لوگوں اور ثقافتوں کے علاوہ کھانوں کی مختلف اقسام نے بھی بہت متاثر کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ نے ناشتہ گوا سے کیا ہے اور شام کو آپ مہاراشٹرا میں ہیں تو درمیاں میں آتے آتے کھانا کافی تبدیل ہو جاتا تھا۔ آپ کو نئے قسم کا کھانا مل رہا ہوتا تھا۔‘

سیاحتی اور تاریخی مقامات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا کی ایک چیز جو مجھے بہت پسند آئی اور جو ہمیں ان سے سیکھنی چاہیے کہ انھوں نے اپنی تاریخی عمارتوں کو جس طرح محفوظ کیا، ان کی دیکھ بھال کا میعار دنیا میں آپ کہیں چلے جائیں کسی لحاظ سے کم نہیں۔‘

’کوئی منفی واقعہ پیش نہیں آیا‘

ابرار کا کہنا تھا کہ انڈیا میں ان کے ساتھ کسی قسم کا برا سلوک نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی منفی واقعہ پیش آیا۔

ان کا کہنا تھا ان کی کوشش تھی کہ وہ مقامی لوگوں، تاریخی اور مذہبی جگوں کا پورا احترام کریں اور مثبت چیزیں دکھائیں تاکہ اگر انڈین انتظامیہ ان کا کام دیکھے تو ان کو انھیں ویزا دینے پر افسوس نہ ہو اور اس وجہ سے باقی پاکستانیوں کو بھی مسئلہ نہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شدت پسند طبقہ آپ کو ہر ملک میں ملے گا لیکن یہ اکثریت نہیں ہوتی۔ میرا مقصد تھا میں اکثریت کی نمائندگی کر سکوں۔ میں نے اپنے اخلاق سے، اپنی ویڈیوز سے ایک اچھا پیغام دینے کی کوشش کی۔‘

’30 دن انڈیا دیکھنے کے لیے کافی نہیں‘

ابرار نے بتایا کہ انھوں نے جب بھی سفر کیا ان کے پاس وقت کافی ہوتا ہے لیکن اس بار وقت کم تھا، لہذٰا یہ پہلی بار ہوا کہ انھوں نے جب واپس سرحد عبور کی تو ان کے دل کی یہ خواہش تھی کہ سرحد پر کھڑی انتظامیہ انھیں واپس بھیج دے کیونکہ ’30 دن انڈیا دیکھنے کے لیے کافی نہیں۔‘

ابرار 30 دن تک انڈیا میں رہے اور مختلف شہروں کا سفر بھی کیا۔ اس دوران نہ صرف وہ موٹر سائکل چلا رہے تھے بلکہ ویڈیوز بناتے اور ایڈٹ بھی کرتے، جو کافی تھکا دینے والا کام تھا۔

لیکن ان کا کہنا ہے کہ ’جب آپ خوشی سے سفر کر رہے ہوں، کھانا اچھا مل رہا ہو اور لوگ آپ سے اتنا پیار کر رہے ہوں تو اس کی وجہ سے تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔‘

ابرار نے بتایا کہ انھوں نے ممبئی، دلی، آگرا، امرتسر، چندی گڑھ، راجستھان کی سیر کر لی لیکن حیدرآباد، بنگلور، لکھنو، بنارس، کلکتہ، چنائی نہیں جا سکے۔ ان کی خواہش ہے کہ انھیں ان مقامات پر جانے کا موقع بھی ملے۔

ابرار کا کہنا تھا کہ اگر ان کے پاس تین مہینے کا ویزہ ہوتا تو وہ یہ سب بھی کر لیتے۔

ابرار نے کہا کہ وہ دوبارہ انڈیا جانا چاہیں گے اور وہ کوشش بھی کر رہے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کو وہ وہاں جا کر دیکھ سکیں۔

ابرار کا ماننا ہے کہ ’اچھے لوگ دونوں طرف ہیں اور جو بھی اچھے لوگ ہیں ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ہمارے درمیان امن ہونا چاہیے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More