فرانس کے پولیس اہلکار اپنے موبائل فونز کے ذریعے مشتبہ افراد کی جاسوسی کر سکیں گے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق قانون سازوں نے بدھ کو اہلکاروں کو فونز، کیمرے، مائیکروفون اور دیگر آلات کے ذریعے دور سے ہی مشتبہ افراد کی جاسوسی کی اجازت دینے پر اتفاق کیا ہے۔جاسوسی کے اس طریقہ کار کی اجازت انصاف کے وسیع البنیاد اصلاحاتی بل کا حصہ ہے تاہم بائیں اور دائیں بازو کی جانب سے اس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔دوسری جانب وزیر انصاف ایریک ڈوپونڈ موریٹی کا اصرار ہے کہ ’اس سے ہر سال صرف چند درجن مقدمات ہی متاثر ہوں گے۔‘اس کے تحت لیپ ٹاپس اور گاڑیوں میں لگے دیگر آلات جو موبائل فونز سے جڑے ہوں گے، کی بدولت ایسے مشتبہ افراد کی جیولوکیشن پر نظر رکھی جا سکے گی جن کی جانب سے پانچ سال تک کی سزا کے جرم کا احتمال ہو۔دور سے فعال ہو سکنے والے آلات سے دہشت گردی اور دیگر جرائم میں ملوث افراد کی تصاویر لی جا سکیں گی اور آواز بھی ریکارڈ کی جا سکے گی۔ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے نئی پرویژن کے بعد ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ ’اس سے بنیادی آزادیوں پر شدید ضرب پڑے گی۔‘بیان میں اقدام کو پہلے سے ہی سخت سکیورٹی اقدامات میں ’سکیورٹی، نجی زندگی، نجی پیغام رسانی اور آزادی سے آنے جانے کے حقوق‘ کے حقوق کے لیے نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔بدھ کو بل پر ہونے والی بحث میں صدر ایمانوئل میکخواں کے حامی ارکان کی جانب سے ایک ترمیم پیش کی گئی جس میں کہا گیا تھا کہ ’دور سے جاسوسی کا جواز صرف انتہائی سنجیدہ صورت حال میں استعمال کیا جائے اور اس کو ایک مخصوص وقت تک ہی محدود رکھا جائے۔‘ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں نے اقدام کو بنیادی آزادیوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)رپورٹ کے مطابق جاسوسی سے قبل جج سے اجازت لینا ضروری ہو گا جبکہ نگرانی کا دورانیہ سچھ ماہ سے زیادہ نہیں رکھا جا سکے گا۔ڈاکٹرز، صحافیوں، قانون دانوں، ججز اور ارکان اسمبلی سمیت دوسرے حساس پیشوں سے وابستہ لوگوں کو اس کا ہدف نہیں بنایا جائے گا۔ایریک ڈوپونڈ موریٹی کا کہنا ہے کہ ’ہم 1984 کی ٹوٹلٹیرینزم سے بہت دور ہیں۔‘ یہ جارج اورل کا ایک ناول ہے جس میں پورے معاشرے کی نگرانی کا خیال پیش کیا گیا تھا۔ان کے مطابق ’قانون کے مطابق عوام کی زندگیوں کو تحفظ دیا جائے گا۔‘مذکورہ دفعہ ایک آرٹیکل کا حصہ ہے جس میں اور بھی کئی دفعات شامل ہیں۔ اس کو قومی اسمبلی میں ووٹنگ سے گزارا گیا۔